اہمیت کیوں اہم ہے؟ (18)۔۔وہاراامباکر

سیرینا اور وینس ولیمز ٹینس کی دنیا میں مشہور بہنیں ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بہت سا وقت ٹینس کھیلنے میں لگایا ہے۔ لیکن کیا صرف مشق کافی تھی؟ فرض کیجئے کہ ان کا ایک نکما بھائی فریڈ ہوتا۔ والدین بہنوں کی طرح اس کے ہاتھ میں بھی ریکٹ پکڑوا دیتے۔ اور سالوں تک وہ اسی طرح اسے بھی پریکٹس کرواتے رہتے۔ فریڈ کو ٹینس بالکل پسند نہ ہوتی۔ اسے اپنی پرفارمنس پر مثبت فیڈبیک نہ ملتا۔ نہ وہ کوئی مقابلہ جیتتا۔ نہ ہی اس کے بڑوں کی طرف سے اسے شاباش ملتی۔ اس صورت میں اس سب پریکٹس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ فریڈ کے دماغ میں ہونے والی تنظیمِ نو رونما نہ ہوتی۔ اگرچہ جسم حرکات کر رہا ہوتا لیکن یہ اس کی اپنی اندرونی ترغیبات ٹینس میں ماہر ہونے کے مقصد سے ہم آہنگ نہ ہوتیں۔ اتنے برسوں کی مشق کا نتیجہ صفر ہوتا۔
اس کو ہم آسانی سے لیبارٹری میں دیکھ سکتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ کوئی آپ کے بازو پر مورس کوڈ ٹائپ کرتا ہے اور کوئی بالکل ہی الگ شخص آوازوں کا سیکوئنس چلا رہا ہے۔ آپ کو بازو کے پیغامات کا کوڈ معلوم کرنے پر انعام دیا جانا ہے۔ دماغ کا وہ حصہ جو بازو کو چھونے کے متعلق ہے، اس میں ریزولیوشن زیادہ ہو جائے گی۔ لیکن سننے والے حصے میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ حالانکہ وہ حصہ بھی مسلسل انفارمیشن وصول کر رہا ہے۔ اگر ہم اس کو الٹا دیں۔ آپ کو آواز میں باریک فرق ڈھونڈنے پر انعام ہو تو سننے والے حصے میں تبدیلی آئے گی لیکن چھونے والے میں نہیں۔ فرق کہاں پر ہے؟ آنے والی انفارمیشن میں بالکل بھی نہیں۔ فرق ترغیبات اور انعام کا ہے۔ اہم کیا تھا؟ توجہ کس نے حاصل کی؟ وہ جس کسی کے لئے اپنے کسی مقصد کے تناظر میں اہم تھا۔
اور یہ وہ وجہ ہے کہ نکما فریڈ ٹینس کی برسوں کی پریکٹس کے بعد بھی کچھ نہ سیکھ سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ کے بارے میں یہ نئی سمجھ علاج اور تھراپی کے لئے نئے راستے کھولتی ہے۔ اگر سٹروک کی وجہ سے ایک بازو ٹھیک کام نہیں کر رہا تو اس کے فنکشن کی واپسی کا طریقہ اچھے والے بازو کو باندھ دینا ہے، ورنہ کمزور بازو مزید کمزور پڑتا جائے گا۔ اس لئے کہ روٹی منہ میں لے جانے کی مجبوری، چابی تالے میں لے جانے کی کوشش اور موبائل فون استعمال کرنے کی لگن تو ختم نہیں ہو گی۔ یہ مشکل تھراپی کامیاب ہونے کا امکان ان کامیابیوں کی وجہ سے ہو گا۔
فیتھ ایک کتا ہے جس کے اگلے دو بازو نہیں، وہ انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پر چلتا ہے۔ کیا تمام کتے ایسے چل سکتے تھے؟ یقیناً۔ لیکن باقی کتوں کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ انہوں نے کوشش نہیں کی اور اس مہارت کو ماسٹر کرنے کے لئے کوئی وجہ یا کوئی ترغیب نہیں تھی۔ اور یہ وجہ ہے کہ فیتھ مشہور ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ واحد کتا ہے جو ایسا کرنے کی اہلیت رکھتا تھا، بلکہ اس وجہ سے کہ اس نے ایسا کر دکھایا۔ اور اگلی ٹانگوں کا موجود نہ ہونا اس کی وجہ تھی۔
نابینا لوگ جو آواز کی گونج کی مدد سے چل سکتے ہیں، ان کی بھی یہی وجہ ہے۔ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ عام لوگ، جن کا وژن پرفیکٹ ہے، بھی ایسا کر سکیں لیکن وہ اپنی نیورل میدان میں اتنے زیادہ گھنٹے انڈیل کر یہ صلاحیت حاصل کر لینے کی وہ ترغیب نہیں رکھتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انعام دماغ کی وائرنگ تبدیل کرنے کا طاقتور طریقہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دماغ کو کیش یا چاکلیٹ کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کی زندگی سے متعلقہ کیا شے ہے۔ زندگی کے مقاصد اور زندگی سے متعلقہ ہونا دماغ کی لچک کی راہنمائی کرنے والا قطبی تارہ ہے۔ اس کے اربوں نیورون ایک بہت ہی بڑا کینوس ہیں جس پر دنیا کی تصویر کو رنگا جاتا ہے اور متعلقہ چیزں میں مہارت بنائی جاتی ہے۔ خواہ کرکٹ ہو، اداکاری، کلاسیکل شاعری، پیرا گلائیڈنگ، ویڈیو گیمز، بریانی پکانا یا کچھ بھی اور۔ جب کسی کے لئے ایک کام اس کی اپنی زندگی کے بڑے مقاصد سے ہم آہنگ ہو تو دماغ کا سرکٹ جلد اس کی عکاسی کرنے لگتا ہے۔
کسی فرد کے لئے اندرونی ترغیبات ہوں یا بیرونی چیلنج۔ یہ اہمیت کو جنم دیتے ہیں۔ اہمیت تنظیمِ نو کو۔ تنظیمِ نو سے صلاحیت ابھرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایک طرح سے معاشرے بھی اسی طرح کام کرتے ہیں۔ ایک حکومت کے لئے گئے اقدامات بہت نفیس آئینہ ہیں کہ ایک قوم کے مقاصد اصل میں کیا ہیں۔ دنیا میں واقعات پر ردِ عمل کیا ہے۔ مختلف شعبوں کے بجٹ بڑھتے ہیں اور کم ہوتے ہیں جو قوم کی اپنی ترجیحات کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب بیرونی خطرات منڈلا رہے ہوں تو ملٹری کا بٹوہ پھول جاتا ہے۔ امن کے وقتوں میں ترجیحات کچھ اور بن جاتی ہیں۔ اور اسی طرح، اندرونی طور پر قوم جس بھی چیز کو توجہ دینے لگے، معاشرے پر اس کا عکس اور اس کے نقوش بنتے جاتے ہیں۔ دماغ کی طرح ہی، قومیں بدلتی صورتحال کے مطابق اپنے وسائل کو استعمال کرتی ہیں۔ تنظیمِ نو کرتی ہیں۔
دنیا میں رہنے کے چیلنج کا مقابلہ خود کی تشکیل کرتا ہے۔
کسی معاشرے کے لئے اندرونی ترغیبات ہوں یا بیرونی چیلنج۔ یہ اہمیت کو جنم دیتے ہیں۔ اہمیت تنظیمِ نو کو۔ تنظیمِ نو سے صلاحیت ابھرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ آئیڈیا ہمیں مصنوعی ذہانت کے بارے میں بھی ایک گہری انسائیٹ دیتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کو متعلقہ ہونے کی پرواہ نہیں۔ ان کے پاس “معنی” کے “معنی” نہیں۔ ان کو ہم جو کہتے ہیں، یہ اسے یاد رکھ لیتے ہیں۔ یہ بہت مفید ہے لیکن یہ وجہ ہے کہ یہ بائیولوجیکل ذہانت سے اس قدر زیادہ مختلف ہے۔ ان کو اس کی پرواہ ہی نہیں کہ کیا دلچسپ ہے یا کیا اہم۔ خواہ اربوں تصاویر میں سے گھوڑے اور زیبرے الگ کرنے ہوں، دنیا کے ہر ائیرپورٹ سے اڑنے والے جہاز کا ٹریک رکھنا ہو، مصنوعی ذہانت کو کسی چیز کی اہمیت کا احساس صرف شماریاتی ہے۔ موجودہ طریقے سے تخلیق کردہ مصنوعی ذہانت کبھی بھی، خود سے، کسی کہی ہوئی گہرے شعر پر بے اختیار داد نہیں دے اٹھے گی۔ یا تلخ ذائقے کے منہ میں آ جانے پر ناگواری کا احساس نہیں کر سکے گی۔ مصنوعی ذہانت دس ہزار گھنٹے کی مشق دس ہزار نینو سیکنڈ میں ضرور کر سکتی ہے لیکن کونسا صفر اور ایک کسی دوسرے صفر اور ایک سے زیادہ مطلوب ہے؟ اس بارے میں کوئی پسندیدگی یا ترجیح نہیں رکھ سکے گی۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ دنگ کر دینے والے کارنامے سرانجام کر لینے کے باوجود اپنی موجودہ صورت میں یہ کسی بھی پہلو سے انسان ہونے کے مشابہہ ہونے کے قریب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کیا سیکھتے ہیں؟ کیسے انسان بنتے ہیں؟ کیا صلاحیتیں حاصل کرتے ہیں؟ معاشرے کس طرف کا رخ لیتے ہیں؟ اس میں ایک بڑا کردار اس کا ہے کہ ایک بائیولوجیکل وجود کے لئے یا ایک انسانی معاشرے کے لئے اہمیت کس چیز کی ہے؟
اہمیت اہم ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments