زندہ دماغ (5)۔۔وہاراامباکر

سکول کا طالبعلم جب دنیا کے نقشے کو دیکھتا ہے تو تصور کرتا ہے کہ ممالک کی سرحدیں بنیادی حقائق ہیں جو کبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ اس کے برعکس ایک ماہر مورخ یہ بات اچھی طرح سے سمجھتا ہے کہ ممالک کی سرحدیں بہت سے واقعات اور اتفاقات کا نتیجہ ہیں۔ اور اگر دنیا کی تاریخ دوبارہ معمولی سی ویری ایشن کے ساتھ دہرائی جائے تو یہ سرحدیں مختلف ہوں گی۔ کسی بادشاہ کا بچپن میں انتقال ہو جاتا، ایک وبا جو نہ آتی، قحط جو نہ پڑتا، ایک جنگی بحری جہاز جو ڈوب جاتا اور جنگ دوسری سمت چلی جاتی۔ چھوٹی تبدیلیوں سے اس نقشے پر بڑے اثرات مرتب ہوتے۔
دماغ بھی ایسا ہی ہے۔ ساتھ لگی تصویر جیسی تصاویر شاید آپ کی نظر سے گزری ہوں گی۔ اگرچہ روایتی ٹیکسٹ بُک کی ڈرائنگ یہ دکھاتی ہے کہ دماغ کے نیورون ایک دوسرے کے ساتھ بخوشی کام کر رہے ہیں اور ویسے بند ہیں جیسے کسی جار میں ٹافیاں۔ لیکن ایسے کسی کارٹون کو دیکھ کر دھوکا نہ کھائیں۔ نیورونز میں مقابلہ اور بقا کا کھیل جاری ہے۔ ہمسایہ ممالک کی طرح، نیورون اپنے علاقے کا اعلان کرتے ہیں اور اس کا جانفشانی سے دفاع کرتے ہیں۔ سسٹم کے ہر لیول پر یہ جنگ ہو رہی ہے۔ ہر نیورون اور ان کا ہر کنکشن وسائل کے لئے لڑتا ہے۔ جس طرح یہ جنگیں جاری رہتی ہیں، نقشے تبدیل ہوتے ہیں۔ کسی شخص کی زندگی کے تجربات اور مقاصد کا عکس ہمیشہ اس کے سٹرکچر پر ہوتا ہے۔ اگر ایک اکاونٹنٹ اپنا پیشہ چھوڑ کر پیانو بجانے لگے تو اس کی انگلیوں کو دیا گیا علاقہ پھیل جائے گا۔ اگر وہ مائیکروسکوپسٹ بن جائے تو بصری کارٹیکس زیادہ باریک تفصیلات دیکھنے کی صلاحیت ڈویلپ کر لے گا۔ اگر عطر کے کاروبار میں چلا جائے تو دماغ میں سونگھنے والے حصے زیادہ بڑے ہو جائیں گے۔
صرف دور سے دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دماغ جغرافیہ کی سرحدوں کی طرح نفیس علاقوں میں بٹا ہو۔ لیکن یہ ویسا نکتہ نظر ہے جیسے جغرافیہ کی کتاب دیکھنے والے بچے کا۔
دماغ اپنے وسائل تقسیم اس کے مطابق کرتا ہے جو اہم ہو۔ اور اس کو کرنے کا طریقہ اس کے حصوں کے درمیان “کرو یا مرو” کی طرز کا مقابلہ ہے۔ ایسا کبھی ہوا ہے کہ آپ کو لگا ہو کہ آپ کی جیب میں موبائل فون بجا ہے اور پتا لگا ہو کہ وہ تو میز پر پڑا تھا؟ کوئی دوسرے ملک میں جا کر وہاں کی زبان کتنی ہی روانی سے کیوں نہ بول لے، لہجے سے فوراً پہچانا جاتا ہے؟ لیکن اس کے بچے جو اسی ملک میں پیدا ہوئے ہوں، ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا؟ آٹزم ساونٹ سنڈروم کا شکار بچہ انتہائی مشکل معمہ فٹافٹ حل کر لیتا ہے لیکن اپنے ساتھیوں کے ساتھ عام روزمرہ کی گفتگو کرنے سے قاصر ہوتا ہے؟
ٹیکسٹ بک کی روایتی تصویر ان سوالات کا ٹھیک جواب نہیں دے پاتی۔ دماغ ساکن شے نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوکیو 1945 میں ایک مسئلے کا شکار تھا۔ روسی جاپانی جنگ اور دو جنگِ عظیم کے دور میں ٹوکیو نے چالیس سال میں اپنے انٹلکچوئل ذرائع ملٹری میں جھونک دئے تھے۔ یہ قوم ایک چیز میں بہت ماہر تھی۔ جنگ لڑنے میں۔ لیکن جنگ کی تباہ کاریوں اور ایٹم بم کا نشانہ بننے کے بعد اب ان میں ایشیا اور بحرالکاہل میں عسکری تسلط جمانے کا حوصلہ نہیں رہا تھا۔ جنگ ختم ہو گئی تھی۔ دنیا بدل گئی تھی۔ جاپانی قوم کو بھی تبدیل ہونا تھا۔
اور اب ایک مشکل سوال تھا۔ اتنے زیادہ ملٹری انجینیرز کا کیا کیا جائے جن کی مہارت ہتھیار تھے؟ یہ جاپان کے نئے شوق سے مطابق نہیں رکھتے تھ،ے جو امن کا شوق تھا۔
لیکن اگلے چند سال میں ٹوکیو نے اپنا منظر بدل لیا۔ سوشل اور اکانومک تبدیلیاں آئیں اور یہ انجینیر کچھ اور کرنے لگے۔ ہزاروں نے ملکر تیز رفتار بُلٹ ٹرین بنائی۔ وہ جو جنگی جہازوں کی ایروڈائنامکس کے ماہر تھے، اب ریل کار کی ایروڈائنامکس پر کام کر رہے تھے۔ جنہوں نے مٹسوبیشی زیرو بنایا تھا، وہ اب اس ٹرین کے پہیے، ایکسیل اور پٹری ڈیزائن کر رہے تھے جن پر یہ تیزرفتار ٹرین محفوظ طریقے سے چل سکے۔
ٹوکیو کے وسائل اپنے بیرونی ماحول سے ایڈجسٹ ہو گئے۔ تلواریں ہل بن گئیں۔ جنگ کی انٹلکچوئل مشینری نئے ٹوکیو کی ڈیمانڈ میں ڈھل گئی۔
ٹوکیو نے وہی کیا جو دماغ کرتے ہیں۔
دماغ اپنے آپ کو مسلسل ایڈجسٹ کرتا ہے اور اپنے چیلنج اور مقاصد کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے۔ اپنے ذرائع اور ضروریات کو میچ کرتا ہے۔ جو اس کے پاس نہیں، اس کو تراش کر بنا لیتا ہے۔
اگر آپ اچھے ٹائپسٹ ہیں تو اپنے لیپ ٹاپ پر لکھتے وقت سوچتے نہیں۔ انگلیاں خود ہی اپنی جگہ، منزل اور نتیجے تک پہنچ جاتی ہیں۔ اگر اس کو سوچیں تو یہ جادو لگے گا۔ دماغ کی ری وائرنگ اس معجزے کو ممکن بناتی ہے۔ تیزرفتار فیصلے اور ایکشن جو آٹومیٹ ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں برس کے ارتقا نے لکھی ہوئی تحریر نہیں بنا دی۔ اور کی بورڈ کی مہارت تو بالکل بھی نہیں لیکن دماغ کو اس سب میں ایڈجسٹ ہو کر ان کا فائدہ اٹھا لینے میں دشواری نہیں ہوتی۔
لیکن اگر آپ ٹائپسٹ نہیں تو لکھنے کے لئے ٹھیک جگہ پر انگلی کو حرکت دینا توجہ اور وقت لے گا اور یہ سست رفتار ہو گا۔ امیچور اور ماہر میں فرق یہ ہے کہ ماہر کو اپنا کام کرنے کے لئے سوچنا نہیں پڑتا۔ فٹ بال کے کھلاڑی کا فٹ ورک اور ٹھیک نشانہ باندھ کر گول پر کی گئی شاٹ پروفیشنل فٹبالر کے دماغ پر لکھی ہے۔ اور یہ کام وہ فٹبالر میرے مقابلے میں دماغ کی بہت کم توانائی کے خرچ سے کر لیتا ہے۔ اس نے اپنی اندرونی بائیولوجی کو بیرونی ماحول سے مطابق بنا لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ کا یہ تصور پلاسٹسٹی کہلاتا ہے۔ یہ اصطلاح ولیم جیمز نے بنائی تھی۔ پلاسٹک کی شے کو کسی بھی طرح ڈھال سکتے ہیں اور پھر وہ اپنی حالت برقرار رکھتی ہے۔ ہم اس سے کھلونے، فون اور پیالے بنا لیتے ہیں۔ لیکن دماغ کا پلاسٹک ہونا ایک غلط تاثر دیتا ہے۔ پلاسٹک کی شے کو اپنی شکل سے دوسری میں تبدیل کرنے کے لئے دوبارہ پگھلانا پڑتا ہے۔ اس سے ایسا تصور ابھرتا ہے گویا یہ ہمیشہ کے لئے ویسا ہی رہ جائے گا لیکن دماغ ایسا نہیں۔ یہ پوری زندگی بدلتا رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شہر کی ڈویلپمنٹ دیکھیں اور نوٹ کریں کہ یہ کیس بڑھتا، بدلتا اور ڈھلتا ہے۔ کہیں پر ٹرک کا اڈہ آ جاتا ہے، کبھی نیا قانون منظور ہو جاتا ہے۔ شہر ہمیشہ تبدیلی کی حالت میں ہے۔ اس کو ایک مرتبہ ڈھال کر اپنی جگہ پر جامد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مسلسل ڈویلپ ہو رہا ہے۔
شہروں کی طرح ہی، دماغ کی تبدیلی کا کوئی نقطہ اختتام نہیں۔ کبھی اپنی کوئی پرانی ڈائری پڑھیں کہ چند سال پہلے اس پر کیا لکھا تھا۔ یہ ایک ایسے شخص کی سوچ، رائے اور نکتہ نظر تھا جو آپ کی موجودہ حالت سے مختلف ہے۔ اور کئی بار اتنا زیادہ مختلف کہ آپ کو لگے گا کہ وہ شخص کوئی اور تھا۔ نام اور زندگی کی تاریخ تو وہی تھی لیکن اس لکھائی اور اس کے پڑھے جانے کے درمیان بہت کچھ بدل چکا تھا۔
پلاسٹک کا لفظ اس کی عکاسی نہیں کرتا۔ کمپیوٹر میں ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر کی تقسیم کی طرح اس کو تصور کرنا بالکل ہی غلط ہے۔ اس متحرک، ڈھل جانے والی، انفارمیشن کی تلاش میں ڈائنامک سسٹم کے لئے مناسب لفظ شاید livewired ہو گا۔ یہ بہتا ہوا سسٹم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال یہ کہ اس تبدیلی کے اصول کیا ہیں؟ دماغ کی پلاسٹسٹی کے تصور پر لکھنے جانے والے سائنسی پیپرز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ لیکن آج بھی جب ہم اس کو دیکھتے ہیں تو کوئی بھی overarching framework ایسا نہیں جو ہمیں اس بارے میں کوئی سراغ دے سکے کہ دماغ جو کرتا ہے، وہ کیوں اور کیسے کرتا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی کسی بھی طرح وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ اس کے کئی حصوں کے بارے میں ہمارا نالج اتنا ہے کہ ہم اس کو ہیک کر سکتے ہیں۔ یہ ہمیں اس بارے میں بہتر سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ ہم کون ہیں۔
اور ایک بار خود اپنے بارے میں اپنی سوچ کو ہم زندہ وائرنگ والے سسٹم کئے طور پر دیکھنا شروع کر دیں تو ہارڈوائرڈ مشین والے تمام ماڈل بہت ہی ناقص لگنے لگتے ہیں۔ روایتی انجینیرنگ میں ہر شے احتیاط سے ڈیزائن کی جاتی ہے۔ ایک گاڑی کی کمپنی کو کئی مہینوں میں چیسز ڈیزائن کرنا پڑتا ہے کہ اس میں انجن فٹ ہو سکے۔ لیکن جب آپ لائیو وائرنگ کے اصول سمجھ لیں تو پھر فطرت کی بائیولوجیکل مشینوں کے جینئیس ڈیزائن کو سراہنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ جاندار ایسی ڈیوائس ہیں جو خود اپنے آپ کو اپنی اِن پُٹ اور تجربے کی مدد سے بدلتے رہتے ہیں۔
زندگی کے بارے میں اصل تھِرل یہ نہیں کہ ہم کیا ہے بلکہ یہ کہ مستقبل میں کیا بنیں گے۔ اسی طرح، دماغ کا جادو اس کے عناصر میں نہیں بلکہ اس عمل کا ہے جس سے یہ مسلسل اپنے آپ کو بُن رہا ہے۔ یہ متحرک، برقی اور زندہ دستکاری کا شاہکار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہاں، پچھلے چند پیراگراف پڑھنے کے بعد آپ کا دماغ تبدیل ہو چکا ہے۔ کیونکہ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ لیکن خود اس عمل پر غور کرنا ہمارے اپنے بارے میں اہم بصیرت دے گا۔ محض سکرین پر بنے چند نقش و نگار تھے جنہوں نے کئی ملین چھوٹی چھوٹی سی تبدیلیاں نیورل کنکشنز کے درمیان میں کیں۔ تحریر پڑھنے سے پہلے آپ جو تھے، پڑھنے کے بعد وہ نہیں رہے۔ اس کو ممکن کرنے کے لئے صرف یہ نقش و نگار ہی نہیں بلکہ دماغ کی پچھلی حالت، جیسا کہ پڑھنے کی مہارت، الفاظ پر دی جانے والی توجہ، اپنے پچھلا علم اور پچھلے خیالات بھی اس عمل میں ان پٹ تھے۔ اس لئے ان نقش و نگار کا اثر ہر ایک پر ایک جیسا نہیں۔
ہم بیرونی دنیا کو ہر وقت جذب کرتے رہتے ہیں لیکن اس کا تعلق ایک پورے تناظر سے ہے اور اس لئے یہ ہر ایک کے لئے منفرد ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply