جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات(5)۔۔نذر حافی

دمِ تحریر قلم سے لہو رِس رہا ہے۔ تہران میں ایک سائنسدان کو شہید کر دیا گیا۔ یہ آج کے عہد میں علم کے پیکر پر جہالت کا ایک اور وار ہے۔ اسرائیل کی طرف سے ایرانی سائنسدانوں کے مخفیانہ قتل کا یہ سلسلہ 2010ء سے شروع ہے۔ جنوری 2010ء میں مسعود علی محمدی (ماہر طبیعیات) کو شہید کیا گیا، نومبر 2010ء میں دیگر دو سائنسدانوں ماجد شہریاری اور فریدون عباسی پر الگ الگ حملہ ہوا، شہریاری کو شہادت نصیب ہوئی اور فریدون عباسی شدید زخمی ہوئے، جولائی 2011ء میں داریوش رضائی نژاد کو شہید کیا گیا، جنوری 2012ء میں مصطفیٰ احمدی روشن کو شہید کیا گیا۔ اس حساب کتاب سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گذشتہ آٹھ سالوں کے بعد بطورِ سائنسدان محسن فخری زادے کو شہادت کا یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔

دنیا خاموش ہے اور عالمِ اسلام بے حِس، جہانِ اسلام نے اتنے بڑے علمی و سائنسی نقصان کو اپنا نقصان سمجھا ہی نہیں۔ اصلی مسئلہ یہ ہے کہ اسلحے کے بیوپاری کسی جنگ کو بھڑکانا چاہتے ہیں۔ سال 2020ء میں امریکہ نے ایک سال کے دوران 175 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔ پینٹا گون سے منسلک دفاعی و تعاون ایجنسی کی سربراہ ہیدی گرانٹ اور امریکی وزارت خارجہ کے سیاسی عسکری امور کے ذمے دار کلارک کوپر کے مطابق یہ فروخت گذشتہ برس کے مقابلے میں 2.8 فیصد زیادہ ہے۔ اب امریکی ادارے اپنے اس بزنس میں خسارہ تو نہیں چاہیں گے۔ اب دوسری طرف آئندہ برس 12 ممالک کو قحط لاحق ہونے کی رپورٹ ہے۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے خوراک سے متعلق ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام نے دی ہے۔ ادارے کے سربراہ ڈیوڈ بیس لے نے اعلان کیا ہے کہ آیندہ صحیح معنوں میں آفت زدہ سال ثابت ہوگا۔ انہوں نے یہ اعلان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منعقدہ کووڈ۔19 سربراہی اجلاس میں کیا ہے۔

اس سارے تناظر میں کورونا وائرس کی یلغار اپنی جگہ جاری ہے، اس حوالے سے رپورٹ یہ ہے کہ کورونا کی ویکسین دریافت ہونے کی صورت میں اتنی مہنگی ہوگی کہ عام انسان خرید ہی نہیں سکے گا۔ اس وقت لمحہ بہ لمحہ کورونا کے متاثرین کی رپورٹس دی جا رہی ہیں، لیکن سوال یہ بھی تو ہے کہ کشمیر، فلسطین اور یمن میں بھی تو انسان مر رہے ہیں، اُن کی رپورٹس کیوں جاری نہیں کی جاتیں؟ روزانہ عالمی برادری کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ آج اتنے مظلوم مسلمان ظلم و جبر کے باعث ٹارچر سیلوں میں دم توڑ گئے، کتنوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں پار کر دیا گیا، کتنے بھوک اور فاقوں سے مر گئے، کتنے پیلٹ گنوں سے ہمیشہ کیلئے معذور ہوگئے اور کتنے لاپتہ و زخمی ہوگئے۔

یہ دوغلا نظام اور دوہرا معیار آج ساری دنیا پر حاکم ہے۔ اس نظام کی وجہ سے صرف مسلمان ہی مجبور نہیں بلکہ دنیا کا ہر کمزور انسان شدید خطرات کی زد میں ہے۔ غریبوں کا لہو پی کر جن کے چہروں پر سرخی آتی ہے، سائنسدان شہید کرکے جنہیں سکون ملتا ہے، لوگوں کے گھروں پر قبضہ کرکے جو مالک بن جاتے ہیں، جو اپنا اسلحہ بیچنے کیلئے دوسرے ممالک کو کھنڈر بنا دیتے ہیں، اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی حقوق کے واویلے اور جمہوری طریقے کے ساتھ ہم ان سے کوئی اپنا مطالبہ منوا لیں گے تو یہ ہماری محض خوش فہمی ہی ہے۔ علامہ اقبال کے بقول
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
ایسے میں یہ بات پریشان کُن ہے کہ بہرحال ہم اپنے مسائل کے لئے مغرب کے جمہوری نظام سے ہی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ اس سے بھی بڑی پریشانی یہ ہے کہ مسلمان اب اسلام کے نام پر جمع ہونے کیلئے بھی تیار نہیں۔

جب مسلمان حکمرانوں کو عیش و نوش اور جام و سرود سب کچھ میسر ہے تو پھر وہ کس لئے جمع ہونگے۔ صرف ایک چیز باقی رہ گئی ہے، جو مسلمانوں کو جمع ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ ایک چیز عام مسلمان کا دکھ ہے۔ یہ اُس مسلمان کا دکھ ہے جسے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہر جگہ مارا جا رہا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جسے مار پڑ رہی ہے وہ عام، مجبور اور بے بس مسلمان ہے اور جو اس کا وکیل اور بھائی ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے، وہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ اب ایک اچھے بھلے خوش حال شخص کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ جائے اور کسی غریب اور لاچار انسان کی خاطر اپنی آسائشوں کو لات مارے۔ کشمیر سے لے کر فلسطین تک یہی مسئلہ ہے۔ جن کے پاس اقتدار ہے، انہیں مسائل میں الجھنے کی ضرورت نہیں اور جو دردمند ہیں، اُن کے پاس اختیار نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سپورٹ کشمیر انٹرنیشل فورم اور صدائے کشمیر فورم کے آنلائن سیشنز کا مقصد مظلوم انسانیت اور محکوم مسلمانوں سے ہمدردی کیلئے نئے زاویئے ڈھونڈنا ہے۔ گذشتہ سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نثار ہمدانی صاحب نے ایک بڑی اہم بات کی، انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو کشمیری تقسیم در تقسیم ہو رہے ہیں اور دوسری طرف کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کا اصلی فریق ہی نہیں سمجھا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے میں پیشرفت کیلئے خود کشمیریوں کو اس مسئلے میں ان کا جائز حق دیا جانا ضروری ہے۔ سیشن کے دوسرے مقرر ماہر تعلیم سید افتخار کاظمی صاحب تھے، انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی امید دلا کر پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم خود اپنی حالت کو نہیں بدلتے اس وقت تک ہم پر دباو ڈال کر کچھ بھی کروایا جا سکتا ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply