• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جمہوریت کے لئے ایک لوہار کی فیصلہ کن چوٹ لگانے کا وقت۔۔۔ناصر منصور

جمہوریت کے لئے ایک لوہار کی فیصلہ کن چوٹ لگانے کا وقت۔۔۔ناصر منصور

 پاکستان میں سیاسی بھونچال بپا ہے لیکن اس کی تہہ میں موجود معاشی اور معاشرتی بحران اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ آنے والا نیا سال اس بحرانی کیفیت کو مزید گہرا کرتے ہوئے ایک نئے سیاسی منظر نامے کا پیش خیمہ بنے گا۔ یہ سب کچھ نہ ہو رہا ہوتا تو حیرت سی ہوتی۔ موجودہ حکومت کے بدزبان ترجمان جس طرح اقتدار کی غلام گردشوں میں چلاتے، دھاڑتے بے سمت دوڑ لگا رہے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں کچھ ہونے کو ہے۔ عمران خان بھی بدلے بدلے لہجہ کے ساتھ نئے منظر نامے میں اپنی نسبت بنانے کے لئے ” این آر او نہیں دوں گا ” کی مسلسل گردان لگائے ہوئے ہیں اور خود کو کرپشن کے خلاف جنگ نہ ہارنے والا کھلاڑی ثابت کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ اپوزیشن میں شامل جماعتوں کی ماضی قریب میں عوامی مسائل سے حد درجہ بے اعتنائی ان کے ساتھ ہونے والی مسلسل حکومتی زیادتیوں پر عوام کو شاید ان سے اتنی خاص ہمدردی نہ ہوتی اگر موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے گزرے آدھے وقت میں عوام کی زندگیوں میں در آتی تلخی میں کوئی کمی لائی ہوتی۔

آٹا، چینی، گھی سے لیکر بجلی، گیس، تعلیم، صحت اور ادویات پر اٹھنے والے اخراجات کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھنے سے عوام بلبلا اٹھے ہیں۔اپوزیشن نے بھی ریلیف کے تمام راستے مسدود ہونے کے بعد ہی عوام کے مصائب و مسائل پر سواری کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ مسائل کے حل کے لئے وہ بھی اب تک کوئی ایسا لائحہ عمل دینے میں ناکام رہی ہے جو عوام کے دکھوں کا مداوا کر سکے۔ ہاں ان کے متحرک ہونے سے یہ ضرور ہوا ہے کہ عوام کو بھی اپوزیشن کے ذریعے حکمرانوں اور ان کے مربیوں کے خلاف اپنے غیض و غضب کے کھلے اظہار کا موقع میسر آ گیا ہے۔ سیاسی کارکنوں اور سماج کے باشعور حلقوں کے ساتھ ساتھ اب عوام کا شعور بھی اس سطح پر پہنچ ہی گیا ہے کہ وہ سیاسی بساط پر بچھے مہروں کو ہلانے اور چلانے والوں کو نہ صرف جان چکے ہیں بلکہ گلی، محلوں، چوپال اور چوراہوں پر ہونے والی گفتگو میں انہیں تنقید کا حدف بھی بنا رہے ہیں۔

اس ایک نکتہ پر عوامی شعور بہت سے مدارج طے کر چکا ہے۔ جو بات نواز شریف یا بعض سیاسی حلقے آج کر رہے ہیں اس کا اظہار تو عوام عرصہ دراز سے کرتے آ رہے تھے، لیکن پاکستان کی عوام کے لئے یہ امر اطمینان اور تقویت کا باعث ہے کہ سیاسی قیادت کا ایک بڑا حصہ(اور وہ بھی پنجاب جیسے اہمیت کے حامل خطہ سے) ایک اہم سیاسی و سماجی تضاد پر عوام کے شعور کی سطح پر آن کھڑا ہوا ہے۔ یہ کتنا عرصہ اس بیانیہ پر کھڑا ہو پائے گا، اس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔ لیکن جو کچھ کہا جا چکا اور جو کچھ سنا جا چکا وہ نکلے تیر کی طرح عوام کے شعور کا حصہ بن گیا ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ خوف اور خاموشی کے ماحول میں ایک اہم سیاسی پیش رفت ضرور ہوئی ہے کہ اپوزیشن نے کھل کر اس حکومت کے پیچھے چھپی اصل حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اس صورت حال نے ملکی سیاست میں جمہوری قدروں کے پنپنے کے نئے امکانات روشن کئے ہیں۔ عوام کی بڑی اکثریت موجودہ ابتر صورت حال تک پہچانے کی ذمہ دار اس خود ساختہ سلیکشن کمیٹی کو ہی قرار دیتی ہے جس کی اب کوئی پردہ داری نہیں رہی۔ یہ وہ سلیکشن کمیٹی ہے جس نے اس ملک میں جمہوری چلن کو کبھی پنپنے ہی نہیں دیا۔ 1958 سے لیکر آج تک چھاؤنی کی مداخلت نے ملک میں سیاسی استحکام کو ہر لحظہ نشانے پر رکھا۔چار فوجی آمروں نے ہر اس عمل کو وطن دشمنی قرار دیا جو معاشرے کو ترقی اور خوشحالی کی بنیادیں فراھم کرتا تھا۔ پچھلے ستر برسوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جمہوریت پر مسلسل شب خون مارا گیا۔ جمہوری وفاقیت کوتقریبا نیم مردہ کرکے چھوڑا گیا ہے۔

اب حب الوطنی ایک ایسا تمغہ بن گیا ہے جو صرف چھاؤنی والوں کا ہی خاصہ ٹھہرا ہے۔باوجود اس کے کہ انہوں نے سامراجی ممالک سے عسکری معاہدے کئے، اپنی زمین جاسوسی کے لئے پیش کی،بنگال میں آگ اور خون کا ایسا کھیل کھیلاکہ بنگالیوں کے پاس آزادی کے سوا دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں رہا، یہی عمل تسلسل کے ساتھ بلوچستان میں بھی دھرایا جارہا ہے۔ نظام عدل کو ظلم و نا انصافی پر انصاف کا غلاف چڑھا کر مہر ثبت کرنے کا کام سونپ دیا گیا، نشروا شاعت کے ادارے کورس کے انداز وہ ہی سب کچھ کہنے اور سنانے پر مجبور کر دیے گئے ہیں جس نے پوری دو نسلوں کو شعوری طور پر اپاہج بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ لیکن اس کے باوجود سماجی ارتقا کے تقاضوں کو روکنا کسی بھی قوت کے بس میں نہیں ہوتا۔

آج سماج میں باغی اور غدار ہونے کا طعنہ ایک امتیاز قرار پاچکا ہے۔ قبرستان کے سناٹے میں ہلکی سی آواز یا پھر ظلم کے خلاف چیخ، کمین گاہوں میں بیٹھے شکاریوں کو خوف زدہ کر رہی ہے۔ عوامی شعور نے ستر سالہ تاریخ میں کئی بار اس سناٹے کو توڑا ہے لیکن ہر بار یہ سناٹا نئے انداز میں مسلط کیا جاتا رہا۔ ہاں اس بار جو واردات ڈھائی گئی وہ ناقابل برداشت حد تک انسانی وجود اور شعور کی توہین کے زمرے میں رقم ہوئی ہے۔ 2018 کے انتخابات کا ڈھکوسلہ ایک ایسی سماجی کیفیتی تبدیلی کا موڑ بن کر آیا ہے جس نے عوام الناس میں یہ سوچ اجاگر کردی کہ بس اب بہت ہو چکا، لیکن عوام کی اس ہونے والی توہین کے خلاف غم و غصہ کو اپوزیشن نے درخوراعتنا نہیں سمجھا اور نظام کو بچانے کے نام پر ووٹ کی تذلیل کو سر خم تسلیم کر لیا۔ اپنے عمل سے ایک ایسے نظام کو دوام بخشا جسے خفیہ ادارے اور مقتدرہ قوتیں جب چاہیں، جس طرح چاہیں اپنی مرضی سے تشکیل دیں، جب چاہیں کمزور کردیں اور جب دل چاہے چلتا کردیں۔ اس مفلوج کردہ نظام کے احترام کی آڑ میں 22 کروڑ زندہ انسانوں کی امنگوں، شعور اور جذبات کو صرف اس بنا پر ہتک کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ چھاؤنی والوں کی منصوبہ بندی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس پر بد قسمتی یہ رہی کہ عوام جن سیاسی رہنماؤں کو اپنے احساسات کا ترجمان بنانے پر مطعون ٹھہرے۔

انہیں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہ میسر آیا۔ اب وہ بھی اس نتیجہ آپہنچے ہیں کہ گھات میں بیٹھے شکاریوں کے خلاف عوامی مورچہ لگانے کا وقت آگیا ہے لیکن اس معرکے  کے بپا ہونے تک عوام پر جو افتاد ٹوٹی ہے اس کے منفی اثرات کئی دہائیوں تک محسوس ہوں گے۔ملک کے جمہوری نظام کو لگے کینسر کی تشخیص ہوچکی ہے اور اس کا علاج سرجری سے ہی ممکن ہے۔چھاؤنی والوں کی زندگی کے ہر شعبے میں حد سے بڑھی مداخلت اور عمل دخل کو مکمل طور پر ختم کرنے ہی سے موجودہ جمہوری نظام کی اکھڑی سانس بحال اور وفاقی ریاستی ڈھانچہ قائم رہ سکتا ہے۔

اب اس ریاست کی ہیئت کے بارے میں اہم فیصلے ہی سماجی ترقی کی بنیادیں استوار کر سکتے ہیں۔اب مسئلہ حکومت کی تبدیلی،نئے الیکشن، سینٹ میں کچھ کٹھ پتلیوں کو اکثریت میں آنے سے روکنے سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔آج عوام مصائب کی شدت سے چلا اٹھے ہیں، وہ آئی ایم ایف کی غلامی کے طوق کے بوجھ سے نجات چاہ رہے ہیں۔ وہ کرونا وبا کی خطرناک لہر میں بھی زندگی کی پرواہ کیے بغیر باہر نکل رہے ہیں تو پھر اس تاریخی عوامی ابھار کو وقتی مفادات کے عوض فروخت کرنے پر تاریخ ان سیاسی قوتوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی جو تاریخی حوادث یا حالات کے جبر کے نتیجہ میں عوام کے جمہوری بیانیہ اور امنگوں کے ترجمان بن گئے ہیں۔

آج معاشرہ کو نہایت اہمیت کے حامل ایک سیاسی تضاد اور اس کے حل کا ادراک ہو چکا ہے، وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ حق ِ حکمرانی ووٹ کی منصفانہ گنتی پر ہی منحصر ہوگا  نہ کہ چھاؤنی میں بیٹھے چند مسلح افراد کی رضا و منشاء کی مرہون منت۔ عوام سمجھتے ہیں کہ یہ ملک اب ایک نئی جمہوری ڈگر کی جانب گامزن ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس بنیادی تضاد کو حل کرنے کی  جانب عوامی پیش رفت جاری رکھی گئی۔

حالات تقاضا کر رہے ہیں کہ ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں ” کے مصداق گرم لوہے پہ لوہار کی فیصلہ کُن چوٹ لگانے کا وقت آ گیا ہے۔عوام میں پلتا غصہ اب عوامی مانگ بن کر اُبھر رہا ہے کہ مقتدرہ قوتوں کو آئین میں طے شدہ حدود میں رہنے کا پابند کرنے اور ووٹ کی حقیقی طاقت سے منتخب ہونے والے جمہوری اداروں کے حق حکمرانی کو تسلیم کرنے سے جاری سیاسی بحران کی شدت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ جو لوگ خوف دلا رہے ہیں حالات بند گلی کی جانب جا رہے ہیں ان کو کہنا یہ ہے کہ اسی بند کی گئی گلی سے آگے روشن مستقبل کی راہیں کھلیں گی ۔

موجودہ بحرانی کیفیت سے محنت کش طبقے  کا مفاد براہ راست جڑا ہوا ہے گو ان کی کمزور تحریک کی بنا پر ان کا معاشی ایجنڈہ ابھی تک جاری تحریک کا بنیادی نکتہ نہیں بن سکا لیکن اس کے باوجود اگر ملک میں غیر جمہوری قوتیں کمزور اور جمہوری ماحول بحال ہوتا ہے تو محنت کش طبقہ خود کو زیادہ بہتر انداز میں اپنے ایجنڈے پر خود کو منظم و متحرک کر سکتا ہے اور مستقبل قریب میں وہ اپنی امنگوں اور مانگوں کے لئے حکمران طبقات کے خلاف ایک منظم جدوجہد کی نئی راہیں کھلتی   محسوس کرے گا۔

آج پاکستان کے محنت کش یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ اگر ملک میں جمہوریت اور ووٹ کی عزت کا نعرہ لگانے والوں کو واقعی اگر اس نعرہ کا کوئی پاس ہے تو پھر جمہوریت اور ووٹ کی کلید یعنی ووٹر کی تکریم اور احترام بھی اتنا ہی لازم ہو جاتا ہے جتنا کہ ووٹ اور جمہوریت کے لئے ہے۔ اس احترام اور تکریم کے لئے ضروری ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کو حقیقی معنوں میں بحال کیا جائے۔ پاکستان کے عوام اپنی عزت نفس کی بحالی کے طالب ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملکی معاملات میں ان کی رائے کا احترام کیا جائے، وہ چاہتے ہیں کہ جن فیکٹریوں، کارخانوں، کھیتوں، کھلیانوں اوردفاتر میں وہ کام کرتے ہیں وہاں انہیں انسان تسلیم کیا جائے اور ان کے آئینی اور قانونی حقوق کی پامالی قابل گرفت جرم قرار پائے۔

ان کے تنظیم سازی کے آئینی و جمہوری حق کو تسلیم کیا جائے اور اس کی تکمیل کو ہر ادارے میں لازم و ملزوم قرار دیا جائے۔ جمہوری ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرے، با مقصد تعلیم اور بہتر صحت کی سہولیات بنا معاوضہ فراہم کرے۔رہائش کی فراہمی کو یقینی بنائے۔آٹا، چینی،دال،خوردنی تیل، ادویات، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی انسانی ضروریات ارزاں نرخوں پر مہیا کرے۔کار گاہوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے محنت کش اتنی اجرت کے ضرور حقدار ٹھہریں کہ وہ آسانی سے خاندان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکیں۔ سب سے بڑھ کر معاشرہ میں مذہب اور نسل کی بنیاد پر شہریوں کی درجہ بندی کے ناسور کی بیخ کنی کی جائے، ایک جمہوری وفاق کے لئے ضروری ہے کہ قوموں کے تاریخی حق حاکمیت کو تسلیم کیا جائے اور عورت کو معاشرے میں برابر اور ایک مکمل شہری کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جن کے حل کی جانب بڑھنے ہی سے حقیقی اور مضبوط بنیادوں پر جمہوری معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے اور اس کے قیام کی جانب پیش رفت، محنت کش عوام کی جمہوری و طبقاتی جدوجہد کا فوری مقصد قرار پا سکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply