نصف دماغ (1)۔۔وہاراامباکر

تین سالہ میتھیو اچانک ہی زمین پر گر گیا۔ ہونٹ نیلے پڑ گئے۔ اس کو سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔ اس کی ماں کے ہاتھ پاوٗں پھول گئے۔ اپنے شوہر کو فون کیا۔ شوہر نے کہا، “فوری طور پر ایمرجنسی کو کال کرو۔ ڈاکٹر کو بلاوٗ۔”
اس روز ایمرجنسی روم میں چکر کے بعد ڈاکٹروں کے چکر لگنے لگے۔ لیکن کچھ پتا نہیں لگا۔ کیا یہ صرف ایک بار کا ہی واقعہ تھا؟
نہیں۔ ایک مہینے بعد کھانے کے دوران میتھیو کا چہرہ بگڑنے لگا، آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا ہو۔ دایاں بازو سخت ہو گیا، سر سے اوپر اٹھ گیا۔ ایک منٹ تک میتھیو اسی طرح رہا۔ ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا لیکن ایک مرتبہ پھر کچھ واضح تشخیص نہیں ہو سکی۔
اور اس سے اگلے روز پھر ویسا ہی ہوا۔
ایک نیورولوجسٹ نے میتھیو کی دماغی ایکٹیویٹی کی پیمائش کی۔ مرگی کے آثار ملے۔ میتھیو کو اس کی ادویات شروع کروا دی گئیں۔ ادویات سے افاقہ ہوا، لیکن زیادہ عرصے تک نہیں۔ میتھیوز کو واپس پھر دورے پڑنے لگے۔ اور بہت تیزی سے۔ پہلے ایک گھنٹے کے وقفے سے۔ پھر، پھر پون گھنٹے اور پھر نصف گھنٹے۔ یہاں تک کہ ایک وقت میں یہ وقفہ چند منٹ تک آ گیا۔ ہسپتالوں کے چکر چلتے رہے۔ میتھیو کی زندگی آسان نہیں تھی۔ اس کے والدین اپنے بیٹے کا سوگ منا رہے تھے۔ اس کے مر جانے پر نہیں، اس سے عام زندگی چھن جانے پر۔ غصہ، انکار اور مایوسی زندگی کا حصہ بن گئی۔ نیورولوجسٹ نے کہا کہ یہ مسئلہ ان کے بس سے باہر ہے۔ اسے بالٹی مور کے جونز ہاپکنز ہسپتال بھیج دیا گیا۔ یہاں پر میتھیو کی بیماری کی تشخیص ہوئی۔ یہ ایک نایاب مرض تھا۔ یہ دماغ کے چھوٹے حصے نہیں بلکہ نصف دماغ کو متاثر کرتا تھا۔ اس کا صرف ایک ہی علاج تھا۔ آدھے دماغ کو نکال دینا۔ ان کی والدہ کا کہنا تھا، “ایسی بات سن کر ہی آپ کے حواس اڑ جاتے ہیں۔ آپ سننا بند کر دیتے ہیں”۔
والدین نے کئی دوسرے طریقے اپنانے کی کوشش کی۔ کسی نے بھی کام نہیں کیا۔ چند مہینوں بعد جان ہاپکنز ہسپتال میں آپریشن کروانے کی حامی بھر لی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا میتھیو بچ پائے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ میتھیو کی زندگی پہلے سے بھی بدتر ہو جائے۔ لیکن کچھ اور چارہ نہیں تھا۔
کئی گھنٹوں کے آپریشن کے بعد اس انتہائی انوکھے آپریشن میں ماہر سرجن ڈاکٹر بین کارسن نے اس گلابی مادے میں سے نصف نکال لیا جہاں میتھیو کی عقل، جذبات، زبان، مزاح، خوف اور محبت تھی۔ یہ مادہ اپنی جگہ سے باہر بے کار ہے۔ آپریشن کے بعد میتھیو نے آنکھیں کھول دیں۔ سوال یہ تھا کہ نصف دماغ کے بغیر وہ بچہ کیسا ہو گا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میتھیو زندہ بچ گیا تھا لیکن خدشات درست ثابت ہوئے تھے۔ آدھا دماغ نکال لئے جانے کے بعد میتھیو بول نہیں سکتا تھا۔ چل نہیں سکتا تھا۔ اس کی حرکات میں ربط نہ تھا۔ یہ سب کچھ اسی حصے میں تو تھا جو اب میتھیو کے پاس نہیں رہا تھا۔
فزیکل تھراپی اور لینگوئج تھراپی کی گئی۔ ایک لفظ اور پھر دوسرا اور پھر چھوٹے فقرے ۔۔۔ میتھیو کی بولی آہستہ آہستہ واپس آنے لگی۔ تین ماہ کے اندر اندر نارمل زندگی واپس آ گئی۔
آج کئی برس گزر جانے کے بعد میتھیو دایاں ہاتھ بہت مہارت سے استعمال نہیں کر پاتا اور دائیں ٹانگ میں کچھ لنگڑاہٹ تو ہے لیکن اس کی زندگی بالکل نارمل ہے۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ کتنا غیرمعمولی واقعہ پیش آیا تھا۔ کالج میں تعلیم حاصل کی لیکن دائیں ہاتھ سے لکھنے میں روانی نہیں تھی جس وجہ سے تعلیم مکمل نہ کی اور اسے چھوڑ کر ریسٹورنٹ میں کام شروع کر دیا۔ فون کے جواب دینا، کسٹمر سروس، کھانا سرو کرنا اور وہی کام جو سب کرتے ہیں۔ کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا کہ اس کے سر سے نصف دماغ غائب ہے۔ یہ سب کیسے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میتھیو کے باقی نصف دماغ نے اپنی ری وائرنگ کر لی۔ جو فنکشن مسنگ تھے، انہیں حاصل کر لیا۔ نروس سسٹم کا بلیوپرنٹ تھوڑی جگہ پر ایڈجسٹ ہو گیا۔ آدھی مشینیری کے ساتھ مکمل اور بھرپور زندگی پا لی۔
ہم اپنے سمارٹ فون کی الیکٹرانکس کو آدھا کاٹ کر الگ کر دیں تو یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ پھر بھی کال کر سکیں گے، کیونکہ ہارڈ وئیر نازک شے ہے۔ ہم سافٹ وئیر کے کسی حصے کو الگ کر کے توقع نہیں رکھ سکتے کہ بقیہ سافٹ وئیر پیرامیٹر ایڈجسٹ کرنے کے علاوہ کوئی نیا فنکنشن بھی اپنا لے گا۔ یہ بے کار ہو گا کیونکہ سافٹ وئیر نازک ہے۔ ان کے مقابلے میں لائف وئیر کا کرشمہ یہ ہے کہ یہ بہت کچھ سہہ سکتا ہے۔ یہ نازک نہیں۔ میتھیو کی کہانی زندگی کے بھی سب سے متحرک اور حیرت انگیز مادے کی کہانی ہے۔
یہ ہمارے دماغ کی کہانی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: میتھیو کے دماغ کا آپریشن کرنے والے سیاہ فام سرجن ڈاکٹر بین کارسن وہی ہیں جنہوں نے امریکہ میں 2016 میں صدارتی انتخاب میں نامزدگی کے لئے کوشش کی اور ڈونلڈ ٹرمپ سے ہار گئے۔ بین کارسن ٹرمپ کابینہ میں شہری ڈویلپمنٹ اور ہاوسنگ کے وزیر اور کرونا ٹاسک فورس کا حصہ رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply