آج ڈر کی آنکھوں میں جھانکنا ہے، مرشد۔۔عارف انیس

شیروں کو غزال کا گوشت بہت مرغوب ہے۔ بڑے بڑے شکتی شالی شیر غزالوں کے گوشت کے خواب دیکھتے ہیں کہ مزے کا ہوتا ہے مگر نصیب کم ہوتا ہے کہ غزال لحظہ بھر میں چوکڑی بھرتے غائب ہوجاتے ہیں اور شیر دانت کچکچاتے رہ جاتے ہیں۔ پھر بڈھے شیر سمجھدار ہوئے اور انہوں نے نوجوان اور پھرتیلے شیروں کا ایک گروہ بنایا اور انہیں غزالوں کا پیچھا کرنے کو کہا۔
غزالوں کا جھنڈ شیروں کے قریب آتے ہی بگٹٹ بھاگا اور سبک رفتاری سے شیروں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دلدلی ڈھلوانوں سے نیچے اترنے لگا۔ بڈھے، سست اور مکار شیر یہیں نیچے لمبی لمبی گھاس میں انگڑائیاں کرتے پوشیدہ تھے۔ انہوں نے خاک اڑتے ہوئے دیکھی اور دھاڑنے کی آوازیں سنتے ہی انہوں نے اپنا گلا پھاڑنا شروع کردیا۔ وہ شکار کے قابل نہ تھے اور ان کے کچھ دانت چورا ہوچکے تھے مگر وہ دھاڑنے میں تگڑے تھے۔
غزالوں نے جیسے ہی آگے سے ابھرتی ہوئی دھاڑوں کا غلغلہ سنا، وہ بھاگتے بھاگتے ایک دم رکے، ٹھٹھکے اور پھر ڈر کے مارے جدھر سے آئے تھے واپس ادھر بھاگنا شروع کردیا۔ بدقسمتی سے اب وہ بھاگے تو وہ سیدھا جوان شیروں کے جبڑوں میں پہنچ گئے جو ان کی واپسی کے انتظار میں تھے۔
ڈر ایسے ہی مارتا ہے۔
جب ڈر ہمیں جکڑ لیتا ہے، چاہے وہ نقلی چیزوں کا پیدا کردہ ہی کیوں نہ ہو تو وہ سوچنے سمجھنے کی مہارت کو سلب کرلیتا ہے اور الٹا ہمیں جان لیوا کھائی میں گرا دیتا ہے۔ بڈھے زنگ آلود شیروں کی دھاڑ سنتے ہی ہم ڈر سے مفلوج بھاگنے کے قابل ہی نہیں رہتے اور شکاریوں کا چارہ بن جاتے ہیں۔
شکاری نہیں مارتا، ڈر مارتا ہے۔ شاید اصل شکاری ڈر ہی ہوتا ہے۔ اور ڈر نہیں مارتا، ڈر کا ڈر مارتا ہے۔
کبھی کبھار اگر ہم ڈھکنا اٹھائیں تو ہمارے اندر کی پتیلی سے سے طرح طرح کے ڈر نکل کر صحن میں پھیل جائیں۔اندھیرے کا ڈر، اونچائی کا ڈر، گہرائی کا ڈر، کھلی جگہوں کا ڈر، کیڑوں مکوڑوں کا ڈر، کچھ کھونے کا ڈر، ناکامی کا ڈر، مسترد کیے جانے کا ڈر ، کسی اور کو ترجیح دیے جانے کا ڈر، ناکافی ہونے کا ڈر، کسی کے چھوڑ جانے کا ڈر، گناہگار ہونے کا ڈر، ناراضگی کا ڈر، محبت کا ڈر، سماج کا ڈر، ہونے کا ڈر، انہونی کا ڈر، وبا کا ڈر ۔۔۔۔۔۔۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو صرف دو طرح کے ڈر اس کے ڈی این اے میں ہوتے ہیں، ایک اونچائی سے گرنے کا اور دوسرا کڑکتی ہوئی اونچی آواز کا ۔۔۔۔ باقی سینکڑوں قسم کے ڈر ہم اپنے والدین بہن بھائیوں، ہم جولیوں، اور سماج سے سیکھتے ہیں۔
یاد رکھیں خطرہ حقیقی ہوسکتا ہے، مگر ڈرنا آپ کی اپنی چوائس ہے۔
مجھے اپنا بچپن یاد ہے، وادی سون کے پہاڑوں میں رات ہوتی تو گیدڑوں اور بھیڑیوں کے کوکنے کی آواز چار چپھیرے گونجتی رہتی۔ سب سے پہلے انہی آوازوں سے ڈرایا گیا کہ وہ خطرناک ہیں اور وہ ڈر اندر دبک کر بیٹھ گیا۔ ہمارے ماموں نے اپنی حویلی میں شاہ جی کا پڑکوٹھڑا بنایا ہوا تھا، جس میں شریر ترین اور خبیث ترین بچے کو دس منٹ کے لئے بند کیا جانتا تھا اور پانچ منٹ کے اندر وہ سورما سانس سے بے حال اپنے بول و براز میں لتھڑا پایا جاتا۔ بچپن میں کتنی ہی شرارتیں شاہ جی کے ڈر سے ادھوری رہ گئیں۔ تب سنا تھا کہ اندر شاہ جی ہیں جو دس فٹ بڑے کالے حبشی جن ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اندر گھٹا ٹوپ اندھیرا اور جنوں کا ہوا تھا، بڑے بڑے پانچ منٹ میں ہی چیں بول جاتے۔
بچپن میں اور بھی بہت ڈر تھے۔ لوگوں کو دیکھ کر سانس پھول جاتی۔ کوئی مجھ سے بات کرنے لگتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ میری ناک بڑی ہوتی جارہی ہے اور پھیلتی جارہی ہے اور سب اسی کی طرف دیکھ رہے ہیں، چنانچہ منہ سے آواز نہ نکل پاتی۔ اور نہ ہی چار بندوں کے سامنے بولنے کی ہمت پڑتی۔زندگی کے پہلے بیس، پچیس سال اسی ناک کو چھوٹا کرتے گزر گئے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں ڈر اور ڈر کا خوف ہم میں سے اکثر کو پوری طرح جینے نہیں دیتا ہم سب جستہ جستہ جیتے ہیں۔ کیا ہو اگر ہم اپنے سارے ڈر اور خوف کے سوا جی سکیں۔ اور کچھ خاص کرنا بھی نہیں پڑے گا، بس جتنا ڈر ہے، یقین کی مقدار اس سے کچھ زیادہ رکھنی پڑے گی۔
پیارے پڑھنے والے، تمہیں کون کون سے ڈر مارتے ہیں؟ کون سے خوف نے تمہیں جکڑا ہوا ہے۔ کون سی باتیں سوچ کر پھریری سی آجاتی ہے؟ چکر چڑھ جاتے ہیں! کبھی اس ڈر کی آنکھوں میں جھانکا ہے؟ کہتے ہیں پھر وہ نظر نہیں آتا۔
کہتے ہیں ایک بہت بڑی وادی میں ایک ڈریگن رہتا تھا، مگر نہ تو وہ پھنکارتا، نہ ہی ہی منہ سے آگ گراتا تھا، مگر اس کی دہشت سے وہ ساری وادی سہمی رہتی تھی۔ کھیتوں والے ہل نہ چلاتے، بچے سکول نہ جاتے، بس سب اس کے ڈر سے سہمے رہتے۔ کئی سال اس کی دہشت سے لوگ سہمے رہے حتیٰ کہ ایک نوجوان گڈریے نے اس کے خوف کا حصار توڑ دیا۔
گڈریے کو اس کے باپ نے صرف ایک چیز سکھائی تھی۔ جب تم ڈرنے لگو تو ڈر کی آنکھوں میں دیکھ لینا۔ سو اس نے پہاڑوں پرڈریگن کے پاس جانے کا اعلان کیا تو بڑے بوڑھے سمجھانے آئے، اسے بتایا گیا کہ کئی سورما کھیت رہ چکے ہیں سو اسے اپنی جان سنبھال کر وہاں سے نکل جانا چاہیے۔ گڈریے نے کہا کہ اسے ڈرنا نہیں آتا سو وہ صرف ڈریگن کی آنکھوں میں دیکھے گا اور واپس آجائے گا۔
سو ایک دن گڈریے نے صبح سویرے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا اور ڈریگن کی بہت بڑی لال لال آنکھ دیکھی اور اس کے اندر جھانکا اور پہلی چڑھائی چڑھ گیا، جیسے جیسے وہ چڑھائی چڑھتا جارہا تھا، اندھیرا پھیلتا چلا گیا اور گھنی سیاہ رات ہوگئی۔ رات کو بھیڑیوں، گیدڑوں اور کیڑوں مکوڑوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، لیکن گڈریے کو یہ ساری موسیقی پسند تھی، سو وہ ڈٹ کر سویا۔ صبح اٹھا اور پھر ڈریگن کی آنکھ میں دیکھنے کے اگلی چڑھائی کی طرف چل دیا۔ اس نے غور کیا کہ جیسے جیسے وہ اوپر چڑھ رہا تھانہ، ڈریگن دور ہوتا جارہا تھا اور اس کا حجم کم ہوتا جارہا تھا۔
چار راتوں کی جاں گسل مشقت کے بعد گڈریا چوٹی پر پہنچ گیا تو وہاں کسی ڈریگن کا وجود نہ تھا، اس نے حیرت سے چار چپھیرے دیکھا، مختلف سمتوں میں نگاہ کی اور آوازیں دیں مگر ڈریگن کا نام ونشان نہ تھا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور جب بیٹھا تو اس کی نظر ایک مدقوق چھپکلی جیسی چیز پر پڑی، مگر وہ چھپکلی نہ تھی، وہ تو ہو بہو ڈریگن تھا مگر ایک چھپکلی جتنا۔ گڈریے نے اسے ہاتھ میں اٹھایا اور اس کی آنکھوں میں جھانکا تو اسے پہچان گیا۔
“ارے تم اتنے چھوٹے، مدقوق کیسے ہوگئے، تم تو اتنے جسیم اور جان لیوا تھے” گڈریے نے حیرت سے پوچھا۔
“میں ڈر ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی میری آنکھوں میں دیکھ لے تو میں اسے اتنا ہی نظر آتا ہوں جتنا میں ہوں اور اگر نہ دیکھے تو اسے اتنا ہی بڑا نظر آتا ہوں جتنا اس کا ڈر ہوتا ہے “۔ اسے ایک مریل سی آواز میں جواب ملا۔
گڈریے نے ڈریگن کو جیب میں ڈالا اور واپسی کے رستے پر چلا۔ یہ الگ بات کی جب نیچے پہنچ کر اس نے ڈریگن کو جیب سے نکالا تو کئی لوگوں کی سانس اکھڑ گئی کہ ان کے ڈر کا سائز بہت بڑا تھا۔
اور ہاں ایک ڈر اور بھی ہوتا ہے، اور وہ ڈر یہ نہیں ہوتا کہ آپ ناکافی ہیں، بلکہ وہ اپنی روشنی اور اپنے شعلے سے ڈرنا ہے۔ اپنے اندر موجود نے پناہ امکانات سے ڈرنا ہے۔ شاندار ہونے سے ڈرنا ہے۔
تو پھر آج کس ڈر کی آنکھ میں جھانکنا ہے، صاحب؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply