ایک بیوروکریٹ کی آشفتہ بیانی۔۔حافظ صفوان محمد

ایلیٹ جس چیز کو تاریخی شعور (Time-Consciousness یا Historical Consciousness) کہتا ہے اسے حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ کسی کے حالات و واقعاتِ زندگی کا مطالعہ ہے۔ خود نوشت آپ بیتی ہو یا سوانح، عام اِس سے کہ کسی غیر معروف آدمی کی ہو یا بہت مشہور انسان کی، اِسے پڑھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی عہد کے چالیس پچاس سال قاری کے سامنے آجاتے ہیں اور ایک تصویر سی اُس کے ذہن میں بن جاتی ہے، جس میں موقع بموقع رنگ بھرتے چلے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ متصوفانہ کہاوت “حکایات المشائخ جند من جنود اللہ” بھی یہی کہتی ہے کہ اگر واقعات حکایات کی صورت سنائے جائیں تو دل مضبوط ہوتے ہیں اور انسان بڑے بڑے کام کرنے کے ارادے اور ہمت کر لیتا ہے۔

خود نوشت سوانح بنیادی طور پر ایک براڈ کاسٹ ہوتی ہے: کہنے والا اپنی بات ویسے کہے جاتا ہے جیسے موذن۔ اذان اور خود نوشت میں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ موذن خدا کی طرف بلاتا ہے جب کہ مصنف اپنی مہما گائے چلا جاتا ہے۔ خود نوشت عام طور سے اِس لیے لکھی جاتی ہے کہ کچھ بتانے کے بجائے بہت کچھ چھپانا مقصد ہوتا ہے۔ یہ تسلیم کہ جب انسان کسی کے سامنے جاتا ہے تو پہلے منہ ماتھا درست کرلیتا ہے لیکن خود نوشتوں میں تو چہرے پہ اتنے ماسک چڑھائے ملتے ہیں کہ اصول صورت کا گمان بھی نہیں گزرتا۔ فلمی ستاروں کی خود نوشتیں ایسی ہوتی ہیں کہ بڑے بڑے خوش اعمال بزرگ شرما جائیں۔ ہر رجنیش خود نوشت میں حسن بصری نظر آتا ہے۔ مصنف اگر بڑا فوجی ہے تو وہ قوم کو کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے اور اگر کھلاڑی ہے تو بازیچۂ اطفال۔

اردو میں لکھی خود نوشتوں کا ایک اہم حصہ سول بیوروکریٹوں کے رشحاتِ قلم ہیں جن کا گلِ سرِ سبد بے شک قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی ہے۔ ہزار کوئی کہے کہ یہ ایوب خان کی مدلل مداحی ہے، تو بھائی شکر کیجیے کہ مداحی مدلل ہے۔ اگر مدلل نہ ہوتی تو آپ کیا اکھاڑ لیتے؟ جب بی بی سی جیسا ادارہ خبر سازی کرسکتا ہے تو تیسری دنیا کے ایک ملک کے غریب شہاب نے خود نوشت میں تاریخ سازی کرلی تو کیا گناہ کیا؟ ویسے آپس کی بات ہے کہ موم کی ناک ہونا ایک خوبی ہے نہ کہ خرابی۔ آپ کو اختیار ہے کہ آپ خودی کو بلند کریں؛ ملازم آدمی تو نوکری ہی کرے گا۔ اچھا نوکر ملنا ویسے بھی آج دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ خوش قسمت تھے وہ جن کو قادرِ مطلق نے قدرت اللہ شہاب جیسا ملازم نوکر دیا۔ کیا صرف مسٹر No بننا ہی وطن و ملت اور ادب کی خدمت کے لیے ضروری ہے؟ کیا مثبت سوچ اور اولی الامر کی اطاعت و خیر خواہی منافیِ شرائطِ ایمان ہے؟ ہمیں بحیثت قوم یہ سوچنا چاہیے کہ صرف خراب کار اور منفیت زدہ لوگ ہی ہمارے ہیرو کیوں ہوتے ہیں؟ دراصل منفیت اور لاقانونیت کی گلیمرائزیشن ہمارا صدیوں سے چلا آتا اثاثہ ہے۔ ہم کریں تو کیا کریں۔

یہ ساری تمہید اِس لیے اٹھائی کہ کچھ دن ہوتے ہیں ایک ایسی کتاب ہاتھ “چڑھی” ہے جسے پڑھنا نہیں، نہ پڑھنا مشکل ہے۔ تجربات، مشاہدات اور اُن کی بنیاد پر تعمیر کیے گئے دبنگ اور انتہائی ذاتی تجزیات اِس کتاب کا حاصل ہیں۔ حرف حرف موتی، ہر واقعہ اپنے پیچھے ایک جہانِ معنی اور تجربات کے سمندر لیے ہوئے۔

اِس کتاب کے ہر صفحے پر کم سے کم ایک آئس بریکر ملتا ہے جو خوش فہمیوں سے نکالتا اور حقائق کی دنیا میں جینا سکھاتا ہے۔ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے واقعات کے فشردے سے لے کر اربابِ عصر کے ایوانوں تک کی باتیں اِن صفحات میں یوں بکھری پڑی ہیں ہیں جیسے چنار کے پھول درختوں سے گرتے ہیں۔ پاکستانی دینی مدرسے کے اندر تقریر سے لے کر امریکی کانگریس میں اظہارِ خیال کرنے تک یکساں اعتماد۔ عجیب ہی نہیں نشاط انگیز بھی ہے۔

آئس بریکر کا ذکر آیا تو یقینًا تربیت کاروں اور موٹیویشنل سپیکروں کے کان کھڑے ہوگئے ہوں گے۔ جی ہاں! یہ کتاب اگر آپ کے پاس ہے تو یوں سمجھیے کہ آپ کے ادارے کے سارے ٹرینروں کے لیے آئس بریکرز کا ہمیشہ کے لیے حل ہوگیا۔ یہ وہ آئس بریکر ہیں جن کو صرف از ہند تا سند نہیں بلکہ شرق و غرب میں کہیں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

کتاب کے شروع میں دو تعارفی مضمون ہیں جن کے مطابق یہ ایک بیوروکریٹ کی آپ بیتی ہے۔ ہر دو محترمین کا دل رکھنے کو اُن کی مان لیتے ہیں لیکن درحقیقت یہ آپ بیتی نہیں کیونکہ اِس میں روایتی سوانحی ادب والا ربط مفقود ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے مضامین کی صورت زندگی کے اسباق ہیں جن کو اگلی نسل اور اہلِ وطن تک پورے خلوص کے ساتھ منتقل کرنا مصنف کا وہ درد ہے جو پوری کتاب میں کہیں ماند نہیں پڑتا۔

مشاہدات کا رسم البیان تصنع نہیں بے ساختہ ہے اور کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مطالب سمونے کا نمونہ ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے فقرے جو مختار مسعود کی یاد دلاتے ہیں، جنابِ مصنف کا ذاتی اسلوب محسوس ہوتے ہیں۔ ایک ثابت الرائے انسان جو دو جمع دو چار کی طرح واضح بات کرتا ہے لیکن کسی کو نام لے کر ہدف نہیں بناتا۔

اسلوب اور لفظیات کے پیمانے پر یہ کتاب سامنے کے لفظوں میں کہی گئی اور ایچ پیچ سے پاک ہے۔ دور ازکار استعارہ بالکل ناپید۔ محاورے اور لفظوں کی گہرائی کی بجائے معنیاتی گہرائی کا شاندار نمونہ۔

تصوف وہ روح ہے جو اِس کتاب کے حرف حرف میں سمائی ہوئی ہے۔ ن والقلم وما یسطرون سے شروع ہونے والی اِس کتاب کا اختتامیہ “انتقالِ پرملال” کے متوقع اعلان پر ہوتا ہے۔ موت کے کڑوے گھونٹ کے باوجود اِس کا حسن نہیں گہناتا۔

تو جناب، اِس کتاب کا نام “آشفتہ بیانی” ہے جو انتہائی پسماندہ بیک گراؤنڈ سے اٹھ کر انجینئرنگ کرنے کے بعد Siemens سے ملازمت شروع کرکے سول سروس میں قدم رکھنے والے جناب حبیب اللہ خان خٹک کے تجربات ہیں۔ خٹک صاحب سول سروس میں ایک نیک نام اور قابل افسر رہے اور فیڈرل سیکرٹری اور چیف سیکرٹری فاٹا کی پوسٹوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

مجھے حیرت کتاب کے نام پر ہے۔ آشفتہ بیانی کا مطلب “بے ربط گفتگو” ہوتا ہے۔ لغوی اعتبار سے سولہ آنے درست ایسا نام کم ہی کسی تصنیف کا ہوا ہوگا۔

دو باتیں البتہ محلِ نظر ہیں۔ پہلی یہ کہ اِس کتاب کو کسی نمایاں پبلشر کو شائع کرنا چاہیے تھا تاکہ اِس کا مہیا ہونا آسان رہتا، اور دوسرے پیشکش بہتر کی جاسکتی تھی۔ بہرحال پھول خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کی خوشبو پھیلے گی تو یہ دست گرداں ہوگی اور اپنی جگہ بنائے گی اور اِس کے اقتباس سوشل میڈیا پر خوب پھیلیں گے۔ صرف ایک اقتباس دے کر بات ختم کرتا ہوں:

Advertisements
julia rana solicitors

“حکومت کی نوکری ریل کا سفر ہے۔ آپ پشاور سے کراچی کے لیے ریل کے ڈبے میں بیٹھ گئے، اب یہ آپ کی مرضی ہے آپ سوجائیں، کتاب پڑھیں، رپورٹ لکھیں، ساتھی مسافروں کے ساتھ گپ شپ لگائیں، ہر بڑے سٹیشن سے چٹ پٹی خوراک خریدیں یا موبائل فون پر مشغول رہیں، آپ کراچی پہنچ جائیں گے۔
کبھی کبھی راستے میں اکا دکا افراد کو جھٹکا لگ جاتا ہے۔ او ایس ڈی بنا دیے جاتے ہیں، یا منفعت بخش پوسٹ یا ٹیکہ (پنجابی والا ٹیکہ) والی کرسی سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ چند ماہ بعد پھر اسی قسم کی نشست پر جلوہ افروز ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ عرصہ طویل ہوجائے تو اس دوران دوسری حکومت آجاتی ہے، جس کو باور کرایا جاتا ہے کہ “سیاسی وجوہات” کی بنا پر ان کو علیحدہ کر دیا گیا تھا۔”
۔
11 دسمبر 2020

Facebook Comments