• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اردوغان اور اسرائیل، کبھی روٹھ جانا کبھی مان جانا۔۔ثاقب اکبر

اردوغان اور اسرائیل، کبھی روٹھ جانا کبھی مان جانا۔۔ثاقب اکبر

ہمارے گائوں میں ایک خاتون تھی، جو اکثر اپنی دیورانی اور جیٹھانی سے لڑتی رہتی تھی۔ اکثر وہ اپنے میکے چلے جانے کی دھمکی دیتی اور آخر کار دیورانی اور جیٹھانی منت سماجت کرکے اسے راضی کر لیتیں۔ ایک روز اس کی جھک جھک سے تنگ آکر دونوں نے فیصلہ کیا کہ اب اگر یہ حویلی چھوڑنے کا کہتی ہے تو اسے ہم نہیں روکیں گی۔ وہ بھی غصے میں تھی اور گھر چھوڑ کر میکے جانے کے لیے روانہ ہوگئی۔ اسے کسی نے نہ روکا، کسی نے راضی کرنے کی کوشش نہ کی۔ کوئی منت سماجت کو نہ آیا۔ گھر سے گئے ہوئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ احتجاج کرتی ہوئی واپس داخل ہوئی۔ وہ کہہ رہی تھی ہائے! دیکھو مجھے کسی نے روکا بھی نہیں۔ یہ واقعہ ہمیں ترک صدر رجب طیب اردوغان کی طرف سے دو سال بعد اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی کے اعلان پر یاد آیا۔ بی بی سی کی اردو رپورٹ کے الفاظ اس واقعے کے بارے میں بہت دلچسپ ہیں، جن میں پھبتیاں بھی ہیں، پس پردہ حقائق بھی ہیں اور رجب طیب اردوغان کی مجبوریاں بھی ہیں۔

چند جملے ملاحظہ کیجیے: ’’بین الاقوامی سطح پر اسرائیل پر کڑی تنقید کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرنے والے دائیں بازو کے مسلمان رہنماء اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت نے اسرائیل سے گذشتہ دو سال سے منقطع سفارتی تعلقات یک طرفہ طور پر بحال کرنے کا اچانک اعلان کیا ہے۔ ترک رہنماء جو اسرائیل کو “دہشت گرد اور فلسطینی بچوں کا قاتل” قرار دے چکے ہیں، ان کی طرف سے اپنا سفیر اسرائیل بھیجنے کے فیصلے کی حکمت اور محرکات کو سمجھنے کے لیے حالیہ واقعات اور اسرائیل اور ترکی کے تعلقات کی طویل تاریخ کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ترکی کی جانب سے اپنے سفیر کی نامزدگی کا فیصلہ امریکہ کی جانب سے اس پر تجارتی پابندیاں عائد کیے جانے کے ایک دن بعد سامنے آیا۔ روسی ساخت کے جدید ترین میزائل دفاعی نظام ایس 400 کی خریداری پر امریکہ نے اس سال کے شروع میں ترکی کو جدید ترین ایف 35 امریکی لڑاکا طیاروں کی فروخت اور ترکی کی فضائیہ کے ہوا بازوں کا تربیتی پروگرام سمیت کئی اور معاہدوں کو منسوخ کر دیا تھا۔

صدر اردوغان کی حکومت نے امریکی دباؤ کے باوجود روسی میزائل شکن نظام کی خریداری سے باز رہنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس پاداش میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے جاتے جاتے یورپ اور امریکہ کے دفاعی اتحاد نیٹو کے اہم رکن ترکی پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اقدام جو بائیڈن کی آنے والی حکومت کے لیے خارجہ پالیسی میں نئی الجھنوں کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘ رپورٹ میں آگے جا کر یہ بھی لکھا گیا ہے: ’’اسرائیل کے اخبار “ٹائمز آف اسرائیل” نے ترکی کے اس فیصلے کی خبر ہی میں اسے ترکی کی طرف سے آنے والے دنوں میں امریکہ سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کی پیش بندی قرار دیا ہے۔ اسرائیل کے ایک اور اخبار “یروشلم پوسٹ” نے 13 دسمبر کو ترکی کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی خبروں کے حوالے سے لکھا کہ ترکی اسرائیل سے تعلقات بحال کرکے نئی امریکی انتظامیہ کے سامنے اپنے آپ کو ‘گُڈ کاپ کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف ’اسرائیل کو اپنے اتحادیوں متحدہ عرب امارات اور یونان سے دور کرنا چاہتا ہے۔‘‘

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان 2019ء میں تجارت کا حجم 5 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا۔ تجارتی حجم کے حوالے سے اس خبر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے باوجود معیشت، تجارت، سیاحت، دفاع اور توانائی کے شعبوں میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات قائم رہے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں اب بھی اسرائیلی سیاح ترکی آتے ہیں اور آج بھی ترکی کی سرکاری فضائی کمپنی کی 7 پروازیں ہر روز اسرائیل کے لیے چلتی ہیں۔ رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے: ’’اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے والے عرب ملکوں کو “فلسطین سے غداری” کرنے اور “فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے” کا الزام لگانے والے رجب طیب اردوغان نے خود اسرائیل سے تعلقات بحال کرکے مشرق وسطیٰ کے انتہائی گنجلک اور پیچیدہ “جیو سٹریٹیجک منظر نامے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔‘‘

ہم نہیں کہہ سکتے کہ اردوغان کو عالم اسلام کا نیا ہیرو، رہبر اور ترجمان سمجھنے والے ’’خاص طرح کے انقلابی‘‘ ان کے اس نئے یوٹرن پر کیا تاویل پیش کریں گے۔ البتہ ہم سمجھتے ہیں کہ اردوغان کا ماضی بھی ایسی ہی کہہ مکرنیوں اور ’’انقلابی یو ٹرنوں‘‘ سے عبارت رہا ہے۔ انھوں نے ترکی کی حقیقی اسلامی پارٹی رفاہ سے الگ کرکے جب جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی قائم کی تھی تو اسی وقت یہ اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ ان کا راستہ نجم الدین اربکان کے سیدھے اور صاف راستے سے جدا ہوچکا ہے۔ رفاہ پارٹی پر بعدازاں پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس کے ڈپٹی چیئرمین صبغت کازان نے کہا تھا کہ اسرائیل دہشت گردی کی جائے پیدائش ہے اور اس نے ترکی کی سرحدوں پر حرص و طمع کی نگاہ جما رکھی ہے۔ رفاہ پارٹی کو یورپی پارلیمنٹ کی ایک رپورٹ میں جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا گیا تو اس کی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے۔

2002ء میں طیب اردوغان ترکی کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور انھوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز کیا۔ انھوں نے 2005ء میں اسرائیل کا دورہ کیا اور دونوں ملکوں کے مابین برابری کی سطح پر تعلقات قائم رکھنے اور مشرق وسطیٰ کو پرامن بنانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کا اعلان کیا۔ انھوں نے یہودی ریاست کے ساتھ تجارتی اور فوجی تعلقات استوار کرنے کی پیشکش کی۔ بہتری کی طرف گامزن ان تعلقات ہی کے پیش نظر اسرائیلی وزارت خارجہ کی طرف سے 2006ء میں ترکی کے ساتھ اسرائیلی تعلقات کو بہترین قرار دیا گیا۔ اسرائیل صدر شمعون پیریز نے 2007ء میں ترکی کا دورہ کیا اور ترک صدر عبداللہ گل سے ملاقات کی۔ انھوں نے ترکی کی قومی اسمبلی سے خطاب بھی کیا۔ اس موقع پر طیب اردوغان بھی تشریف فرما تھے اور بار بار شمعون پیریز کی تقریر پر تالیاں بجا رہے تھے۔

ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں اونچ نیچ آتی رہی ہے، لیکن زمین پر یہ تعلقات قائم رہے ہیں، جیسا کہ ہم گذشتہ سطور میں بیان کرچکے ہیں۔ مختلف مواقع پر سفارتی تعلقات کا درجہ کم ہوا لیکن ختم نہ ہوئے، البتہ دو مرتبہ یہ تعلقات منقطع ہوئے، جن میں سے ایک موقع 2010ء میں آیا، جب مئی 2010ء میں ترکی نے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کے لیے فریڈم فلوٹیلا نامی بحری جہاز پر امدادی سامان بھیجا، جس پر اسرائیلی فوجیوں نے حملہ کیا اور جہاز کے عملے میں شامل 10 ترکوں کو قتل کر دیا۔ اس حملے کی وجہ سے بالآخر طیب اردگان نے پہلی مرتبہ اسرائیل کے ساتھ 60 سال سے قائم تعلقات منقطع کر دیئے تھے۔ یہ تعلقات بعدازاں امریکی صدر کی کوششوں سے بحال ہوئے، جبکہ گذشتہ دو سال پہلے پھر یہ تعلقات ختم ہوگئے، لیکن تجارتی اور دیگر شعبوں میں قائم رہے۔

ایک تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ 2009ء میں ڈیوس عالمی اقتصادی فورم پر طیب اردگان نے اسرائیلی مظالم کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی اور اسرائیل کے جنگی جرائم کو ہٹلر کی طرح قرار دیا۔ 2010ء میں ترک حکومت نے حماس کے لیڈر خالد مشعل کو باقاعدہ ترکی بلا کر نئے سرے سے تعلقات کا آغاز کیا، جس پر اسرائیل نے ترکی سے سخت احتجاج کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ عجیب معاملہ ہے کہ اردوغان مجھے ’’ہٹلر‘‘ کا نام دیتے ہیں اور اسرائیل سے تجارت بھی مضبوط بنا رہے ہیں۔ 2013ء میں اقوام متحدہ سے غزہ پر اسرائیلی مظالم رکوانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اردوغان نے کہا کہ صہیونیت انسانیت کے خلاف بہت بڑا جرم ہے۔ دفاع اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں بھی اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات 1958ء سے قائم ہیں۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں موساد اور ترکی کی قومی انٹلیجنس آرگنائزیشن (ایم آئی ٹی) کے مابین معاہدے پر دستخط کیے جانے کے بعد اسٹریٹجک انٹلیجنس تعاون کو زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی۔ انٹیلی جنس کے شعبے میں موجود معاہدوں کے نتیجے میں موساد کے ممبران سرحدوں سے تجاوزات اور سکیورٹی کے طریقہ کار کے بغیر اپنے جاسوس اور ساز و سامان ترکی میں داخل کرسکتے تھے اور پاسپورٹ اور کسٹم چیکس بھی ان پر عائد نہ ہوتے تھے۔

صدر اردوغان کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی کے تازہ ترین اقدام سے پہلے حال ہی میں متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام پر بیانات کو سامنے رکھا جائے تو ان کی طرف سے ترک سفیر کو اسرائیل کے لیے متعین کرنا اچنبھے میں ڈال دینے والا اقدام ہے۔ یو اے ای کے اقدام پر ان کا کہنا تھا کہ یہ فلسطیی کاز کے ساتھ غداری کے مترادف ہے۔ انھوں نے کہا کہ یو اے ای کو فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے یا فلسطین کے لیے اہم معاملات پر مراعات دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ ترکی کی جانب سے کہا گیا کہ خطے کے لوگوں کا ضمیر اسے نہیں بھولے گا اور متحدہ عرب امارات کے اس منافقانہ رویئے کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ یہاں تک کہ رجب طیب اردوغان نے متحدہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ ان بیانات کو سامنے رکھا جائے تو یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی کا موجودہ اقدام فلسطینی کاز کی پشت میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے یا اس کے سینے پر برچھی کا وار کرنے کے مترادف ہے؟ یوں لگتا ہے کہ اچانک ترک صدر کو خیال آیا کہ امریکہ کی خوشنودی کے لیے اس کے عرب حریف ان پر بازی لیے جا رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ حق اور سچائی پر قائم رہنا ہمیشہ مشکل رہا ہے اور جو لیڈر اور قومیں حق کا راستہ اختیار کرتی ہیں، پھر انھیں دکھ جھیلنے، مصیبتیں اٹھانے اور دشمنوں کی طرف سے محاصرے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ انبیاء کی تاریخ اسی حقیقت کو آشکار کرتی ہے۔ عصر حاضر میں فلسطین کی بے تکان حمایت اور مسلسل اسرائیل کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑے ہونے پر ایران کی اسلامی اور انقلابی قیادت اور عوام نے جو دکھ جھیلیں ہیں، وہ اس حوالے سے آج کی انسانیت کے لیے ایک عمدہ نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس راستے میں استقامت چاہیے ہوتی ہے۔ قرآن شریف نے متعدد مقامات پر یہی بات کہی ہے۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا گیاہے: أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ O وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ O(عنکبوت۔۲و۳)

ان آیات کا مفہوم یہ ہے: کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ کہیں گے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور انھیں چھوڑ دیا جائے گا اور آزمایا نہیں جائے گا؟ جب کہ ہم نے ان سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں، انھیں اس دعوے کے بعد آزمایا ہے، تاکہ اللہ یہ ٹھیک طرح سے جان لے کہ ان میں سے اپنے دعوے میں سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں۔ عالم اسلام کی قیادت کا دعویٰ بہت آسان ہے لیکن اللہ تعالیٰ تو عمل کے ذریعے سے اس دعوے کی دلیل مانگتا ہے۔ اس کے لیے حقیقی ایمان چاہیے۔ یہ دعویٰ قربانی اور ایثار کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے لیے راستے میں شعب ابی طالب بھی پڑتا ہے۔ اس کے لیے طویل بندشوں اور پابندیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس راستے میں بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ ترکی پر ابھی تو امریکی پابندیوں کا آغاز ہی ہوا تھا کہ متحدہ عرب امارات کو اسرائیل سے تعلقات کی وجہ سے غداری کا طعنہ دینے والے اسرائیل کی طرف سے کسی فرمائش کے بغیر ہی ڈھیر ہوگئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسلام ٹائمز

Facebook Comments