• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سقوطِ مشرقی پاکستان – کیا ہم نے کوئی سبق سیکھا ؟۔۔محمد اسد شاہ

سقوطِ مشرقی پاکستان – کیا ہم نے کوئی سبق سیکھا ؟۔۔محمد اسد شاہ

13 دسمبر 2020 کے جلسے نے بلاشبہ تاریخ رقم کر دی ہے ۔ یہ پاکستانی تاریخ کا واحد جلسہ ہے کہ جس کی میزبان یعنی محترمہ مریم نواز کے کھانے کی وجہ سے لکشمی چوک کے ایک ریسٹورنٹ کے عملے اور مالک کے خلاف دو الگ الگ پرچے درج کیے گئے ۔ اگر کرونا احتیاطی تدابیر کا مسئلہ ہوتا تو کے پی کے میں منعقدہ اس پی ٹی آئی ورکرز کنونشن کے منتظمین کے خلاف بھی پرچے درج ہوتے جس میں اخباری اطلاعات کے مطابق ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی گئیں اور جو عین اسی دن ہوا جس دن محترمہ نے لکشمی چوک کے ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا ۔

پی ڈی ایم کے جلسہ کو تاریخی صرف ہم نہیں کہہ رہے ، پوری دنیا کا آزاد میڈیا کہہ رہا ہے ، اور خود حکومتی ترجمانوں کی کئی روز سے جاری مسلسل چیخ و پکار بھی اسی امر کی گواہی دے رہی ہے ۔ عالمی ذرائع ابلاغ اس جلسے کے شرکاء کی تعداد اور جوش و خروش پر مسلسل تبصرے کر رہے ہیں ۔ جلسہ سے دو دن قبل حکومت نے مینار پاکستان کے ارد گرد کے تمام علاقوں میں سخت لاک ڈاؤن نافذ کر کے لوگوں کی آمد و رفت بندکر دی تھی ۔ لیکن جلسہ والے دن گریٹر اقبال پارک دوپہر ہی سے انسانوں کے سیلاب کا منظر پیش کر رہا تھا ۔

2011 کے اقبال پارک کو بعد میں پاکستان مسلم لیگ (نواز شریف) کی حکومت نے کئی گنا وسیع کر کے گریٹر اقبال پارک بنا دیا تھا ۔ لیکن یہ وسیع تر پارک پی ڈی ایم کے جلسے کے لیے کم پڑ گیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ بے شمار لوگوں اور قافلوں کو جلسہ گاہ تک پہنچنے کا راستہ ہی نہ مل سکا۔ لاک ڈاؤن ، اور شدید ترین سردی کے باوجود سرکلر روڈ ، گڈی گراؤنڈ ، بادشاہی قلعہ ، بادشاہی مسجد ، آزادی چوک فلائی اوور ، لاری اڈہ ، بادامی باغ ، دربار اور ٹیکسالی تک اتحادی جماعتوں کے پرچم تھامے لوگ ہی لوگ تھے ۔

محکمہ موسمیات نے اس دن لاہور کا درجہ حرارت 6 ڈگری تک گرنے کی پیش گوئی کی تھی ۔ عصر کے وقت یہاں کا درجہ حرارت 11 تھا جو رات ہونے تک مزید گرتا گیا ۔ بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ گریٹر اقبال پارک دوپہر سے ہی بھر گیا تھا اور باقی کارکن ملحقہ سڑکوں اور پلوں پر کھڑے تھے ۔ بی بی سی کے مطابق دوپہر تک 60 ہزار سے زیادہ لوگ جلسہ گاہ میں جمع ہو چکے تھے ، جب کہ مزید بہت سے قافلے ابھی راستوں میں تھے ۔

الجزیرہ نے اسے پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا جلسہ قرار دیا ۔

رشین نیوز نے شرکاء کی تعداد کو حیرت انگیز لکھا ۔

موجودہ وزیراعظم پاکستان کے قریبی ترین رشتے دار ، معروف تجزیہ کار جناب حفیظ اللّٰہ نیازی جلسے میں موجود تھے اور نجی ٹی وی چینل کو اپنے لائیو انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ انھوں نے بھٹو دور سے لے کر آج تک کے بے شمار جلسے دیکھے لیکن یہ جلسہ لوگوں کی تعداد اور جذبے ، دونو ں حوالوں سے لاجواب تھا ۔ البتہ پاکستانی میڈیا “حسب توقع” بہت پریشان تھا اور بار بار یہ بتا رہا تھا کہ لوگ اس کی توقع سے کم تھے ۔

ایک وفاقی وزیر ، جن کے “تعلقات” کا تمام پاکستانی چینلز کو بہت احترام ہے ، بتا رہے تھے کہ جلسے میں 6 ہزار بندے تھے ۔ چنانچہ احتراماً تمام چینلز اسی موقف کی پذیرائی پر کمربستہ تھے اور “6 ہزار” کے ہندسے کو سلامی پیش کر رہے تھے ۔ ان چینلز پر ادب و احترام کی یہ حالت تھی کہ کوریج کا سارا وقت سٹیج ہی دکھاتے رہے ، شرکاء کی طرف کیمرہ گھمانے کی جرأت ہی نہ کی ۔

ایک نیوز چینل کے مالک کو کئی ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد ،چند ہفتے قبل بہت مشکل سے رہائی ملی ہے ۔ وہ چینل تو اس باعزت رہائی سے اتنا خوش ہے کہ اب اس کے انداز و اطوار ہی بدل چکے ہیں کہ کہیں دوبارہ جیل نہ جانا پڑے ۔ جلسہ ابھی درمیان میں ہی تھا کہ وفاقی ترجمانی سے “ترقی” پا کر صوبائی ترجمان بننے والی ڈاکٹر فردوس عاشق اور دیگر ذمہ داران کی پریس کانفرنسز شروع ہو گئیں ۔ یہ ذمہ داران ، نہایت اہم سرکاری فریضہ ادا کرتے ہوئے ہمیں بتا رہے تھے کہ جلسہ میں شرکاء کم تھے ، لاہور نے محترمہ مریم نواز کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

چنانچہ تمام چینلز نہایت فرماں برداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلسہ چھوڑ کر پریس کانفرنس دکھانے لگے ۔ جلسہ ختم ہوتے ہی عمران خان صاحب کی وہ تصاویر عوام تک پہنچائی گئیں جن میں وہ اپنے ذاتی کتوں کے ساتھ وقت گزارتے نظر آئے ۔ پھر جناب عثمان بزدار صاحب کا بیان جاری ہوا جس میں انھوں نے اہل لاہور کا شکریہ ادا کیا کہ جنھوں نے محترمہ مریم نواز کے جلسے میں شرکت سے انکار کیا تھا ۔

اگلے دن صبح سویرے عمران خان صاحب نے اہل لاہور کی سیاسی بصیرت کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔ خیر جلسے میں بندے جتنے بھی ہوں ، اس سے زیادہ اہم وہ بات تھی جس پر تمام مقررین کا بہت زور تھا ۔ پی ڈی ایم کے قائدین موجودہ ملکی سیاسی انتظام سے شدید بیزار ہیں اور موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت تک کو چیلنج کرتے ہیں ۔ مہنگائی اور معاشی تباہی سے تو ہر پاکستانی کا واسطہ ہے ۔ خاں صاحب کی سابقہ تقاریر اور انٹرویوز کے مختصر کلپس بھی حاضرینِ جلسہ کو دکھائے گئے جن میں خاں صاحب ملک میں امن و امان کے قیام ، بجلی پوری کرنے اور ترقیاتی منصوبوں ، حتیٰ کہ شوکت خانم ہسپتال کے قیام کا کریڈٹ بھی ن لیگ کے قائد جناب میاں محمد نواز شریف کو دیتے نظر آئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

16 دسمبر :  یہ تاریخ پاکستانی قوم کو دو حوالوں سے ہمیشہ یاد رہتی ہے ،سقوط مشرقی پاکستان ، اور سانحۂ پشاور ۔ پاکستان کا مشرقی بازو 1971 میں جدا ہو کر ایک الگ ملک بن گیا ۔ اس سے پہلے وہاں نفرتوں کے جو بیج بوئے گئے ، ان سے اگنے والی فصلیں وہاں آج بھی لہلہا رہی ہیں اور ہمارے دلوں پر تازیانے برسا رہی ہیں ۔ اسی طرح سانحۂ پشاور میں بہنے والا معصوم بچوں اور اساتذہ کا لہو ہم کبھی بھلا نہیں پائیں گے ۔ ان دونوں  ، اور کئی دیگر واقعات سے ہم نے اور ہماری اشرافیہ نے کیا کوئی سبق سیکھا ؟ کیا اپنی اصلاح کی طرف ہم نے کوئی قدم اٹھایا ؟

Facebook Comments