لکڑی کا گلہ۔۔ناصر خان ناصر۔

لکڑی کا یہ گلّہ ہمارے بچپن میں ہر گھر کے باورچی خانے میں موجود ہوتا تھا۔
ہم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جو کچن میں لکڑی کے چولہے کے نزدیک پیڑھیوں، چوکیوں اور دریوں پر بیٹھ کر توے سے اتری تازہ تازہ روٹی کا مزہ لیا کرتے تھے۔
دیہاتوں میں تو خواتین صبح الصادق چار بجے اٹھ کر چکی پیستی تھیں۔ جھاڑو بہارو سے صحن صاف کرنے کے بعد لسی بلو کر مکھن نکالتیں، پھر نماز پڑھ کر چولہا یا تندور جلاتیں۔ آٹا گوند کر روٹیاں پکاتیں۔ صبح کا ناشتہ دیہاتوں میں اکثر رات کی بچی ہوئ روٹی اور دہی لسی مکھن سے ہی کیا جاتا تھا۔ شہر سے آئے ہم مہمانوں کو مکھن پر دیسی شکر یا گڑ ڈال کر دیا جاتا تھا۔ تندور کی گرم گرم مہکتی روٹیوں پر مکھن اور شکر بہت مزےدار لگتے تھے۔

بہاولپور شہر میں ہمارے گھر کا باورچی خانہ پکے مکان کے صحن میں ایک کچا کمرہ تھا۔ اس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ لگا ہوا تھا۔ باورچی خانے کے وسط میں کچا چولہا تھا جسے والدہ محترمہ ہر مہینے مٹی سے لیپ پوت کر نیا بنا لیا کرتی تھیں۔ باورچی خانے کا سنگھار ایک جھلنگا، ایک مکھی دان، لکڑی کا ایک گلا تھے۔ ایک سائیڈ پر بغیر دروازوں کی ایک الماری تھی جس میں دیگچیاں، پتیلے، چمچ کڑچھے، مٹی کی پرات، تام چینی کی پلیٹیں، پیالے، کٹورے پڑے رہتے تھے۔ دیوار گیری سے سجائ پرچھتی پر مہمانوں کے لیے سینت کر رکھے ٹی سیٹ میں ٹی کوزی سے کور کی گئ چینک، دودھ دان، چینی دان، پرچ اور پیالیاں تھیں، شیشے کے گلاس، ڈونگے اور دیگر کبھی کبھار استعمال ہونے والی چیزیں بھی وہیں رکھی رہتی تھیں۔

چولہے میں لکڑیاں جلائ جاتی تھیں۔ جن کو دہکانے کے لیے پھکنی اور انگارے الٹ پلٹ کرنے کے لیے چمٹا استعمال کیا جاتا تھا۔ لکڑیاں گیلی ہوتیں تو کمرہ دھویں سے بھر جاتا۔ سردیوں میں باورچی خانہ بہت گرم اور کوزی لگتا تھا۔

ایک کونے میں پڑے مکھی دان میں آٹا، چاول، سوجی، دودھ، چینی اور دالیں رکھی جاتی تھیں۔ مربے اچار کے مرتبان اور خالص گھی کا کنستر بھی مکھی دان ہی میں رکھا رہتا تھا۔ مکھی دان دراصل لکڑی کی ایک چھوٹی سی الماری ہوتی تھی جس کے چاروں طرف جالیاں لگی ہونے کے باعث یہ مکمل ہوادار ہوتی تھی۔ اس میں رکھی چیزیں جلدی خراب نہیں ہوتی تھیں اور چوہوں و مکھیوں سے محفوظ رہتی تھیں۔

جھلنگا چھت سے رسی کے ساتھ بندھا ہوا ایک جھولا سا ہوتا تھا جس میں دودھ، بچی ہوئ روٹیاں اور سالن وغیرہ کی پتیلیاں رکھ دی جاتی تھیں۔ آلو، تازہ سبزیاں، لہسن اور پیاز بھی یہیں سٹاک کیے جاتے تھے۔

لکڑی کے گلے میں بہت سے خانے ہوتے تھے جن میں نمک، مرچ، الائچیاں، کالی مرچ، زیرہ، کالا نمک، پھٹکڑی، مصالحہ جات وغیرہ پڑے رہتے تھے۔

باورچی خانے کی دیواریں دھویں کی بدولت اکثر سیاہ رہتی تھیں۔ فرش پر دری یا ٹاٹ بچھا رہتا۔ کھانا چولہے کے نزدیک چوکیاں یا پیڑھیاں رکھ کر وہیں بیٹھ کر کھایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں فریج اتنے عام نہیں تھے۔ جس گھر میں فریج ہوتا، سارا محلہ ان سے برف مانگ کر اپنا گزارا کیا کرتا تھا۔ برف رکھنے کے لیے تھرماس استعمال کیے جاتے تھے یا اسے بوری میں لپیٹ کر رکھا جاتا تھا۔ باورچی خانے کے ایک کونے میں ہاون دستہ، سل بٹہ دھرا رہتا جو مرچ مصالحے یا چٹنی کوٹنے کے کام آتا تھا۔ ٹھنڈے پانی کے گھڑے گھڑونجی پر کسی چھونی سے ڈھانپ کر دیوار کے ساتھ سائے میں رکھے جاتے تھے۔ گلے میں موتیا کے پھول لپیٹ کر رکھی گئ کوری مٹی کی بنی پتلی ملتانی صراحیوں میں پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا۔ اسے مٹی کی ٹھلیا یا آب خورے میں پیا جاتا۔ ہندوستانی لوگ گنگا جمنی کٹورے میں پانی پیتے تھے جن پر نقش و نگار ابھرے ہوتے تھے۔

اگرچہ ہمارا بچپن غربت و عزلت میں گزرا مگر ہماری نہایت سلیقہ مند والدہ نے دن رات کپڑے سی سی کر اپنی محنت سے بچوں کا پیٹ بھرے رکھا اور کسی شے کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔

ہم سب لوگ تینوں وقت کا کھانا مل کر کھاتے تھے اور ہر قسم کا دال ساگ، روکھی سوکھی کھا کر بھی خدا کا شکر ادا کرتے تھے۔

تب اپنی فیملی سے یکجائی ، قربت، محبت اور الفت کا احساس ہمہ وقت رہتا تھا۔ چولہے کے اردگرد بیٹھے بچوں اور بڑوں کو ایک ایک تازہ گرم گرم روٹی عمر کے لحاظ سے باری باری ملتی تھی۔ سالن بھی کبھی علیحدہ کٹوریوں پلیٹوں میں، کبھی مل کر ایک ہی پلیٹ سے کھا لیا جاتا۔ چائے کٹوروں پیالوں یا گلاسوں میں پی جاتی تھی۔ دیگچی سے بذریعہ مگ انڈیلی جاتی تھی۔ ایک ہی گلاس سے جھوٹا پانی پی لینے میں بھی کسی کو کوئی  عار نہیں تھا۔

گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی بنا پر ہم سب کے لاڈلے تھے۔ آٹھویں جماعت میں پہنچ کر ہمارے نخرے بھی بڑھ گئے تو ہم نے اپنے برتن علیحدہ کر لیے۔ ہمارے گلاس پلیٹ اور پیالے کو کوئی  چھو بھی نہیں سکتا تھا۔ جہاں جاتے اپنے برتن ساتھ لے کر جاتے۔ اب سوچ کر بھی ہنسی آتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ بے حد خوبصورت زمانے تھے، لوگوں میں مروت، اخلاق، اخلاص اور رواداری ہوا کرتی تھی۔ پڑوسی ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے۔ گھر میں ہر اچھی شے تھوڑی سی زیادہ پکا کر پڑوسیوں کو ضرور بھجوائی  جاتی تھی۔ عید برات، تہواروں اور خصوصا ً رمضان شریف میں تو یہ امر ناگہائی  تھا کہ ہر روز ہمسائیوں کو کچھ نہ کچھ ضرور بھیجا جائے۔ سفید پوش لوگ مہمان نوازی میں تمام حدیں توڑ جاتے۔ خود بھوکے رہ کر بھی مہمانوں کو اچھے سے اچھا کھانا پیش کیا جاتا تھا۔ یہ پرانی قدریں اب آہستہ آہستہ ہمارے کلچر کے ساتھ ساتھ مٹتی جا رہی ہیں۔ رہے نام اللہ کا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply