اکیلا آدمی بھی سچا ہوسکتا ہے۔۔اسد مفتی

امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این نے ایک ربوتاث میں بتایا ہے کہ اسرائیلی پچیس سالہ ایک لڑکی نے اسرائیل کی جبری بھرتی کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔اور اس نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں جاکر ڈیوٹی دینے اور فلسطینیوں سے جنگ کرنے کے لیے نہ تو میں ذہنی طور پر تیار ہوں اور نہ ہی اسے قبول کرتی ہوں۔
اس سے قبل امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک خبر میں بتایا تھا کہ 60اسرائیل فوجیوں نے مغربی کنارے کی پٹی میں فوجی خدمات انجام دینے سے انکار کردیا ہے،انہوں نے ایک پٹیشن تیار کی ہے،جس میں اپنے فیصلے کی وجہ بیان کی گئی ہے،کہ اسرائیلی فوج فلسطینی عوام سے زیادتیاں اور توہین آمیر سلوک کررہی ہے۔۔
اخبار کے مطابق 2008سے اب تک 1700 اسرائیلی فوجی فلسطین علاقوں میں جانے سے انکار کرچکے ہیں۔ان میں کئی فوجیوں کو سا بھی دی گئی ہے۔لیکن میں نے اپنے کالم کے آغاز میں جس اسرائیلی ترکی کا ذکرکیا ہے،وہ صنفِ نازک سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ہے،جس نے علمِ بغاوت بلند کیا ہے۔
میرے حساب میں یہودی ریاست اسرائیل میں مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں اور صیہونی سیاست کے حامل افراد میں عربوں سے تعلقات کے مسئلہ پر سخت نظریاتی اختلاف ہیں۔مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ جو ناانصافیاں ہورہی ہیں،ان پر جو ظلم ڈھائے جارہے ہیں،وہ قطعی مناسب نہیں ہیں،کثیر عرب آبادی کے درمیان رہ کر ان کو اپنا مخالف بنا لینا کسی طرح بھی درست نہیں۔۔اُن کا یہ کہنابھی معقولیت پرمبنی ہے کہ عرب ہمیشہ کمزور اور باہمی اختلافات کا شکار نہیں رہیں گے۔اگر وہ متحد اور مضبوط ہوجائیں تو اسرائیل کا کیا حشر ہوگا،یہ سمجھنے کے لیے عقلمند ہونے کی ضرورت نہیں،لیکن صیہونی سیاست کے زیرِ اثر جن کے پاس فوجی قوت اور حکومت کی طاقت ہے،مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں کی آواز موثر نہیں،اس کے باوجود مذہبی عقائد کے حامل یہودی(اور اب فوجی جوان بھی) اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔یہاں تک کہ فلسطینیوں کی تائید و حمایت میں جلوس نکالے جاتے ہیں،ان میں یہودی مذہبی راہنما(ربیّ) بھی شریک ہوتے ہیں،جو سمجھتے ہیں کہ صیہونیت نہ صرف اسرائیل کے لیے بلکہ یہودیوں کے لیے بھی خطرناک ہے،یہ انہیں ذرہ برابر بھی ہمدردر ی نہیں ہے۔امریکی اورعرب ان کی نظروں میں برابر ناانصافیاں روا رکھیں،اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ گئے۔مسلمانوں کی پوری تاریخ میں کسی وقت بھی یہودیوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوئی، اور نہ ہی کبھی یہودیوں کو شکایت کا موقع ملا،یہودیوں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات کبھی بھی کیدہ نہیں رہے۔جب بھی کسی مسلک میں بالخصوص عیسائی مملکت میں ان کے ساتھ ناانصافیاں حد سے بڑھ جائیں،تو وہ اسلامی ملکوں میں پناہ لیتے،لیکن آج انہوں نے اپنی اغراض کے تحت امریہ ی پشت پناہی حاصل کی ہے،تاہم یہ ضروری نہیں کہ وہ دل سے ان کے دوست ہوں،صیہونی لابی یہ جانتی ہے کہ وہ تنہا عربوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور عربوں کے بڑھتے ہوئے جبات اور عالم اسلامی ملکوں میں پناہ لیتے لیکن آج انہوں نے اپنی اغراض کے تحت امریکہ کی پشت پناہی حاصل کی ہے،تاہم یہ ضروری نہیں کہ وہ دل سے ان کے دوست ہوں،صیہونی لابی یہ جانتی ہے، وہ تنہا عربوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے،اور عربوں ے بڑھتے ہوئے جذبات اور عالمِ اسلام کی صیہونیت سے بڑھتی ہوئی نفرت کی تاب نہیں لاسکتے۔اس لیے امریکہ جیسی سُپر پاور کی بھرپور تائید حاصل کرنا ان کے لیے ناگزیر ہے،صیہونی ادارے یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے،اس سے دوگنی تیزی سے وہ ان ی نفرت ا شکار ہورہے ہیں۔صرف مقبوضہ فلسطین کی مجموعی آبادی می ں فلسطینیوں کی افزائشِ نسل کی شرح قریباً ساڑحے پانچ فیصد ہے۔آبادی میں اضافے کی رفتار اگر ایسے ہی رہی تو 2026میں مقبوضہ فلسطین کی مجموعی آبادی میں فلسطینیوں کی آبادی کا تناسب 68فیصد ہوکر رہ جائے گا۔
اس بات کا انکشاف اسرائیلی یونیورسٹی کے ایک سروے میں کیا گیا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق مقبوضہ فلسطین کی سرزمین پر فلسطینیوں کی حالیہ آبادی 15سالوں میں 13لاکھ سے بڑھ کر 24 لاکھ ہوجائے گی۔جبکہ مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں ان کی آبادی 30لاکھ سے بڑھ کر 56لاکھ ہوجائے گی۔اس سروے کی وجہ سے جہاں ایک طرف اسرائیل کی صیہونی لابی مستقبل میں فلسطین میں “آبادی بم “سے شدید اندیشے محسوس کررہی ہے،وہیں یورپ میں یہودیوں کی تعداد میں کمی اور مسلمانوں کی تعداد میں مغربی یورپ میں غیر معمولی اضافہ کے باعث یورپین یہودیوں میں شدید تشویش کی لہر دور گئی ہے،انہیں خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ مغربی یورپ میں ہونے والی ہوش ربا آبادیاتی تبدیلی کے منفی اثرات اور خطرناک نتائج وہاں کے (مغربی یورپ) یہودی باشندوں پر ضرور مرتب ہوں گے۔مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے گھبرا کر بین الاقوامی یہودی کانگریس نے اپنی ایک رپورٹ میں “یورپ میں اسلام کا فروغ” کے نام سے ایک سروے کیا ہے،اس رپورٹ میں یہودی کانگریس نے لکھا ہے کہ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں یورپ میں مسلمانوں کے احوال و کوائف میں “غیر معمولی”آبادیاتی انقلاب رونما ہوا ہے۔
اس رپورٹ میں آگے چل کر کہا گیا ہے کہ”آج کل یورپ میں مذہب اسلام کو زبردست فروغ حاصل ہورہاہے،چنانچہ یہاں یورپین یونین میں شامل ممالک میں 2 کروڑ افراد ایسے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان لکھتے ہیں “۔(لفظ “سمجھتے”پر غور کیجیے)رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “حالیہ عرصہ میں یورپ کے مسلمان قابلِ لحاظ حد تک سیاسی طاقت کی نمائندگی کررہے ہیں “۔اگر مستحکم سیاسی نمائندگی کا یہی رجحان رہا تو 2020میں یورپ کی عام آبادی میں ان کی شرح کا تناسب16فیصد ہوگا،۔
یورپی ممالک میں مسلمانوں کی بڑحتی ہوئی تعداد سے لاحق ہونے والے خطرات کے ثبوت میں یہودی عالمی کانگریس نے دو مثالیں بھی پیش کی ہیں۔پہلی مثال برطانیہ کی ہے،رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 1961میں مسلمانوں کی تعداد 82ہزار تھی اور اب وہاں مسلمانوں کی تعداد 20سے 23لاکھ ہے۔
دوسری مثال فرانس کی ہے،رپورٹ کے مطابق فرانس میں اس وقت قانونی طور پر بسنے والے مسلمانوں کی تعداد 58لاکھ ہے،جبکہ غیر قانونی طور پر لاکھوں تارکین وطن آتے جاتے رہتے ہیں۔یورپ کے تیسرے بڑے ملک جرمنی میں مسلمانوں یا اپنے آپ کو مسلمان”سمجھنے “والے افرادکی تعداد کیا ہے،اس کے بارے میں حکومت آئندہ ہفتے رپورٹ شائع کرنے والی ہے،جو میرے آئندہ کالم میں آئے گی۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply