راستہ مشکل نہیں، مشکل ہی راستہ ہے۔۔عارف انیس

مسئلہ یہ نہیں کہ راستہ مشکل ہے، مسئلہ یہ ہے کہ وہی مشکل ہی دراصل راستہ ہے۔ بھول بھلیاں ہی پگڈنڈیاں ہیں۔ اتار چڑھاو ہی سدھاؤ ہے۔
کہانی کی ترتیب یہی ہے، بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ پہلے مشکل، پھر آسانی، پہلے چڑھائی یا اترائی، پھر ہموار راستہ جہاں سانس پکڑنے کو چند لمحات ملیں گے اور پھر اگلی چڑھائی اور اترائی، زندگی کو اسی طرح آزمائش کے اندر پیدا کیا گیا ہے۔ یہی ترتیب ہے اور یہ کسی کے لیے نہیں بدلتی۔ ہمارے لیے بھی نہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم پوری زندگی آسائش اور کامیابی کی تیاری کرتے رہتے ہیں مگر مشکل دنوں کے لئے کم کم تیار ہوتے ہیں۔ سو جب کبھی آزمائش آتی ہے تو ہمارا سانس اکھڑ جاتا ہے۔

مزید مسئلہ یہ ہے کہ بچپن سے ہی ہمیں کامیابی کے لیے اور مشکل دنوں سے بچنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ناکامی کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں یہ کوئی نہیں سکھاتا کہ ایک دفعہ گرنے کے بعد پورے قد سے دوبارہ، سہ بارہ یا سو بارہ اٹھنا کیسے ہے؟ سارا زور اسی پر ہوتا ہے کہ گرنا نہیں ہے۔ مگر یہ زندگی ہے، سلطان ہو، فاتح ہو، بادشاہ ہو، شہنشاہ ہو، زندگی اڑنگی دیتی ہے اور چاروں شانے چت کردیتی ہے۔ اب ساری کامیابی بس گر کے اٹھنے پر منحصر رہ جاتی ہے۔

ہم اپنے بچوں کو یہ نہیں سکھاتے کہ انہیں دھوکے سے پالا پڑے گا۔ کبھی کبھار بہترین دوست دغا دے جائیں گے۔ خونی رشتے اپنے مفاد کی خاطر کنوئیں میں دھکا دے دیں گے۔ یہ کہ اکثر اوقات جھوٹ کو سچ پر ترجیح دی جائے گی اور یہ کہ زورآور کا جھوٹ مسکین کے سچ کے منہ پر توبڑا چڑھا دے گا۔ اور یہ کہ زندگی میں سب کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا ، ترازو اوپر نیچے ہوتا رہے گا۔ اور یہ کہ غرض ہمارے اکثر رشتوں کو بنانے اور بگاڑنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرے گی۔ انسانوں سے تو کیا غرض بھگوانوں سے بھی پوری نہ ہوگی تو تعلقات میں دراڑ آجائے گی۔ اور یہ کہ ہمارے سب سے قریب ترین لوگ ہم سے حسد کریں گے اور یہ کہ ہم میں سے اکثر انہی قریب ترین لوگوں کے ہاتھوں ڈسے جائیں گے اورسانپ اور سیڑھی کا کھیل ہار جائیں گے۔
اور یہ کہ ہارے ہوئے انسان کیسے جیتے ہیں اور پھر ایڑیاں رگڑتے ہوئے، رینگتے ہوئے کھڑے کیسے ہو سکتے ہیں؟

اور پھر سب سے بڑھ کر اس خرابے میں، اس جہان میں، اسی تاریکی کے درمیان چراغ کیسے جلایا جائے اور چار چپھیرے پھیلے اندھیرے کو اپنی روح کے کواڑوں سے کیسے دور رکھا جائے؟ شکوے سے، طیش سے، غضب سے، جلن سے، کڑھن سے کیسے بچا جائے؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ اسی وقت ہوگا جب ہم جان لیں گے کہ راستہ مشکل نہیں، بلکہ مشکل ہی راستہ ہے۔
جب ہم جان لیں گے کہ دوسروں کی غلطیوں سے بچنے سے زیادہ اپنی غلطیوں سے بچنا ضروری ہے۔
ہر وہ دن جو قبر سے باہر ہے، ایک شاندار دن ہے اور اس دن کچھ بھی ایسا کیا جاسکتا ہے جو قبر میں ممکن نہیں ہوسکتا۔
جب ہم جان لیں گے کہ ہمارا جو بھی عقیدہ یا ایمان ہے اس کے بارے میں بات کرنے سے زیادہ اسے نبھانا مشکل ہے اور اسے نبھانا ہی اصل عقیدہ ہے۔
جب ہم جان لیں گے کہ بہترین انتقام اپنےحریف سے، اپنے دشمن سے مختلف ہونا ہے، اس کا الٹ ہونا ہے، ورنہ تو دونوں ہم زاد ہوجائیں گے۔
اور یہ کہ ہم وہی کچھ بن جاتے ہیں جیسا ہم سوچتے ہیں۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ بس ایک زاویہ ہے۔ جو کچھ ہم سنتے ہیں، وہ بس ایک رائے ہے۔
اور یہ کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہوگا، ہم اسے شاید بدل نہیں سکتے، ہاں ہم اس ہونے کے بارے میں اپنے رویے کو ضرور بدل سکتے ہیں۔
اور یہ کہ ہم سارے خوف سیکھتے ہیں اور جب چاہیں اپنے سیکھے کو غارت کرسکتے ہیں اور اپنے سارے ڈر بھلا سکتے ہیں۔
اور یہ کہ راستے میں گرنا،اٹھنا یا نڈھال ہوجانا سب راستے کے سفر کا حصہ ہیں اور ان کے بغیر سفر ادھورا رہ جاتا ہے۔
اور یہ کہ ہمیں موت سے زیادہ اس سے خوف کھانا چاہیے کہ ہم جی ہی نہ سکیں۔
اور جینے کا سمے ابھی، اسی وقت ہے!
بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے!

Facebook Comments