میں اس سے بدلہ لے کر رہوں گا۔۔حبیب شیخ

میں اس سے بدلہ لے کر رہوں گا۔ زاہد پھر زور سے چیخا۔
زاہد تین دن سے ہسپتال میں پڑا چھت کو گھور رہا تھا، چہرے  پر یاسیت چھائی ہوئی تھی  اور آنکھیں بھیگی ہوئیں ۔ جب سے اسے ہوش آیا تھا ، اس نے کسی نرس یا ڈاکٹر سے بات نہیں کی  تھی اور نہ ہی اس نے ان کے کسی سوال کا جواب دیا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ چیخ اٹھتا۔ ’میں اس سے بدلہ لے کر رہوں گا۔‘ انہوں نے بھی ہمّت ہار کر زاہد کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر آپس میں مشورہ کر رہےتھے کہ کسی نفسیاتی ڈاکٹر یا کونسلر کو بلایا جائے جو اس کی خاموشی کے بارے ميں کچھ پتا کر سکے۔ شاید اسے کوئی نفسیاتی مرض لا حق تھا۔

جب چالیس سال کی عمر کے لگ بھگ فلک زاہد کو دیکھنے کے لئے آتی تو زاہدکے زخم اور تازہ ہو جاتے۔ وہ روز مزاج پرسی کے لئے آتی لیکن زاہد اس کے ہر سوال کا جواب فقط مسکراہٹ سے دیتا۔ اس نے شاید نہ بولنے کی قسم کھائی ہوئی تھی ۔ ’آخراس کے شوہر نے مجھے کیوں دھوکا دیا؟‘ وہ یہ سوچ کر مزید تاریکی کی دنیا میں چلا جاتا اور فلک کے جانے کے بعد ماضی کی فلم چلنا شروع ہو جاتی۔

یہ صرف دو سال پہلے کی بات ہے کہ زاہد کے دوست یوسف نے جب دیکھا کہ زاہد کو موٹر سائیکلوں کی ڈیلرشپ مل گئی ہے تو اس نے زاہد سے تعلقات خوب بڑھاۓ اور اس کی کمپنی میں بیس فیصد حصّے کا شریک بن گیا۔ یوسف کی آنکھیں عقابی تھیں اور وہ ہمیشہ شکار کی تلاش میں رہتا تھا۔ زاہد نے اپنے ایک اور دوست ناصر جس کی کاروباری صلاحیتوں سے وہ قدرے متاثر تھا بیس فیصد حصّے کا شریک بنا لیا۔

زاہد، ناصر اور یوسف آپس میں گھل مل گئے تھے اور کاروبار دو سالوں ہی میں دوگنے سے بھی زیادہ بڑھ گیا۔ یوسف کے دل میں ایک ہوک  اٹھ رہی تھی کہ اس کے شامل ہونے کے بعد کاروبار کو چار چاند لگ گئے لیکن ساٹھ فیصد حصہ تو زاہد لے جاتا ہے اور اس کو صرف بیس فیصد حصّہ ملتا ہے۔ جیسے جیسے کاروبار بڑھ رہا تھا اتنی ہی یوسف کے دل میں آگ بھڑک رہی تھی۔ آمدنی کا اضافہ اس آگ کا ایندھن بن گیا تھا۔ اس کی نظر اب پوری کمپنی پر تھی۔ اگر وہ زاہد کو راستے سے ہٹا دے تو ناصر سے نمٹنا یوسف کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ اب وہ طرح طرح کے منصوبے بنا رہا تھا اور اس انتہا کو پہنچ گیا تھا کہ وہ زاہد کو ہٹانے کے لئے کوئی  بھی قدم اٹھا سکتا تھا۔

یوسف کی بیوی فلک کو پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ اس کا شوہر کوئی خطرناک کھیل کھیلنے والا ہے۔ اس نے یوسف کی فون پر گفتگو کو سن لیا تھا کہ وہ زاہد پر دہشت گردی کا الزام لگوانا چاہتا ہے مگر کیا وہ یوسف کو روک سکتی تھی؟ یوسف ایک چٹان تھا جس سے ٹکرا کر وہ پاش پاش ہو جائے گی۔ لیکن وہ زاہد کو بتا سکتی تھی کہ اس پر دہشت گردی کا الزام لگنے والا ہے۔
لیکن زاہد جاتا بھی کہاں؟ دونوں بیٹے ملیشیاء میں رہتے تھے۔ اگر کسی کے ہاں چھپے گا تو جب بھی پولیس کو پتہ چلے گا اس کی بھی پولیس کے ہاتھوں شامت آۓگی۔ دہشتگرد کے مددگار کا نام بھی تمام ہوٹلوں، ہوائی اڈّوں اور سب سرحدی کنٹرول کے دفاتر کو بھیج دیا جاتا ہے۔ عین اسی وقت جب وہ وکیل سے بات کرنے کے لیے فون اٹھانے والا تھا دروازے  پر زور سے دستک ہوئی اور اس کےساتھ ہی دروازہ کھول کر پولیس اندر داخل ہوئی۔ زاہد کا سر شدّت سے چکرایا۔ اس کے بعد اسے یاد نہیں کہ وہ کیسے ہسپتال پہنچ گیا۔ جب اسے   ہوش آیا ، تو اس کو یقین تھا کہ اب یوسف اپنی اگلی چال چلنے کے لئے اس کی ہسپتال سے برخاستگی کا انتظار نہیں کرے گا۔ اس کے پاس خود کو سنبھالنے کے بہت کم وقت تھا۔

زاہد تھوڑی تھوڑی بعد   پھر تاریکی کی دنیا میں چلا جاتا۔ ’کیا اس کی نیکی کا یہی صلہ تھا جو یوسف اسے دینا چاہتا ہے؟‘ آتش فشاں پہاڑبار بار ابل پڑتا ۔ اس کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا ۔ ’میں اس سے بدلہ لے کر رہوں گا ۔
لیکن کس طرح؟ نہ ہی زاہد کاتنا اثر و رسوخ تھا ، نہ ہی اس کی فطرت میں تھا کہ کسی کو نقصان پہنچائے۔ لیکن اسے کم از کم اپنے غصّے کا اظہار کرنے کا تو حق تھا۔ کہاں آج صبح وہ یوسف سے بدلہ لینے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور کہاں اب وہ صرف اپنے غصّے کے اظہار پر اکتفا کر رہا تھا۔ اسے خود پر افسوس ہو رہا تھا کہ وہ کتنا بزدل انسان ہے! یا بزدل نہیں بلکہ شریف ہے، یا دونوں، یا کچھ بھی نہیں! کیا وہ محض ایک بیکار انسان ہے؟
اس کو ایک انگریزی جملہ یاد آرہا تھا ۔
There is a thin line between nobility and stupidity.
پھر اسے ایک دم جوش آجاتا۔ ’میں اس سے بدلہ لے کر رہوں گا ‘۔
اسی ذہنی اذیّت میں اس نے سارا دن گزار دیا۔ جب ذہن کا دباؤ بہت زیادہ ہو جاتا تو وہ زور سے بدلہ لینے کا نعرہ لگا دیتا ۔
رات میں جب نیند کوسوں دور تھی، زاہد نے فیصلہ کیا کہ وہ کل یوسف سے ملے گا اور اس سے دو ٹوک بات کرے گا۔ اگلے دن صبح وہ ناشتہ کرتے ہی چپ چاپ ہسپتال کے گیٹ پر آیا، چوکیدار کے ہاتھ پر اس نے پانچ سو روپۓ کا نوٹ رکھا اور باہر نکل آیا۔ ٹیکسی لے کر اس نے یوسف کے گھر کا رخ کیا۔ فلک پہلے ہی باہر کھڑی ہوئی تھی چہرے پر ہوائیاں اڑ تی ہوئیں اور لمبے بال بکھرے ہوئے۔’ تم ، زاہد! ‘ پھر وہ لپک کر ٹیکسی میں بیٹھ گئی اور ڈرائیور کو ایک پتہ بتا کر چلنے کے لئے کہا۔ ’اچھا ہوا تم آگئے۔ ناصر نےکل گھر آکر یوسف کو کافی برا بھلا کہا۔ ابھی ابھی وہ ناصر کی طرف گیا ہے۔ ’ہائے اللہ، اب کیا ہو گا!‘

زاہد حیرانی اور پریشانی کے ملے جلے احساسات کے ساتھ ایک دیوانے کی طرح ہلکا سا منہ کھولے فلک کو دیکھ رہا تھا لیکن اس کی  چپ کا روزہ ابھی جاری تھا۔ ٹریفک اب کچھ بڑھ گئی تھی ، ایک کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے میں پندرہ منٹ لگ گئے۔ فلک کے لئے یہ پندرہ منٹ پندرہ گھنٹوں سے بھی زیادہ لمبے تھے۔ فلک بہت بے چینی سے کبھی ٹریفک کو دیکھتی اور کبھی ڈرائیور کو ۔ ’کب چلے گا یہ ٹریفک؟‘ ، ’یہ بس ہلتی کیوں نہیں؟‘ ٹریفک کی شکایت کے علاوہ اس نے کوئی اور بات نہیں کی۔ دونوں کا ذہن الگ الگ دنیاؤں میں تھا جو یوسف کی زندگی سے جڑی ہوئی تھیں۔ ٹیکسی ناصر کے گھر پہنچی تو گیٹ کو کھلا ہوا پایا اور برآمدے میں یوسف ناصر کی طرف پستول تانے کھڑا تھا اور اسے گالیاں دے رہا تھا۔ فلک کو زاہد کے ساتھ دیکھ کر یوسف غصّے سے پاگل ہو گیا ۔ ’تو اس حرام زادے کے ساتھ پھر رہی ہے۔

اس نے پستول کا رخ فلک کی طرف کیا، اس کی لبلبی والی انگلی میں حرکت ہوئی اور زاہد آناً فاناً فلک کے سامنے آ گیا۔ اس نے تڑپتی ہوئی حالت میں فلک کو گھور کر دیکھا اور آخری سانس لیا۔ فلک بے قابو ہو کر زاہد کی طرف جھکی لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتی یا کہتی، وہ خود بیہوش ہو چکی تھی۔ اب یوسف مضبوطی سے پستول کا رخ ناصر کی طرف کئے کھڑا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے فون پر کسی کو پولیس بھیجنے کے لئے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
فون کی گھنٹی کچھ زیادہ ہی زور سے بجی تھی ۔ دماغی ہسپتال کی منتظمہ نے فوراً فون اٹھایا۔ ’ہیلو۔‘
زاہد نے اس نیم مردہ آواز کو پہچان لیا تھا۔ ’مجھے پتا چلا ہے، ڈاکٹر نےرپورٹ دی ہے کہ فلک کافی بہتر ہے اور کچھ دنوں بعد اس کو ہسپتال سے خارج کیا جا سکتا ہے۔‘
’جی۔ آپ بتائیں میں کیا کروں۔‘
’ابھی اس کو وہیں رکھیں۔ کل ڈرائیور آ کر اگلے تین مہینے کے اخراجات کا چیک دے جاۓ گا اور آپ کے لۓ تحفہ بھی۔‘
’جی، مہربانیـ، لیکن ڈاکٹر نے ۔۔۔۔‘ یوسف کی طرف سے لائن کٹ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت یوسف کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تھا۔ لیکن ناصر کے خدوخال بہت زیادہ بدل چکے تھے۔
’تم شاید مجھے پہچان نہیں سکتے۔ میں قتل کے جھوٹے الزام اور دس سال کی قید اور اپنی زندگی کی بربادی کا بدلہ لینے آیا ہوں۔‘
یوسف کے پاؤں تلے  سے زمین نکل گئی ۔ ’ناصر ۔۔۔۔۔۔۔ اچّھا ہووا تم آ گئے ۔۔ گولی چلا کر مجھے اس عذاب سے نجا ت دلاؤ۔ میں نے تم پر بہت ظلم کیا۔ فلک مجھے چھوڑ کر چلی گئی ۔ میرے بچّے مجھ سے نہیں ملتے۔ اگر خود کشی حرام نہ ہوتی تو میں کب کا خود کو مار چکا ہوتا۔

ناصر تھو ڑی دیر کے لیے سکتے میں چلا گیا۔ پھر ایک فاتح کی طرح بولا۔
’میں تمہاری اس زندہ لاش کو نہیں ماروں گا۔ میرا بدلہ یہی ہے کہ تم اسی عذاب میں مبتلا رہو۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

دروازہ زور سے بند ہوا۔ یوسف نے فوراً اندر سے تالا لگایا۔ ایک گلاس میں تھوڑی سی وسکی انڈیلی اور قہقہہ لگایا۔
’سب لوگوں کو ہر وقت بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا لیکن یوسف کچھ لوگوں کو ہر وقت بیوقوف بنا سکتا ہے۔۔
پھر اس نے ایک نمبر ملایا۔
’ جی، یوسف سرکار جی، کیا حکم ہے؟‘
’ناصر باہر آگیا ہے۔ اس کا بندوبست کروـ!

Facebook Comments