عورت ذات۔۔ظریف بلوچ

چلو چلتے ہیں کسی انجانی  منزل کی طرف ،جہاں تم ہو اورمیری تنہائی، اور کسی انجانے درخت کے سائے میں بیٹھ کر جی بھر کر باتیں کرتے ہیں اور ساتھ رہنے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ ۔

یہ کہتے ہوئے وہ  رو پڑی۔۔

کیونکہ وہ ایک ایسی  معاشرتی زنجیر میں قید تھی، جس کے لئے گھر سے باہر نکلنا کسی جنت سے کم نہیں تھا۔وہ ایک پرندے کی طرح کسی ایسے پنجرے میں قید تھی کہ مالک صرف دانہ  اور پانی دیتےوقت پنجرے کا ایک  چھوٹا  سوراخ   کھولتا اور پرندے کی دن بھر کی خوشی بس یہی لمحہ ہوتا ۔

اسکی آنکھوں سے ٹپکتے آنسو اسکے  سرخ رخساروں کو چھوتے ہوئے نرم اور نازک بدن پر پہنچ کر خشک ہورہے  تھے اور گلابی ہونٹوں سے ایک مہک اٹھ رہی تھی۔ پنجرے کی قید سے نکلنے کے بعد وہ آج مصنوعی خوشی کا جشن منارہی تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ پھر اسے کسی پرندے کی طرح ایک جیل نما کمرے میں قید تنہائی کاٹنا ہوگی۔جہاں اسکی زندگی صرف اپنے  شوہر کی  جنسی خواہش کو پوری کرنا ہوتی ہے۔

اسے خوشی سے ناچتے دیکھ کر  میں نے صرف اتنا کہا ” آج سمندر کی مست موجوں کےساتھ جی بھر کر کھیلو، پتہ نہیں کب تمہیں دوبارہ ایسی خوشی نصیب ہوگی”۔

وہ چیخنے لگی” نہیں اب میں جیل کی سلاخوں کو توڑ کر آزاد فضاؤں میں گھوم لوں گی ،میں ایک سیکس ورکر نہیں بلکہ ایک انسان ہوں۔ جب میں آزاد پیدا ہوئی ہوں تو مجھے زنجیروں میں قید کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ وہ یہ کہہ رہی تھی کہ اسی اثنا  میں اسکے  موبائل کی گھنٹی بجنے لگی، دوسری طرف صرف یہی کہا گیا کہ اب تمہیں گھر لوٹنا ہے۔فون سنتے ہی اسکے  چہرے پر افسردگی کی لہر دوڑ گئی اور اسکی ادھوری خواہشات سمندر کی لہروں کی نذر ہوگئیں۔

وہ یہ کہتےہوئے چلی گئی کہ” سر اگر موقع ملے تو میری ادھوری کہانی کو بھی قلمبند کردیں ، کیونکہ کہنے کو تو میں بھی حوا کی ایک بیٹی ہوں اور معاشرتی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ایک عورت ”۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں کافی دیر تک سمندر کی مست موجوں کو تفکر  سے دیکھتا رہا اور کسی  دوسری  کہانی کے لئے   نیا  کردار ڈھونڈتا رہا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔