زندگی تو مارے گی۔۔عارف انیس

یہ طے ہے کہ زندگی روز ایک ایک دن کرکے مارے گی، تھکن ہوگی ، جسم ٹوٹ جائے گا، نیند روٹھ جائے گی، دل پر دل بروں کے ہاتھوں خراشیں پڑیں گی، انگ انگ فریاد کرے گا اور درد چار چپھیرے رقص کرے گا۔ خوشی ملتی رہے گی مگر درد کے دو پاٹوں میں وقفہ بن کر۔ مگر جس حال میں جینا مشکل ہو، اسی حال میں جینا لازم ہے۔
قدیم رومی سلطنت میں ایک قاعدہ تھا۔ رومی کمال کے لوگ تھے۔ ہزار سال کی شہنشاہیت چلا گئے، کچھ ڈھنگ کا کرتے ہی ہوں گے۔ ان کا دستور تھا کہ جب ان کا کوئی جرنیل بڑی فتح حاصل کر کے واپس آتا توا ایک عظیم الشان جلوس نکالا جاتا۔ جرنیل سنہری چوغہ اور سر پر تاج پہنتا۔ چار وحشی گھوڑوں کا رتھ روم کی گلیوں میں دوڑتا اور ارد گرد مداحوں کے ٹھٹھ لگے ہوتے جو فاتح کے نام کے نعرے بلند کرتے۔ جرنیل کے بالکل پیچھے ایک تنو مند حبشی غلام آراستہ ہوتا۔ جیسے ہی نعرے بلند ہوتے وہ جرنیل کے کان میں چبھتی ہوئی سرگوشی کرتا۔ “میمنتو موری، میمنتو موری”۔۔۔۔۔ مطلب بڑا واضح تھا “یاد رکھو تم فانی ہو۔ یاد رکھو تم مر جاؤ گے۔ یاد رکھو تم مٹی ہوجاؤ گے”۔ فتح کے ان لمحات میں شاید اس جرنیل اور ہم سب کے لیے ان سے اہم کلمات اور کوئی نہیں ہیں۔
ہم سب کے خواب ہیں، سراب ہیں، نیتیں ہیں، ارادے ہیں، عزائم ہیں، کچھ پوری ہوں گی، کچھ ادھوری رہیں گی۔ کچھ پوری ہوکر ادھوری ہوجائیں گی۔ ہم سب اپنے خوابوں کے تعاقب میں مارے جائیں گے۔
نفسیات کی راہوں میں چلتے ہوئے بیس برس سے زائد عرصہ ہوگیا۔ نفسیاتی توڑ پھوڑ کے حوالے سے ایک چیز یہ سیکھی کہ ہم میں سے اکثر جزباتی طور پر کانچ کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اب زندگی جب دھوبی پٹڑا مارتی ہے تو ہم چور چور ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہم نے اس کانچ کو آگ پر صیقل نہیں کیا ہوتا۔ ہم جتنے “فریجائل” ہوتے ہیں، اتنا ہی گھائل ہوتے ہیں۔
ہمیں ذاتی طور پر اور قومی طور پر، جذباتی طور پر ٹف ہونا پڑے گا، اپنے جذباتی مسلز کے اوپر سے چربی پگھلانا پڑے گی۔ اگر ہم جذباتی طور پر تگڑے ہوجائیں تو زندگی کے حادثات ہمیں تھکا سکتے ہیں مگر توڑ نہیں سکتے، تبھی میں ان رومی فلاسفروں کی بات دوہراتے ہوئے کہتا ہوں کہ مشکل راستہ نہیں، مشکل ہی راستہ ہے۔ راستے میں جو رکاوٹ آتی ہے، وہ بھی راستے کا حصہ بن جاتی ہے۔
اگر تم زندگی کی جنگ میں سورما ہو تو پھر تم ہر منفی کو مثبت بنانا سیکھ جاؤ گے۔ جتنی اینٹیں پھینکی جائیں گی، ان سے ہی پہاڑ کی چوٹی کی جانب جاتا ہوا رستہ تعمیر ہوجائے گا۔ ہم حالات پر نہیں، اپنے اوپر بس چلا سکتے ہیں۔ جب زندگی ہمیں اپنے قدموں پر اوندھے منہ جھکا دے اور اٹھنے کی سکت نہ ہو تو پھر بھی ہم گرے رہنے سے انکار کر سکتے ہیں۔ صبر راستہ ہے، ہمت راستہ ہے، عاجزی راستہ ہے، رکاوٹ راستہ ہے۔ اپنی زندگی پر غور کریں، اس میں جتنا بھی رنگ ہے، اس میں اس وقت نکھار آیا جب زندگی کے گرم پانی نے پتی کو کھولاؤ میں ڈالا۔
شکوہ کرنا چھوڑدو، اپنی ذمہ داری پر اور اپنی شرطوں پر جینا شروع کرو۔ زندگی اور لوگوں کو اپنے آپ کو روندنے کا حق خود دیا ہے، وہ ان سے واپس لے لو۔ کانچ مت بنو، لوہے کے چنے بن جاؤ۔ زندگی کے چکر سے کوئی بچ کر نہیں نکلتا۔ بس آدمی کو مرتے دم تک ضرور زندہ رہنا چاہیے!
عارف انیس
( مصنف کی زیر تعمیر کتاب “صبح بخیر زندگی” سے ری براڈکاسٹ اقتباس )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply