• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عرب اسرائیل تعلقات کی خفیہ اور طویل داستان ۔۔جوزف مسعد

عرب اسرائیل تعلقات کی خفیہ اور طویل داستان ۔۔جوزف مسعد

پچھلے کچھ عرصے کے دوران اسرائیلی حکام بشمول خلیجی ریاستوں، مراکش اور سوڈان کے دیگر عرب ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کی استواری کے لیے کوششیں کرتے نظر آئے ہیں۔ یہ وہ ریاستیں ہیں کہ انہیں بھی اب یہ محسوس ہوا ہے کہ ایران کے برعکس، اسرائیل ان کا دشمن نہیں بلکہ دوست ہے۔ اس سے سیاسی حلقوں میں کافی ہلچل دکھائی دی ہے کیونکہ ان ملکوں نے بظاہر اسرائیل کے ساتھ اب تک اس لیے تعلقات ترک کیے رکھے تھے کہ وہ فلسطینوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں۔

لیکن یہ سب افسانوی حقیقتیں ہیں، کیونکہ ماضی میں عرب ریاستوں کے اکثر رہنماؤں کے اسرائیل اور اس سے قبل صہیونی تحریک کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رہے ہیں۔ مزاحمت کا یہ بیانیہ عرب حکام اور اسرائیل دونوں کی جانب سے پیش کیا جاتا رہا، جس میں یہ بھی کہا گیا کہ عربوں نے اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطینیوں کی خاطر اسرائیل سے جنگیں لڑی ہیں۔ اب باہمی معاونت کے نئے موقف کے بعد یہ کہا جارہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ عرب حکام اپنے مفادات کو مقدم رکھیں، گویا اس سے قبل تو فلسطین کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔

تقریباََ انہی خیالات کا اظہار سوڈان کے آرمی چیف نے حال ہی میں یوگنڈا میں اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد کیا تھا۔ حلانکہ کسی سوڈانی سرکاری شخصیت کی نتنیاھو سے یہ پہلی ملات نہیں تھی۔ سال 1950ء کے دوران جب سوڈان برطانوی اور مصری حکومتوں کے ماتحت تھا اور آزادی حاصل نہیں کی تھی تو اس وقت ملک کی بڑی جماعت حزب الامت نے خفیہ طور پہ اسرائیل سے اپنی آزادی کی حمایت کے لیے تعان مانگا تھا، جب آزاد سوڈان کا قیام عمل میں آگیا تو 1957ء میں پہلے سوڈانی وزیراعظم عبداللہ خلیل نے پیرس میں اسرائیلی رہنما گولڈا میئر سے خفیہ ملاقات کی تھی۔ 80 کی دہائی کے اوائل میں صدر جعفر نمیری نے اسرائیلی حکام کے ساتھ مل کر اتھوپیا کے یہیودیوں کی اسرائیل نقل مکانی کو یقینی بنایا تھا تاکہ وہ فلسطینی زمینوں پر جاکے رہائش اختیار کریں۔

اسی طرح 2016ء میں جب عمرالبشیر حکومت میں تھے، سوڈانی وزیرخارجہ نے اپنے ملک سے امریکی اقتصادی پابندیاں اٹھانے کے عوض اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ک۔ قیام کی پیشکش کی تھی، جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’سوڈان کی سکیورٹی اور اس کے مفادات مقدم ہیں‘۔
باہمی تعلقات کی یہ تاریخ اسرائیل کے قیام کے بعد کی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے کی ہے۔ امیر فیصل الحسین جو کچھ وقت کے لیے حجاز کے اور بعدازاں عراق کے بادشاہ رہے، انہوں نے پیرس امن کانفرنس ہونے سے دو ہفتے قبل 3 جنوری 1919ء کو اس وقت عالمی صہیونی تنظیم کے رہنما کھائم ویزمان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا کہ اگر اسے ایک وسیع سلطنت کے قیام میں تعاون کیا جائے تو وہ فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام میں مدد کریں گے۔ مگر 1920ء میں فرنچ استعمار نے امیر فیصل بن الحسین کو حکومت سے الگ کردیا۔ اس کے بعد ان کے بھائی امیر عبداللہ بھی صہیونی تحریک کو ساری زندگی یہ کہتے رہے کہ اگر انہیں فلسطین اور مشرقی اردن میں بادشاہ بنایا جائے تو وہ ان کے مقاصد کے حصول میں راہ ہموار کریں گے۔ امیر عبداللہ کو انہی تعلقات پر ناراضی کی وجہ سے 1951ء میں قتل کر دیا گیا تھا۔

اردن کے بادشاہ حسین نے 1960ء میں اپنے ملک کے فوجی رہنماؤں کو اسرائیلی حکام کے ساتھ تعاون کی اجازت دی تھی۔ اس کے بعد 1963ء میں لندن میں اپنے ذاتی معالج کے کلینک میں اسرئیلی رہنماؤں سے ملے تھے۔ بعدازاں تواتر کے ساتھ وہ خفیہ طور پہ اسرائیل جاتے رہے۔ اسحاق رابن جس نے 1948ء میں خود فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کا آغاز کیا تھا، 1994ء میں جب اس کی وفات ہوئی تو اردن کے شاہ حسین اپنے دوست کے جنازے میں شرکت کے لیے اسرائیل آئے تھے۔

شاہ حسین اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کے جواز کے لیے ایک تو اپنی حکومت کے تحفظ کو دلیل بناتے تھے اور دوسرا مصری صدر جمال عبدالناصر کے پریشر اور فلسطینی حریت پسند تحریکوں کے خطرات کو بھی وجہ بتاتے تھے۔

ایسے ہی لبنان کے مارونی چرچ کے 1940ء کی دہائی سے صہیونی رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہیں۔ لبنان کے مسیحی وہاں اپنے لیے اسرائیلی طرز کی فرقہ پرست ریاست کے قیام کی خواہش رکھتے ہیں۔

1950ء میں تیونس کی حزب دستور نے فرنچ استعمار سے آزادی کے لیے اسرائیلی نمائندگان کے تعاون کے ساتھ اقوام متحدہ میں قرارداد پش کی تھی۔ آزادی کے بعد تیونس کے حکمران حبیب بورقیبہ نے 1987ء میں اپنی وفات کے وقت تک اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھے تھے۔

60 کی دہائی میں اسرائیل نے یمن میں بادشاہت اور جمہوریت پسندوں کے مابین تنازع کے دوران بادشاہت کو قائم رکھنے کے سعودی موقف کی حمایت کی تھی اور یمن میں بادشاہت کے تعاون کے لیے اسرائیلی جہاز اسلحہ اور بھاری رقم لے کر اترے تھے۔

اُسی دہائی سے مراکش کے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ روابط چلے آرہے ہیں۔ مراکش کے شاہی خاندان نے خفیہ معاہدوں کے تحت اپنے ملک کے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا تاکہ وہ فلسطینی اراضی پر اپنے گھر تعمیر کرسکیں۔

1963ء میں مراکشی وزیر محمد اوفقیر نے اسرائیلی حکام کے ساتھ اپنی خفیہ ایجنسیوں کی تربیت کا معاہدہ کیا تھا اور اپنی حکومت کے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا تعاون بھی طلب کیا تھا۔ 1976ء میں اسحاق رابن کو مراکش کے خفیہ دورے پر مدعو کیا گیا تھا۔ 1986ء کے بعد سے دونوں ملکوں مں کچھ خفیہ نہیں ہے، کیونکہ اسی سال شمعون پیریز کا کھلے عام فقیدالمثال استقبال کیا گیا تھا۔ جبکہ اسرائیل نے 2018ء میں صدر ٹرمپ کی جانب سے پیش کی گئی ’صدی کی ڈیل‘ کو تسلیم کرنے اور اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کے عوض یہ پیشکش کی کہ وہ اس بات کی ضمانت دے گا کہ امریکا مراکش کی حدود کے ساتھ واقع غربی صحرا پر اس کی ملکیت کو تسلیم کرلے گا۔

مصر اور اسرائیل کے روابط کوئی ڈھی چھپی بات نہیں ہیں۔ 1991ء کے بعد سے اسرائیلی سرکاری نمائندگان اور کھلاڑیوں کا خلیجی ریاستوں میں کھلا آنا جانا ہے۔ بالخصوص قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات اور عمان۔ جبکہ سعودی عرب سے تعلقات پوشیدہ رکھے گئے ہیں۔

عرب حکومتوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات عداوت کے رہے ہوں یا دوستی کے، اس کی بنیاد ان حکام کے ذاتی مفادات تھے، جنہیں ’قومی مفادات‘ کے نام سے تعبیر کیا جاتا رہا۔

ان دو طرفہ تعلقات کے نتیجے 1991ء میں ’اوسلو معاہدہ‘ اور ’میڈرڈ امن کانفرنس‘ ہوئے جس کے بعد فلسطینی قومی قیادت اور فلسطین لبریشن آرگنائیشن اسرائیلی فوج کے ماتحت ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ ساری پیش رفت اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل نے مسلسل عرب اشرافیہ اور ان ملکوں کے تاجر طبقے کو اپنے حق میں مائل کرنے کی سعی جاری رکھی ہے۔ اور یہ بھی کہ یہ اشرافیہ کس قدر ان کوششوں کے جواب میں تعاون کے لیے تیار رہی ہے۔

اسرائیل نے اگرچہ کامیابی کے ساتھ ان ممالک کی سیاسی اور تاجر اشرافیہ کو اپنی طرف راغب کیا ہے، تاہم وہ عرب ملکوں کے عام دانشور حلقے کو اپنے حق میں نرم کرنے میں ناکام ہوا ہے، سوائے ان گنے چنے افراد کے جو عرب حکام کے اشاروں پر کام کرتے رہے۔ اسی طرح عرب عوام نے بھی اسرائیل کو سختی سے مسترد کیے رکھا ہے، ان کا خیال ہے کہ اسرائیل ان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تجزیات آن لائن

Facebook Comments