خواجہ سرا (Transgender)۔۔ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی

یوں تو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کسی بھی اقلیت کے حقوق بہت محفوظ نہیں ہیں لیکن ہمارے ہاں جس قدر زیادتی اور حق تلفی خواجہ سراؤں کے ساتھ ہوتی ہے اس کی مثال شاید ہی کہیں اور مل سکے- اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواجہ سراؤں سے متعلق بنیادی معلومات کی بے حد کمی ہے- زیادہ تر لوگ اس شدید غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ خواجہ سرا صرف گانا بجانا ہی کر سکتے ہیں یا جسم فروشی ہی کر سکتے ہیں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے حالانکہ اس کا حقیقت سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے
جنسی شناخت:
عام طور پر ہم افراد کی جنس کو صرف لڑکا یا لڑکی کے طور پر ہی دیکھتے ہیں- لیکن حقیقت میں کسی شخص کی جنس کی شناخت خاصہ پیچیدہ مسئلہ ہو سکتا ہے- افراد کی جنس (یعنی ان کے لڑکا یا لڑکی ہونے) کا تعین بہت سی ظاہری اور اندرونی خصوصیات سے کیا جاتا ہے- مثال کے طور پر کسی شخص کی جنس مندرجہ ذیل عوامل سے متعین ہوتی ہے:
جینیات: بنیادی طور پر جنسی شناخت ڈی این اے میں موجود ایکس اور وائے کروموسومز سے متعین ہوتی ہے- جنس کا تعین کرنے والے کروموسومز کو ایکس کروموسوم اور وائے کروموسوم کہا جاتا ہے- فرٹیلائزیشن سے پہلے بیضے میں صرف ایکس کروموسوم ہی ہوتا ہے جب کہ سپرم میں یا تو ایکس کروموسوم ہوتا ہے یا پھر وائے کروموسوم- اگر ایکس کروموسوم کے حامل سپرم سے بیضے کی فرٹیلائزیشن ہو تو لڑکی پیدا ہوتی ہے کیونکہ فرٹیلائزیشن کے بعد بیضے میں دو ایکس کروموسوم ہو جاتے ہیں جسے XX کہا جاتا ہے- اس کے برعکس اگر وائے کروموسوم کے حامل سپرم سے بیضے کے فرٹیلائزیشن ہو تو بیضے میں ایک ایکس اور ایک وائے کروموسوم ہوتے ہیں جسے XY کہا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ لڑکے کی صورت میں نکلتا ہے
جنسی غدود: جسم میں خصیوں کا وجود عام طور پر انسان کو مردانہ خصوصیات عطا کرتا ہے اور اووریز (ovaries) کا وجود زنانہ خصوصیات- یہ جنسی غدود نہ صرف سپرم اور بیضے بناتے ہیں بلکہ جنسی ہارمونز بھی خارج کرتے ہیں جو جسم کے دوسرے حصوں کی تشکیل میں معاون ہوتے ہیں اور لڑکے اور لڑکی کے جسم میں واضح فرق پیدا کرتے ہیں
اندرونی جنسی اعضا: جسم کے اندرونی اعضاء مثلاً یوٹرس، فیلوپن ٹیوبز بھی جنسی شناخت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں- یہ اندرونی اعضاء صرف نسوانی جسموں میں ہی ہوتے ہیں، مردوں کے جسم میں یہ اعضاء نہیں ہوتے
بیرونی جنسی اعضا: عام طور پر جنس کا تعین بیرونی جنسی اعضاء سے کیا جاتا ہے- لڑکوں میں خصیوں اور عضو تناسل کی موجودگی اور لڑکیوں میں اندام نہانی اور بلوغت کے بعد ابھری چھاتیوں کی موجودگی جنس کے تعین میں مدد دیتی ہیں
جنسی ہارمونز: خون میں موجود جنسی ہارمونز کی مقدار نہ صرف جسمانی ساخت کا تعین کرتی ہے بلکہ خون میں ان ہارمونز کی موجودگی اور ان کا آپسی تناسب براہِ راست افراد کی جنس کے تعین کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے
جسمانی خدوخال: بلوغت کے وقت لڑکوں میں داڑھی مونچھ نکلنا، کندھوں کا چوڑا ہو جانا، آواز کا بھاری ہو جانا، اور لڑکیوں میں چھاتیوں کا ابھر جانا، کولہوں کا بڑا ہو جانا لڑکوں اور لڑکیوں میں واضح فرق پیدا کر دیتا ہے چنانچہ عموماً کسی شخص کی جنس محض ایک نظر میں پہچانی جا سکتی ہے- اس کے علاوہ اکثر معاشروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لباس اور اطوار مختلف ہوتے ہیں لیکن سائنس کے نکتہ نظر سے لباس اور اطوار کو جنس کی شناخت کے لیے قابل اعتماد پیمانہ نہیں تصور کیا جاتا
خواجہ سرا کیا ہیں؟
ہم نے دیکھا کہ بچے میں جنس کا تعین کروموسومز کی بنا پر ہوتا ہے اور XX کروموسومز لڑکی اور XY کروموسومز لڑکے کا جسم ترتیب دیتے ہیں- لیکن لڑکا یا لڑکی کی ڈیفینیشن بالکل الگ الگ یعنی binary نہیں ہے بلکہ خصوصیات کا ایک سپیکٹرم ہے جس کے ایک سرے پر لڑکے اور دوسرے سرے پر لڑکیاں ہیں لیکن ان خصوصیات میں کچھ overlap بھی ہو سکتا ہے- بالکل نارمل لڑکیوں کا رویہ لڑکوں جیسا ہو سکتا ہے اور بالکل نارمل لڑکوں میں کچھ عادات نسوانی ہو سکتی ہیں- ایسی لڑکیاں یا لڑکے اپنے اطوار میں شاید ہمیں کچھ عجیب لگیں لیکن بیالوجی کے نکتہ نظر سے وہ نارمل ہی تصور ہوتے ہیں-
بعض اوقات کسی وجہ سے بچے کے جنسی اعضاء کی تشکیل درست طور پر نہیں ہو پاتی اور بچے میں کچھ خصوصیات لڑکوں کی اور کچھ لڑکیوں کی آ جاتی ہیں- یہ ممکن ہے کہ اس بچے کے جسم میں ظاہری اعضاء سب لڑکوں والے ہوں لیکن جسم میں خصیے نہ ہوں بلکہ اووریز ہوں یعنی جسم بجائے سپرم پیدا کرنے کے بیضے پیدا کر رہا ہو- اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بچے کے جسم کا تناسب تو لڑکیوں والا ہو لیکن جسم میں خصیے بھی موجود ہوں- اگر کسی شخص میں کچھ جسمانی خدوخال اور جنسی اعضاء لڑکوں والے اور کچھ لڑکیوں والے ہوں تو ایسے افراد کو خواجہ سرا کہا جاتا ہے-
اکثر اوقات خواجہ سرا بچوں کے جنسی اعضا ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں بچپن سے ہی خواجہ سرا کے طور پر پہچانا جا سکتا ہے- لیکن بہت سے خواجہ سرا بلوغت سے پہلے نہیں پہچانے جاتے- بلوغت سے پہلے جنسی غدود فعال نہیں ہوتے اور جسم میں جنسی ہارمونز کی مقدار بھی کم ہوتی ہے- اس وجہ سے بلوغت سے پہلے لڑکوں اور لڑکیوں کی جسمانی ساخت میں زیادہ فرق نہیں ہوتا اور کئی خواجہ سرا بچے عام بچوں سے مختلف معلوم نہیں ہوتے- البتہ بلوغت کے بعد یہ فرق زیادہ واضح ہونے لگتا ہے- مثلاً کچھ لڑکوں کے بلوغت کے وقت داڑھی مونچھ نہیں آتی اور آواز بھاری نہیں ہوتی اور کچھ لڑکیوں میں وہ جسمانی تبدیلیاں نہیں ہوتیں جو نارمل لڑکیوں میں بلوغت کے وقت ہوتی ہیں
ایک اندازے کے مطابق کسی بھی بڑی آبادی میں لگ بھگ دو فیصد افراد جنس کے سپیکٹرم کے اس حصے میں ہوتے ہیں جس میں لڑکے یا لڑکی میں تفریق بہت واضح نہیں ہوتی- ان میں سے کئی لوگوں کو خود بھی یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ مکمل مرد یا مکمل عورت نہیں ہیں اور ان میں دونوں جنسوں کی کچھ خصوصیات موجود ہیں- ہمارے ہاں چونکہ اس موضوع پر بات کرنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے اس لیے بہت سے لوگوں کو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں سے مختلف ہیں- کئی صورتوں میں جب تک جینیاتی ٹیسٹ نہ کیے جائیں تب تک جنس کا حتمی تعین نہیں ہو پاتا- اولاد سے محروم کچھ لوگوں میں بچے نہ ہونے کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شوہر یا بیگم میں سے کسی ایک میں جنسی اعضا مکمل طور پر موجود نہیں ہیں- بعض اوقات بلوغت کے بعد لڑکیوں میں ماہواری کا نہ آنا اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ ان میں اندرونی جنسی اعضا مکمل نہیں ہیں- بعض لڑکوں میں خصیے موجود ہوتے ہیں (اس لیے دیکھنے میں وہ نارمل لگتے ہیں) لیکن خصیوں میں سپرم پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی-
خواجہ سرا ہونے کی وجوہات:
خواجہ سرا ہونے کی بہت سے وجوہات ہو سکتی ہیں- مثال کے طور پر کسی وجہ سے اگر فرٹیلائزڈ بیضے میں جنسی کروموسومز کی تعداد زیادہ ہو جائے (مثلاً دو ایکس کروموسوم اور ایک وائے کروموسوم XXY، ایک ایکس اور دو وائے کروموسوم XYY وغیرہ) تو اس کی وجہ سے بچے کے جنسی اعضا کی نشونما نارمل نہیں ہو پاتی اور ایسے بچے کی جنس مبہم ہو سکتی ہے- (اصولاً فرٹیلائزڈ بیضے میں XXX کروموسومز بھی ہو سکتے ہیں لیکن ان کے حامل افراد خواجہ سرا نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ لڑکیاں ہی ہوتی ہیں اگرچہ ان میں کچھ خصوصیات abnormal ہوتی ہیں)-
اگر بیضے میں جنسی کروموسومز کی تعداد درست ہو تو بھی بعض اوقات رحم مادر میں بچے کے جنسی اعضاء کی نشونما ابنارمل ہو سکتی ہے- مثال کے طور پر اگر فرٹیلائزڈ بیضے میں ایکس ایکس کروموسومز ہیں جس سے لڑکی پیدا ہوتی ہے لیکن کسی وجہ سے رحم مادر میں مردانہ ہارمونز زیادہ بن رہے ہیں (جس کی ایک وجہ ماں کی اووریز میں ٹیومر ہو سکتی ہے) تو جنین کے بیرونی جنسی اعضا لڑکوں جیسے ہو سکتے ہیں- ایسی بچیوں میں اندرونی طور پر تمام جنسی اعضا لڑکیوں کے ہی ہوتے ہیں یعنی ان میں اووریز، فیلوپن ٹیوبز، اور یوٹرس موجود ہوتی ہے لیکن ان کے بیرونی جنسی اعضاء لڑکوں جیسے ہو سکتے ہیں اور بلوغت کے وقت ان کے خدوخال لڑکوں جیسے ہونے لگتے ہیں
اسی طرح اگر فرٹیلائزڈ بیضے میں ایکس وائے کروموسومز ہیں جس سے لڑکا پیدا ہوتا ہے لیکن رحم مادر میں مردانہ جنسی ہارمونز کی کمی ہو (یا پیدائش کے بعد بچے کے جسم میں مردانہ جنسی ہارمونز کی کمی ہو) تو بیرونی جنسی اعضا مردانہ نہیں ہوتے- ایسا بچہ اندرونی طور پر لڑکا ہی ہوتا ہے یعنی اس میں اووریز، فیلوپن ٹیوبز، یا یوٹرس نہیں ہوتے- اس بچے کے جسم میں خصیے موجود ہوتے ہیں اگرچہ عموماً خصیے جسم سے باہر نہیں ہوتے اس لیے عام لڑکوں کی طرح ان کے خصیے دیکھے نہیں جا سکتے
بچے کے دماغ کی ساخت:
اگر بچے کے ڈی این اے میں دو ایکس کروموسومز ہیں تو رحم مادر میں نشونما کے دوارن بچے کے جسم میں زنانہ جنسی ہارمونز ایسٹروجن بہت زیادہ ہو نگے- ایسٹروجن بچے کے دماغ میں نسوانی رویوں سے متعلق دماغی سٹرکچرز ترتیب دیتا ہے- اس کے برعکس اگر بچے میں ایک وائے کروموسوم موجود ہے تو رحم مادر میں مردانہ جنسی ہارمون انڈروجن بہت زیادہ ہوں گے- اینڈروجن بچے کے دماغ میں مردانہ رویوں سے متعلق دماغی سٹرکچرز ترتیب دیتا ہے- بچے کے جنسی اعضا کی تشکیل حمل کے پہلے تین ماہ میں ہو جاتی ہے جبکہ دماغ کی تشکیل حمل کے آغاز سے لے کر پیدائش تک جاری رہتی ہے اور حمل کے آغاز کے چھ ماہ بعد دماغی سٹرکچرز انتہائی تیزی سے بننے لگتے ہیں- اگر رحم مادر میں لڑکا پنپ رہا ہے لیکن حمل کے تیسرے ٹرائمسٹر میں (یعنی حمل کے آغاز کے لگ بھگ چھ ماہ کے بعد) رحم مادر میں کسی وجہ سے زنانہ جنسی ہارمونز کی بہتات ہو جائے تو بچے کا دماغی سٹرکچر لڑکی کا ہو سکتا ہے اگرچہ اس کے جنسی اعضاء لڑکے کے ہوں گے- یہ بچہ بڑا ہو کر اپنے مردانہ جسم سے نفرت کرے گا اور اپنے آپ کو لڑکی سمجھے گا- اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ بچے کا جسم تو مکمل طور پر لڑکی کا ہو لیکن رحم مادر میں مردانہ ہارمونز کی زیادتی کی وجہ سے بچے کے دماغ کا سٹرکچر لڑکے کا ہو- ایسی صورت میں یہ بچی اپنے آپ کو لڑکا سمجھے گی کیونکہ اس کا دماغ ایک لڑکے کا دماغ ہو گا- ایسے بچوں کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے کیونکہ ہمارے کلچر میں اس مسئلے کے وجود کا ہی تصور نہیں ہے-
کیا خواجہ سرا کو لڑکا یا لڑکی بنایا جا سکتا ہے؟
یہ ضروری نہیں ہے کہ خواجہ سرا کی کنڈیشن کا علاج ممکن ہو- آج کل سرجری سے البتہ ایسے لوگوں کے بیرونی اعضا کو کافی حد تک درست کیا جا سکتا ہے- ہم کئی دفعہ سنتے ہیں کہ سرجری سے ایک لڑکا لڑکی بن گیا یا ایک لڑکی لڑکا بن گئی- یہ خبریں عموماً خواجہ سرا سے متعلق ہی ہوتی ہیں- ایسے لوگوں کے جنسی اعضا عموماً یا تو مبہم ہوتے ہیں جنہیں سرجری کر کے درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر ایسے لوگوں کی شخصیت (یعنی ذہنی طور پر ان کی جنس کی شناخت) ان کے جسمانی خدوخال سے میل نہیں کھاتی اس وجہ سے وہ اپنے جسمانی جنسی اعضاء سے مطمئن نہیں ہوتے- ایسے افراد میں سرجری کے علاوہ ہارمونز سے بھی جسمانی خدوخال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-
اس قسم کی سرجری انتہائی پیچیدہ ہوتی ہے اور اکثر اوقات سرجن کو بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سرجری کا نتیجہ کیا ہو گا- مریض جو اپنی مرضی سے سیکس چینج آپریشن کرواتے ہیں اکثر اوقات وہ سرجری کے نتائج سے غیر مطمئن رہتے ہیں اور یوں مزید نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ خواجہ سرا کا ‘علاج’ کیوں ضروری ہے- کیا ہم یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ کچھ افراد ہم سے مختلف ہیں؟ کیا ہم اپنے سے مختلف افراد کو ان کی مرضی کے مطابق جینے کا حق نہیں دے سکتے؟ اکثر خواجہ سرا جب اپنی سرجری کرواتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو سوسائٹی میں مس فٹ سمجھتے ہیں- لیکن کیوں؟ اس لیے کہ انہیں ہر کوئی، ہر وقت یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ نامکمل ہیں، انہیں یا مرد ہونا چاہیے یا عورت- تو مسئلہ خواجہ سراؤں میں نہیں ہے ہمارے رویوں میں ہے کہ ہم انہیں ایسا قبول نہیں کرنا چاہتے جیسا فطرت نے انہیں تشکیل دیا ہے-
اوریجنل آرٹیکل کا لنک:

Facebook Comments