دریا میں گھوڑا اور آبشار (20)۔۔وہاراامباکر

دسیوں ہزار لوگ 1980 کی دہائی میں ایک عجیب چیز نوٹس کرنے لگے۔ جب وہ آئی بی ایم کا سیاہ اور سفید لوگو اپنے فلاپی ڈِسک میں دیکھتے تو یہ الفاظ سرخ نظر آتے۔ جب وہ کتاب کے صفحات پڑھتے تو بھی سرخی مائل شیڈ محسوس ہوتا۔ لیکن ایسا صرف 1980 کی دہائی میں ہوتا رہا۔ نہ ہی اس سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد۔ ایسا کیوں؟ اس کے لئے ہم 2400 سال پہلے چلتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظر کے دھوکوں کی پہلی ریکارڈ کی جانے والی مثال ارسطو کی ہے۔ دریا میں ایک گھوڑا پھنس گیا تھا اور اس کو نکالنے کے لئے ریسکیو آپریشن کیا جا رہا تھا۔ ارسطو اس کو دیکھ رہے تھے۔ جب یہ مکمل ہو گیا اور انہوں نے نظر کہیں اور کی تو سب کچھ ۔۔ پتھر، درخت، زمین ۔۔ دریا کی دوسری طرف بہتے ہوئے محسوس دئے۔
ارسطو کی اس کنفیوژن کا تجربہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی آبشار پر کچھ دیر تک نظر جمائی رکھیں۔ جب آپ اس آبشار سے نظر ہٹا کر قریب چٹان کو دیکھیں گے تو محسوس ہو گا کہ پتھر اوپر کی طرف جا رہے ہیں۔ نظر کے اس دھوکے کو موشن آفٹر ایفکٹ کہا جاتا ہے۔ یہ ہوتا کیوں ہے؟ ویژوئل کورٹیکس کے کچھ نیورونز کی ایکٹیویٹی نیچے کی طرف حرکت کی نمائندگی کرتی ہے، کچھ کی اوپر کی طرف۔ زیادہ تر ان کا مقابلہ برابر رہتا ہے اور یہ ایک دوسرے کے اثر کو کینسل کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں نہ ہی دنیا اوپر کو جاتی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی نیچے کی طرف۔
اب اس کی بنیاد پر آفٹر موشن ایفیکٹ کی کی ایک مقبول وضاحت “تھکاوٹ” ہے۔ جب ہم نیچے کی طرف حرکت کو مسلسل دیکھ رہے ہیں تو نیچے کی حرکت کوڈ کرنے والے نیورونز توانائی خرچ کر رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ان کا جوش و خروش ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔ اس وجہ سے یہ لڑائی اوپر کی حرکت کوڈ کرنے والے نیورونز کے حق میں ہو جاتی ہے اور غیرمتوازن مقابلے کا نتیجہ ہمیں اوپر کی طرف حرکت دیکھنے کی صورت میں ملتا ہے۔
یہ وضاحت سادہ ہے لیکن قریب سے تجزیہ کرنے پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ تھکاوٹ کا مفروضہ تھکا ہوا ہے۔ یہ اس سراب کے اہم فیکٹس کی وضاحت نہیں کرتا۔ اگر آپ آبشار گرتے ہوئے دیر تک دیکھ رہے ہیں اور اس کے بعد آنکھ اچھی طرح بند کر لیتے ہیں۔ ایک گھنٹے (یا اس سے بھی زیادہ) تک آنکھ بند کر کے رکھتے ہیں اور پھر کھول کر چٹان کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ پھر بھی اوپر کی طرف جاتی دکھائی دے گی۔ اور ٹھیک ہونے میں اتنی ہی دیر لے گی۔ نیورونز میں توانائی کا عارضی طور پر کم ہو جانا اس کی وضاحت نہیں کر سکتا۔ کچھ زیادہ گہرا معاملہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں تھکاوٹ نہیں بلکہ active recalibration ہو رہی ہے۔ آپ کا سسٹم مسلسل نیچے کی طرف حرکت کا سامنا کر رہا تھا اور پھر اس نے مفروضہ قائم کر لیا کہ یہی نیا نارمل ہے۔ شروع میں نیچے کی طرف حرکت دماغ کے لئے ڈرامائی انفارمیشن تھی۔ جب دیر تک اس کو گھورتے رہے تو کچھ نئی انفارمیشن موصول نہیں ہو رہی تھی۔ جہاں تک دماغ کا تعلق ہے، یہ اب نئی حقیقت بن گئی۔ دیکھنے والے سسٹم نے خود کا توازن تبدیل کر لیا تا کہ وہ بیرونی دنیا سے مطابقت حاصل کر لے۔ بیرونی دنیا میں نیچے کی طرف ایکٹیویٹی اوپر کی طرف ایکٹیویٹی سے زیادہ ہے۔ یہ نیا سیٹ پوائنٹ بن گیا۔ اب جب آبشار سے ہٹ کر چٹان کو دیکھا تو اس نئے نارمل کے حساب سے یہاں پر پتھر اور پودے آسمان کی سمت جا رہے تھے کیونکہ سیٹ پوائنٹ شفٹ ہو گیا تھا۔
کیوں؟ سسٹم کے لئے دلچسپ چیز تبدیلی ہے۔ دماغ یہاں پر نیچے کی طرف حرکت کو ویژوئل فیلڈ سے منفی کر رہا ہے کیونکہ اس میں انفارمیشن نہیں رہی۔ اور سرکٹ ایڈجسٹ ہو جاتا ہے تا کہ نئی انفارمیشن کو حاصل کرنے کے لئے زیادہ حساس ہو سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قسم کی کیلیبریشن کا آپ کئی جگہ پر تجربہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ چھوٹی کشتی سے خشکی پر اتریں تو کچھ دیر کے لئے زمین ہچکولے کھاتی محسوس ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پانی کی لہروں پر ہوں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ دماغ نے پانی کے ہچکولوں کو منفی کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس حرکت کا “منفی امیج” ابھی تک موجود ہے۔
اگر آپ ٹریڈ مِل پر دوڑتے ہیں تو بھی اس کو محسوس کیا ہو گا۔ بھاگتے وقت جسم ٹانگوں کو موٹر کمانڈز دیتا ہے اور ساتھ ہی دیکھنے والا حصہ یہ توقع رکھتا ہے کہ بھاگتے وقت منظر بھی ساتھ بہے گا۔ لیکن ٹریڈ مِل پر ایسا نہیں ہو رہا۔ آپ سامنے ساکن دیوار کو گھور رہے ہیں۔ جب آپ اس سے اتریں گے تو اس سراب کو ٹریڈ مِل الوژن کہا جاتا ہے۔ اس سے اتر کر چلتے وقت آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ زیادہ تیزی سے چل رہے ہیں کیونکہ منظر کی تبدیلی تیز محسوس ہو گی۔ ارسطو کے گھوڑے، آبشار کے منظر اور کشتی سے اترنے کے بعد والے ہچکولوں کی طرح اس کا تعلق دنیا سے توقع سے ہے۔ یہاں پر معاملہ ٹانگوں کی حرکت کے ساتھ منظر تبدیل ہونے کے توقع کا تبدیل ہونا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیلیبریشن کے یہ اثرات بہت طویل ہو سکتے ہیں۔ اس کی مشہور مثال McCollough Effect ہے۔ سرخ اور سبز لکیروں کو تین منٹ تک گھورنے کے بعد ایک بے رنگ پیٹرن میں رنگ نظر آنے لگتے ہیں۔ اور ان کو پندرہ منٹ گھورنے کے بعد اس کا اثر ساڑھے تین مہینے تک رہتا ہے! (اس کا لنک نیچے دیا گیا ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس معلومات سے لیس ہو کر واپس 1980 کی دہائی کے مسئلے کی طرف۔ اس وقت کمپیوٹر کا استعمال ورڈ پراسسنگ کے لئے شروع ہوا تھا۔ اس وقت کے مانیٹر صرف ایک رنگ دکھاتے تھے۔ سیاہ پسِ منظر میں سبز میں لکھا جاتا تھا۔ اس پر کام کرنے والے گھنٹوں رنگوں کا یہ کمبی نیشن دیکھتے تھے۔ اس کے بعد جب کتاب اٹھاتے تھے تو اس میں لکھے الفاظ سبز کے کمپلیمنٹری رنگ میں نظر آتے تھے جو سرخ ہے۔ دماغ سبز لائنوں کی حقیقت سے ایڈجسٹ ہو چکا ہوتا تھا۔ فلاپی ڈِسک پر آئی بی ایم کا لوگو بھی اسی طرح سرخی مائل نظر آتا تھا۔ یہ وہ سوال تھا جس نے آئی بی ایم کے ڈیزائنرز کو کنفیوز کئے رکھا۔ کسٹمرز کا اصرار تھا کہ انہوں نے اپنے لوگو میں سرخ رنگ کا اضافہ کیا ہے اگرچہ انہوں نے ایسا بالکل نہیں کیا تھا۔
ہماری دنیا میں حرکت کتنی ہے۔ چلتے وقت منظر کتنی تیزی سے تبدیل ہوتا ہے۔ لکیروں کے رنگ کیا ہیں؟ اس کو ہمارے اس دنیا میں تجربے نے تخلیق کیا ہے۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

مک کولو ایفیکٹ پر
https://www.nzherald.co.nz/lifestyle/the-optical-illusion-that-can-break-your-brain/3AASR3TQ7SZLPALCU26XAYIAHY

Facebook Comments