وجاہتِ کلام

خواتین کے ڈیٹ مارنے کے حق پر ایک خاتون کے مضمون کے تبصرے پڑھتے ہوئے ایک صاحب کا تبصرہ نظر سے گزرا.

آپ کتنے ڈیٹس پر گئی ہیں؟

ہم اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے یہ قطعًا نہیں کہیں گے کہ خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے اس کے ڈیٹ مارنے کا پوچھنے والے سے کوئی گلہ نہیں کہ وہ مہان ہستی نہ تھی. ہر فرد مہان ہے. ہر فرد انسانیت کے شرف پر فائز ہے. ان صاحب سے بھی شکوہ بنتا ہے اور ہے.
ہمارا خیال ہے ان صاحب کا سوال ان سوالوں میں سے ہے جن کا جواب ہی دینا ضروری نہ تھا. کچھ ضروری نہیں کہ ہر سوال کرنے والے کا جواب دینے کے لیے اپنی حیثیتِ عرفی اور ساکھ پر ہی سوال کھڑے کیے جائیں. یہ وجاہت صاحب کی مہربانی ہے کہ انھوں نے جواب دینا مناسب سمجھا اور ان کو اہل جانا کہ جواب دیا ہی جائے.
ہم بصد احترام یہ عرض کرنا چاہتے کہ سیدی، آپ کا جواب پھر آپ کے شایان شان ہونا چاہیے. اس ناملائم لہجے کی توقع ہم ایک علم دوست اور انسان دوست ہستی سے قطعًا نہیں کرسکتے اگرچہ مجھ سمیت کچھ دوستوں کا یہ بھی خیال ہے کہ گوناگوں علمی انہماکات آپ کو کچھ ذہنی آرام پر مجبور کرتی ہیں اور یہ جواب بھی اسی آرام کی کیفیت میں تحریر ہوا ہوگا. لیکن اس خیال کو ہم باوجود اپنے ہی ذہن سے اٹھنے کے بوجوہ اعتبار میں نہیں لاتے.
اگرچہ ان محترمہ نے خواتین کے ڈیٹ مارنے کے حق کو ثابت کرتے ہوئے اپنی نجی زندگی کے بارے میں لکھا ہے… آپ کچھ بھی کہیں، یہ ان خاتون کی جرات تھی کہ انھوں نے کھل کر لکھا. علمائے کرام اس حوالے سے بہتر رہنمائی دے سکتے ہیں… کہ
١..آیا قبل از نکاح حنفی مسلک بچے اور بچیوں کو ملنے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟
٢..نکاح کے معاملے میں بچی کی پسند کا کس حد تک اعتبار فقہ کی رو سے کیا جاتا ہے؟
٣..آیا بچے یا بچی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ والدین کے علم میں لائے بغیر خاندان کی ساکھ کے موافق یا مخالف ساتھی چن سکتا ہے یا نہیں؟

یہ اور اس قسم کے کئی سوالات ہیں جن پر مکالمہ ممکن ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

ہم لیکن ان سائل کی بھی مذمت کرتے ہیں جنھوں نے ایک نامناسب سوال پوچھا ہے. دکھ لیکن اپنی غیر جانبدار اور تعصب سے بالاتر حیثیتوں سے معروف سید وجاہت مسعود صاحب کے جواب کے انداز سے ہوا. آپ بندہ بشر ہیں اور آپ سے یقینًا غلطی کا صدور ممکن ہے. لیکن آپ سر جانتے نہیں کہ آپ کو پوجنے کی حد تک چاہنے والے موجود ہیں. آپ کا قول و فعل کئی چاہنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہے.
یہ سچ ہے کہ میرے لیے رواداری کا استعارہ آپ کی ذات ہے اور رہے گی. کوئی ایک غلطی وہ پہاڑ بالکل ثابت نہیں ہوسکتی جو شخصیت کا منارہ نور ہی اوجھل کردے لیکن روشنی کے منبع پر ایک مکھی کئی لاکھ روشنی کے ذرات کو چھپا ضرور دیتی ہے.
آپ کا یہ جواب پچھلے چار گھنٹوں سے ہم سب کی زینت کو گہن لگا رہا ہے. ہم سے منافقت نہیں ہوتی. ہمیں یقین جانئے آپ سے محبت ہے، ہم سب سے محبت ہے. ہمارے شکوے کو ایک محب کا شکوہ جانیے. آپ سے امید بھی اسی کی ہے.

Facebook Comments

شاد مردانوی
خیال کے بھرے بھرے وجود پر جامہ لفظ کی چستی سے نالاں، اضطراری شعر گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply