• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بھارت میں بڑھتااسلاموفوبیا: اسباب اور سد باب(آخری،قسط3)۔۔عبد ا لرحمٰن عالمگیر

بھارت میں بڑھتااسلاموفوبیا: اسباب اور سد باب(آخری،قسط3)۔۔عبد ا لرحمٰن عالمگیر

اسلام کے تعارف کے غلط ذرائع

کوئی بھی غیر مسلم اسلام کو دو طریقے سے جانتا ہے۔ (1)مسلمانوں کو دیکھ کر (2) ذرائع ابلاغ کے ذریعہ۔ پہلے طریقے سے اسلام کو جاننے والے مزید گمراہ ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی بستیاں اور ان کی نجی زندگی اسلام کے بالکل برعکس ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے گلی کے لفنگے سے لے کر داعش کے دہشت گرد تک اسلام مخالف ذہن بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ اسی لیےعلماء کو کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کا مطالعہ مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے ذریعہ کرنا چاہیے۔

دوسری قسم کے وہ لوگ جو اسلام کو کتابوں اخباروں اور فلموں کے ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اخبارات اور فلموں پر تبصرہ اوپر گزر چکا ہے۔البتہ جو لوگ اسلام کا مطالعہ کتابوں کے ذریعہ کرنا چاہتے ہیں۔ تو انہیں جو کتابیں میسر آتی ہیں وہ یا تو مستشرقین کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں یا  انکی لکھی ہوئی کتابوں سے مستفاد ہوتی ہیں۔ آپ اس سے بخوبی واقف ہوں گے کہ ان کتابوں میں اسلام کے تئیں کیسےکیسےمغالطےپھیلائے جاتے ہیں۔ جیسے مسلمان عورتوں کو قید میں رکھتے ہیں۔ غیرمسلموں کو مار ڈالتے ہیں اور اپنا مذہب جبر و تشدد کے ذریعہ پھیلاتے ہیں وغیرہ۔

مستشرقین نے اسلام پر اتنی کتابیں تصنیف کی ہیں کہ اس موضوع پر عربی، اردو اور فارسی کے علاوہ آنکھ بند کرکے کوئی بھی زبان میں اسلام پر کتاب اٹھائی جائے تو پہلی کتاب انہیں کی لکھی ہوئی یا ان سے مستفاد کتاب ملے گی۔ ایسا اس لیے ہے کہ مسلمانوں نے دین اسلام کے تعارف کے لیے اپنے مدعو کی زبان اور ان کے معیار کے مطابق لیٹریچر تیار نہیں کیا۔ اس موضوع پر مستشرقین کی کثرت ِتصانیف کا اندازہ ایڈورڈ سعید کے بیان سے لگایاجاسکتاہےکہ مغربیوں کی جانب سے صرف 1800 سے 1950 تک 60 ہزار کتابیں لکھی گئیں۔ [51]اسی کا نتیجہ ہے کہ انڈیا میں غیر مسلمین کی اسلام کے تعارف پر انگریزی و ہندی میں لکھی جانے والی تمام کتابیں مستشرقین کا چربہ ہوتی ہیں۔ گویا کہ ہم نے ان لوگوں کو جو سنجیدگی کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں انہیں بھیاسلاموفوبک ہونے سے نہیں بچا پائے۔ امبیڈکر جن کوہندوستان کا سیکولر اپنا امام مانتا ہے اور ان کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب Pakistan, or Partition of India میں مکمل ایک مضمون Break-up of Unity میں مسلمانوں پر لگائے جانے والے تمام گھسے پٹے الزامات کو سجا سنوار کر پیش کر دیا ہے۔ جس میں انہوں نے مختلف بے بنیاد دلائل کی مدد سے دکھلانا چاہا ہے کہ محمد بن قاسم، محمود غزنوی، بابر، نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی، تیمور اور محمد غوری تمام کے تمام ظالم و جابر حکمران تھے۔ جنھوں نے لوگوں کو جبراً مسلمان بنایا، اسلام قبول نہ کرنے پر مختلف قسم کی سزائیں دی، بے دریغ خون بہایا، مندروں کو منہدمکرکے مسجد یں بنائیں وغیرہ۔ آپ جانتے ہیں ایساانھوں نے کیوں لکھا؟ کیوں کہ ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی تاریخ سے آگاہی کے لیے جو کتابیں انہیں میسر ہوئیں۔ وہ تمام کتابیںمستشرقین کی تالیف کردہ تھیں۔ امبیڈکر نے اپنی کتاب میں اس عنوان کی تیاری کے لیے جن مصنفین کا مطالعہ کیا ہے وہ یہ تھے: (1)Alexander Cunningham, (2)Murray Thurston Titus,(3) Stanley Lane-Poole پہلے دو عیسائی مشنری کے لیے کام کیا کرتے تھے اور تیسرا خاندانی مستشرق تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جو کتاب ایسے لوگوں کے افکار کا مجموعہ ہو اس میں کیسے انصاف پسندی کی باتیں ہو سکتی ہیں۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی تاریخ پر دوسری زبانوں میں ہم نے کیا کام کیا ہے ؟ اگر آپ اپنا میدانِ عمل خالی چھوڑ دیں گے تو اغیار ضرور اس میں طبع آزمائی کریں گے۔ پھر چاہے گولوالکر جیسا انتہا پسند ہندو ہو یاامبیڈکر جیساسیکولر وہ اپنی علمی تشنگی کے لیے اسی جانب رخ کریں گے۔نصابی کتابوں کی تدوین ہویا تاریخ کا فلمائزیشن ہوان کی عمارتیں انہی کتابوں پر کھڑی ہوں گی۔پھر اس کے بعد نصابی کمیٹی یا فلم کار کو مورد الزام ٹھہرانا کسی طور پر درست نہیں ہے۔بلکہ یہ ان اہل علم مسلمانوں کا جرم ہےجنہوں نے اپنے فرض منصبی سے غفلت برتی تھی۔

لسانی یورش

مسلمانوں سے نفرت و عداوت کی بنیاد ہی شبہات و اعتراضات پر رکھی گئی ہے۔ مسلمان اپنے تئیں پرانے الزامات سے تو جوجتے   ہی تھے مگر روز بروز نئے نئے طریقے سے ان پر ہورہی حرف گیری ان کے لیے مزید پریشان کن ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ ان سے اور بھی متنفر  ہو رہے ہیں۔ اسلاموفوبیا جڑ پکرتاجارہا ہے۔ کل تک لوگوں کو پریشانی مسلمانوں سے نہیں  بلکہ اسلام سے تھی۔ صرف وہ لوگ مورد الزام ٹھہرتے تھے جو مکمل اسلام پر عمل پیرا تھے یا داڑھی، ٹوپی اور پنچ وقتہ نماز کے پابند تھے۔ انہیں ملّا، مولوی، بنیاد پرست اور انتہا پسند کہا جاتا تھا۔ لیکن آج نام نہادمسلم،ٹِک ٹاک یا بالیووڈاسٹاراور جنسی خواہشات سے سرشار ہوکر غیر شرعی طور پر غیرمسلموں سے عشقیہ شادی رچانے والا بھی’’جہادی‘‘ہے۔ پہلے صرف بم بلاسٹ اور دہشت گردانہ حملے ہی ان کے خود ساختہ جہاد کے مفہوم میں آتے تھے۔ مگر اب مقابلہ جاتی امتحانات میں 829 طلبہ میں 40 مسلم امیدواروں کا کامیاب ہو جانا جو مکمل سیٹوں کا پانچ فیصد کا تناسب ہےاور مسلمانوں کی کل آبادی کے لحاظ سے نہایت کم ہے۔ وہ ’’یو پیایس سی جہاد‘‘ہے۔ وباء کی گرفت میں آجانا اور اپنے کسی مسلمان بھائی کو بیماری سے متاثر کر دینا’’کرونابم‘‘ہے۔ جموں کے مسلمانوں کا اپنی مرضی کے مطابق اپنی جگہ پر گھر، مسجد یا مدرسہ بنانا ’’زمین جہاد‘‘ ہے۔ اور اس قسم کی بہت ساری مسلمانوں کی معمولات زندگی’’جہاد ‘‘کے خانے میں آتی ہے جس کا مقصد ہندوؤں کو غلام بنانا ہے۔گویا مسلمانوں کی عام زندگی چاہے وہ شریعت کے موافق ہو یا مخالف اسے کسی نہ کسی طور پر پروپیگنڈہ کی شکل دے دی جاتی ہے۔

اشتعال انگیز بیانات

بے شمار شبہات اور من گھڑت اعتراضات و الزامات کو بنیاد بنا کر لوگوں کو ورغلایا جاتا ہے۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ گائے ہماری ماں ہے۔ اس کو ذبح کرنا اور کھانا ناقابل معافی جرم ہے۔ جس کی سزا دینے کا حق خود وہ رکھتے ہیں۔  ایسا نہ کرنے والوں کو بزدل اور دیوث کا طعنہ دیتے ہیں۔ گئو ہتھیا اور لوجہاد کے روک تھام کے لیے اے کے 47 اور تِرشول و بھالے کی تربیت ہندوتوا کے لیے  فخر بتلاتے ہیں۔ جس کا برسرعام اظہار کرنے سے کبھی نہیں کتراتے ہیں۔ ان باتوں سے مسلموں کے تئیں ہندوؤں میں نفرت و عداوت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ جس کا سیدھا فائدہ مشتعل لیڈروں کو ہوتا ہے۔

ہندوتوادی حکومت

اشتعال انگیز بیانات پر چُن کر حکومت میں آنے والے سیاستدانوں کی منشا ء ہوتی ہے کہ جس جذباتیت کے سہارے وہ اقتدار کی کرسی تک پہنچے ہیں۔ اس کو کبھی سرد نہ ہونے دیں بلکہ وہ ہمیشہ جواں رہے۔ جس کے لیے وہ ہر شعبے کو مہر بلب کر دیتے ہیں یا اس کی کمر توڑ دیتے ہیں جو ان کے کھیل میں رخنہ انداز ہو سکے۔ جب شکنجہ کسنے والوں کو ہی پژمردہ کردیاجائے تو اسلاموفوبیا کی مسموم لہر پھیلنا لازمی ہے۔ اس کے بعد کل تک جو سر پھرے بلوائییوں ہی بھٹک رہے تھے ان کی ہندوتوادی حکومت سرپرستی کرنے لگتی ہے۔ جو بے بنیاد الزامات تھے انہیں ثبوت فراہم ہونے لگتے ہیں۔ اب تک جو اپنے پچھلے گناہوں کی وجہ سے کورٹ کا چکر کاٹ رہے تھے یا جیل کی چکی میں پِس رہے تھے انہیں ’’باعزت بری‘‘کر دیا جاتا ہے۔ کل تک جو مجرم تھے اب وہ مؤقر عہدیدار اور وزارتِعظمٰی کے رکن بن جاتے ہیں۔ ان سے حوصلہ پا کر گلی کے چور اچکے بھیاس امید میں وہی ہڑبونگ مچانے لگتے ہیں کہ کہیں ہمیں بھی اس طفیل میں وزارتِعظمیٰ کی رکنیت میسر ہو جائے۔

سد باب

اسلام سے وابستگی

آج مسلمانوں کو درپیش تمام مسائل صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک اللہ کو الٰہ و معبود مانتے ہیں۔ ان مسائل کا حل بھی اسلام پر مکمل عمل پیرا ہونے میں ہی پنہاں ہے۔[52] جب ہم پر مسلمان ہونے ہی کی وجہ سے مشکلات کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور جب تک ہمارا اسلام سے ذرہ برابر بھی تعلق رہے گا ہمیں  یوں ہی پریشان کیا جاتا رہے گا۔ تو کیوں نہ ہم اسلام پر مکمل عمل پیرا ہو کر ان مشکلات کا مقابلہ کریں۔ یہ کتنی بڑی بد نصیبی ہے کہ ہمیں مسلمان ہونے کی وجہ سے پریشان کیا جاتا ہے اور ہم مسلمان بن کر اپنی زندگی گزارنا نہیں چاہتے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نےایمان سے وابستگی پر کامیابی کا وعدہ کر رکھاہے۔ تو پھر انجام کار سے گھبرانا کیسا؟ حالانکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ مسلمانوں کو ماضی میں جو سر بلندی ہاتھ آئی تھی۔ وہ اسلام سے وابستگی کی ہی بنیاد پر آئی تھی اور اگر آئندہ کبھی انہیں کامیابی مل سکتی ہے تو وہ اسی راستے سے مل سکتی ہے۔ جس کا اعتراف کرتے ہوئے عمر بن فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔’’إناكناأذلَّ قومٍ فأعزَّنا اللهُ بالإسلامِفمهمانطلبُالعزَّبغيرِ ما أعزَّنا اللهُ بهأذلَّنا اللهُ‘‘[53]ہم لوگ بہت پسماندہ قوم تھے۔ ہمیں اللہ نے اسلام کے ذریعہ عزت عطا کی ہے جب بھی ہم اس کے علاوہ عزت حاصل کرنا چاہیں گے اللہ ہمیں ذلیل کر دے گا۔

صحیح دین پر عمل

اسلام پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ دین کی حقیقی تعلیمات پر عمل کیاجائے خصوصاً معاملات میں جیسے وراثت میں انصاف، سود سے اجتناب، اسلامی طریقے پر شادی، طلاق اور خلع وغیرہ۔ اگر روایتی طریقے پر چلتے ہوئے بدعات و خرافات کی راہ اپنائی جائےیا بد اعمالیوں میں ملوث رہاجائے۔ تو ایسے دین پر چلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں مسلمانوں اور غیرمسلموں میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا اور نام نہاد مسلمانوں کے طرز عمل سے معاشرے میں مسلمانوں کی تصویر سنورنے سے زیادہ بگڑ جاتی ہے۔

اخلاق حسنہ

قرآن و حدیث میں اخلاق حسنہ کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔[54] مسلمانوں کو ہر میدان میں اپنے بہتر ہونے کا ثبوت دیناہوگا۔ جذباتیت سے گریز، اختلافات کے باوجود اتحاد و اتفاق، برداشت، رواداری، عدل کی روش اور استقامت کا مظاہرہ کریں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں اور اپنے جارحانہ رویہ میں تبدیلی نہیں لاتے ہیں تو اغیار کے پروپیگنڈے کو تقویت ملتی ہے۔ بلکہ اسلام کی وہی شبیہ بنتی ہے جیسا کہ اسلام دشمن طاقتیں بنانا چاہتی ہیں۔ کیونکہ اسلام کے بارے میں سب سے پہلا تصور آپ کے کردار و عمل کو دیکھ کر ہی قائم ہوتا ہے۔ لہذا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اخلاق و اطوار کو سنواریں، اپنے کردار کو سیرت نبوی کا نمونہ بنائیں۔ہمارایہ عمل ان کے بہت سارے شکوک و شبہات کو دور کرنے اور انہیں اسلام سے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔جب مسلمان ایسا کرنے لگے تو وہ دن دور نہیں جب میڈیا کی سرخیوں میں ہوگا کہ مسلمانوں نے جاں بلب مریضوں کی مدد کی اور ان کی جان بچائی۔ تعلیم کو عام کرنے کے لیے انہوں نے اسکول کھولے اور غریب بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا۔ مسلمانوں نے ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے پودےلگائے یا ندیوں کی صفائی کی مہم میں حصہ لیا وغیرہ۔

رفاہی کام

اس  سے بھی ملک میں اچھی اِمیج جاتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اُن معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں جس میں تمام لوگوں کے مصالح مشترک ہوں۔

اجتماعیت

اسلاموفوبیا اجتماعی سطح پر پھیل رہا ہے۔ اس لیے اس کے تدارک کے لیے بھی اجتماعی کوششیں کرنی ہوں گی انفرادی کوششوں کا اثر دیرپا نہیں ہوتا ہے۔

بینالمذاہب مکالمہ

اپنے علاقے کے غیر مسلم سے تعلقات استوار کریں خصوصاً ان لوگوں سے جن کے بارے میں یہ خدشہ ہو کہ یہ اسلاموفوبیا کی زد میں آسکتے ہیں۔ ممکن ہے آپ سے ملنے کے بعد ان کے ذہن میں مسلمانوں کی’’خیالی تصویر‘‘محو ہو جائے۔ ان کو اپنے قریب لانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ انہیں سماجی و دینی پروگراموں میں مدعو کریں۔ انہیں بتلائیں کہ اسلام اپنے علاوہ دوسرے مذاہب اور ان کے معبودان کے بارے میں کیا تعلیم دیتا ہے۔[55] اسی طرح مدارس و جامعات میں ادیان و مِلَل کے تعارف پر کتابیں داخل نصاب کی جائیں تاکہ اسلام اور دوسرے مذاہب کے موازنہ اور بین المذاہب مکالمہ میں آسانی ہو۔

اسلامی تعلیمات کو عام کرنا

غیر مسلمین مستشرقین کی اسلام پر  لکھی ہوئی کتابیں پڑھ کر گمراہ ہو رہے ہیں۔ ان کے لیے صحیح اور حقائق پر مبنی کتابیں، پمفلٹ، ویڈیوز اور ڈاکومینٹری تیار کی جائے۔ جس میں بتایاجائےکہ اسلام   ایسامذہب ہے جس کی بنیاد ہی امن و سلامتی پر ہے۔ جو مذہب کسی بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہو۔ [56]جنگی حالات میں بھی سایہ دار اور پھل دار درخت کاٹنے سے منع کرتا ہو۔ [57]وہ مذہب دہشت اور تشدد کو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ اسی طرح اسلام کی ان تعلیمات کو عام کرنے پر خصوصی توجہ دیجائے۔ جو موجودہ مسائل کا حل پیش کرتی ہو جیسے بکھرتا خاندانی نظام، جمع خوری،سود، جوا، جنسی بے راہ روی، اباحیت، اندھی قومیت، ذات پات اور ماحولیات کی اصلاح کے لیے اسلام کے روشن اصول کو مشتہر کیاجائے۔ اگر یہ کر لیا گیا تو لوگوں کو مسلمان ملک کی تمام پریشانیوں کی جڑ نہیں بلکہ دنیا کے تمام مسائل کا واحد حل معلوم ہوگا۔ ان شاء اللہ

شبہات و اعتراضات کا جواب

اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی تاریخ پر لگائےجارہے ہر الزام کا علیحدہ علیحدہ تشفی بخش جواب دیاجائے۔ اور اس کو عام کرنے کے لیے ایسے طریقے اختیار کیے جائیں جس سے وہ معاشرے کے ہر طبقہ تک پہنچے۔

دعوت الی اللہ

اسلام کے تعارف اور شبہات کے ازالہ کے ساتھ ساتھ ان کو حکیمانہ انداز میں اسلام کی دعوت دیجائے۔[58] دعوت کے نئے نئے اسلوب کو اپنایاجائے۔ معاشرے کے ہر طبقے کے لیے دعوت کا مخصوص انداز ہو۔ ان کو مساجد و مدارس اور اسلامی مراکز میں مدعو کیاجائے۔

اعلیٰ تعلیم

ملک کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی رسائی ممکن بنائی جائے‘میڈیا، ایڈمنسٹریشن،جوڈیشری اور بیوروکیسی میں مسلم طلبہ کو بھیجاجائے۔ اور یہ کام اعلیٰ تعلیم کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ جب تک ہم عصری تعلیم کے لیے دوسروں کی بیساکھیوں کے محتاج رہیں گے۔ ہماری قوم اعلیٰ تعلیم نہیں پاسکتی ہے۔ اس کے لیے وہی پروسیس اپنانا ہوگا جو طریقۂ کار ہم نے دینی تعلیم کی بقاء کے لیے اپنا رکھا ہے۔ پورے ہندوستان میں مدارس کے جال پھیلےہوئے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان کے چپہ چپہ میں مساجد، مدارس، علماء و دعاۃ موجود ہیں اور جن کی محنتوں سے ہندوستان کے مسلمان لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ سے واقف ہیں۔

میڈیا

میڈیا کی دوغلی پالیسی کے ردعمل میں اچانک پوری میڈیاانفراسٹرکچر کے قیام کا مشورہ دینا کسی طور پر درست نہیںہےاور نہ ہی یہ اتنا آسان ہے۔بےشک مسلمانوں کی اپنی میڈیا سروس ہو۔ لیکن ابھی ہنگامی ضرورت کے تحت مسلم جماعتوں کی جانب سے اعلیٰ قسم کے ویب پورٹل اور یوٹیوب چینل شروع کروایاجائے۔ ابھی چند سالوں سے ویب پورٹل اور سوشل سائٹس کی کافی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ لہذا یہاں مستحکم محاذ تیار کیاجائے اور جب یہاں بہتر نتیجے آنے لگے تو دھیرےدھیرےمیڈیا سروس کا بھی آغاز ہو۔

اسلاموفوبیا کے واقعات کی رپورٹ درج کروائیں

دیکھا جاتا ہے کہ اسلاموفوبیا کے واقعات سے مشتعل ہو کر احتجاج و مظاہرے تو خوب ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی مناسب قانونی چارہ جوئی  کی فکر نہیں کی جاتی ہے۔ جبکہ اصل لڑائی پولیس اسٹیشن اور کورٹ میں لڑی جاتی ہے۔ سیاسی بساط پر کچھ بھی جاری ہو لیکن قانونی لڑائی کا اثر ہمیشہ مثبت ہی رہتا ہے۔ اس لیےاسلاموفوبیا کے ادنیٰ سے ادنیٰ معاملہ کی رپورٹ درج کروائیں اور اس کے لیے قابل وکیلوں کا انتخاب کریں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو ایسے معاملات کی خبریں پہنچائی جائیں، ان کو خطوط لکھے جائیں اور ان سے ذاتی ملاقاتیں کی جائیں اگرچہ وہ ان واقعات سے آپ سےزیادہ باخبر ہوں پھر بھی یہ عمل مسلسل جاری رہے۔

ہندوتوا کیمنشاء کی وضاحت

مسلمانوں کو چاہیے کہ دفاعی پوزیشن سے اوپر اٹھ کر اقدامی رویہ اپنائیں۔ جس طرح وہ اسلام کے تعارف اور دعوت الی اللہ کے لیے توانائی صرف کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ واضح کریں کہ کس طرح ہندوتوادی دس فیصدبرہمنوں کو 80 فیصد ہندوستانیوں پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ منوسمرتی کا احیاء چاہتی ہے۔ منوسمرتی کے طبقاتی تعلیمات اور غیر انسانی قوانین کس طرح انسانیت مخالف ہیں۔ یہ لوگ دوسروں کو اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ صرف انہیں مسلمانوں سے بیر نہیں ہے بلکہ عیسائیوں، سکھوں، جینیوں کے بشمول ہندوؤں کی چھوٹی ذاتوں سے بھییہ اسی قدر نفرت کرتے ہیں۔ آر ایس ایس کیشاکھاؤں کی اندرونی سچائیوں کو سامنے لایاجائے۔ ملک کی عوام کو بتائیں کہ کس طرح وہاں ہتھیاروں کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ کیسے اس کے افکار دہشت گردی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان لوگوں نے کس طرح ہندو مذہب کو ہائی جیک کرلیا ہے۔ ان کا ہندوستان کی آزادی میں کتنا حصہ تھا وغیرہ۔  اس کام میں برادران وطن کے سیکولر ذہن اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی ساتھ لے لیاجائے۔ تو اس کا نتیجہ دور رس اور متاثر کن ہوگا۔ نیز ان کے تعاون سے یہ تاثر دینے کی کوشش کیجائے کہ ہندوتوادیوں کا فکر و نظریہ مسلم مخالف نہیں بلکہ ملک اور انسانیت مخالف ہے۔

اخلاص اور دعاء

اسلاموفوبیا کے مقابلے کے لیے اعلی درجہ کا اخلاص و للہیت چاہیے۔ نمائشوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔ اسی طرح اپنی تمام کوششوں کے بعد اللہ پر توکل و یقین ر  کھیں کہ ان شاء اللہ ہمیں فتح ملے گی اور اللہ سے کامیابی کی دعائیں کرتے رہیں۔

وَٱصۡبِرۡوَمَاصَبۡرُكَإِلَّابِٱللَّهِۚوَلَاتَحۡزَنۡعَلَیۡهِمۡوَلَاتَكُفِیضَیۡقࣲمِّمَّایَمۡكُرُونَ[59]

اور صرف اورصرف اللہ پر صبر و توکل کریں۔ان کے بارے میں غمزدہ نہ ہوں اور نہ ہی ان کی ریشہ دوانیوں سے کبیدہ خاطر رہیں۔

 

[1]Muslim in the west: From Sojourners to Citizens by Yvonne Yazbeck Haddad, Oxford University Press, New York,2002, P:19

[2] New Muslim in the European context: The Experience of Scandinavian converts by Anne Sofie Roald, Brill,Boston,2004, P:53

[3]القرآن؛ البقرۃ 2/217

[4]القرآن؛ المائدۃ  5/82

[5]القرآن؛ البقرۃ 2/217

[6]رگ وید؛ 10:90

[7]تفصیل کے لیےملاحظہ ہوں ارندھتی رائے کی کتاب The Doctor and the Saint: Caste, Race, and Annihilation of Caste, the Debate Between B.R. Ambedkar and M.K. Gandhi, Haymarket Books, Chicago,2017

[8] We or Our Nationhood Defined by M.S. Golwalkar, Bharat Prakashan,Nagpur,1947, P:53

[9]ibid: P:52

[10]ملاحظہ ہوں کتاب کا چوتھا اور پانچواں مضمون ص: 48تا59

[11]ملاحظہ ہوںJyotipunj by Narendra Modi,Translated into English by A.K. Gandhi, Prabhat Prakashan, New Delhi, P:43-75

[12]https://www.rss.org//Encyc/2012/10/22/rss-vision-and-mission.html

[13]https://en.wikipedia.org/wiki/Akhil_Bharatiya_Vidyarthi_Parishad

[14]https://en.wikipedia.org/wiki/Vidya_Bharati

[15]https://en.wikipedia.org/wiki/Vanavasi_Kalyan_Ashram

[16]https://www.rss.org/hindi/Timeline.html

[17]https://www.rss.org//Encyc/2012/10/22/rss-vision-and-mission.html

[18]https://en.wikipedia.org/wiki/Vishva_Hindu_Parishad

[19]https://theprint.in/india/governance/cia-document-tags-vhp-and-bajrang-dal-as-militant-religious-outfits/70409/

[20]https://www.rss.org/hindi/Timeline.html

[21]https://en.wikipedia.org/wiki/Vidya_Bharati

[22]https://en.wikipedia.org/wiki/Akhil_Bharatiya_Itihas_Sankalan_Yojana

[23]https://en.wikipedia.org/wiki/Hindu_Jagran_Manch

[24]https://www.rss.org/hindi/Timeline.html

[25]ذکر کردہ معلومات مضمون نگار نے سنکلپ کی دھیرپور، دہلی سینٹر سے براہ راست نجی طور پر حاصل کیا ہے۔ مزید جانکاری کے لیے ان کی ویبسائٹhttps://www.samkalpiascoaching.com/ پر موجود سالانہ آرگن سَمیک درشٹی کا مطالعہ مفید ہوگا۔

[26]https://www.newsclick.in/rss-affiliate-set-its-units-all-educational-institutions-uttarakhand

[27]https://en.wikipedia.org/wiki/Durga_Vahini

[28]http://www.adhivaktaparishad.org/

[29]http://abpssp.org/

[30]http://www.muslimrashtriyamanch.org/

[31]http://bgrd.org/

[32]http://www.rbsvm.in/

[33]https://www.firstpost.com/india/renaming-aurangzeb-road-after-apj-abdul-kalam-new-delhi-was-inspired-by-history-not-bigotry-2416606.html

[34]https://www.indiatoday.in/india/story/mughalsarai-station-now-deen-dayal-upadhyay-1305833-2018-08-05

[35]https://www.indiatoday.in/education-today/featurephilia/story/allahabad-to-be-renamed-as-prayagraj-a-look-at-up-govt-s-renaming-streak-1368908-2018-10-16

[36]https://www.thehindu.com/news/national/faizabad-district-to-be-renamed-as-ayodhya-yogi-adityanath/article25434603.ece

[37]https://www.tribuneindia.com/news/archive/features/mustafabad-renamed-saraswati-nagar-194618t

[38]https://www.cnbctv18.com/views/muslims-not-allowed-the-stereotypes-of-mumbais-rental-property-market-6970051.htm

[39]https://www.bbc.com/hindi/india-54265779

[40]https://www.indiatoday.in/amp/india/story/indian-air-force-supreme-court-dress-code-beard-357634-2016-12-15

[41]https://twitter.com/GhazalaAhmad5/status/1301116493090836480?s=08

[42]https://scroll.in/article/877901/in-gurgaon-hindutva-groups-stop-friday-namaaz-in-several-open-spaces

[43]Report of the Fact-Finding Committee on the North-East Delhi Riots of February 2020,Prepared for Delhi Minorities Commission, by the Fact-Finding Committee headed by M.R. Shamshad, Published on 16 July 2020, P:30

[44]ibid: P:36

[45]https://thewire.in/women/delhi-riots-women-sexual-harassment

[46] Report of the Fact-Finding Committee on the North-East Delhi Riots of February 2020, P:42-55 & 126

[47]ibid: P:54

[48]مزید معلومات کے لیے وزٹ کریںhttps://www.barcindia.co.in/

 

[49]Mahesh Bhatt ‘s Feeling about Islam at Peace Conferencehttps://youtu.be/s6ox34rspAo

[50] The Making of Lynchistan: Inside India’s Deadly ‘Gau Raksha’ Network, Documentary by The Quint https://youtu.be/UaCtvYtV2f0

[51]Orientalism by Edward W. Said, Penguin Books, London, 2003, P:204

[52]القرآن؛ آل عمران: 3/139

[53]مستدرک حاکم:207، وصححہالألبانی فی السلسلۃالصحیحۃ 1/117

[54]القرآن؛فصلت: 41/34،القلم:68/4 ،

الحدیث؛ صحیح بخاری: 6035، مسند احمد: 2/180، قال احمد شاکر اسنادہ صحیح، سنن ابیداود :4682

[55]القرآن؛الانعام: 6/108

[56]القرآن؛المائدۃ: 5/32

[57]القرآن؛الحشر؛: 59/5

[58]القرآن؛النحل: 16/125

Advertisements
julia rana solicitors london

[59]القرآن؛ النحل:16/127

Facebook Comments