رخصت کرنا ہمارا 2016ء کو

ہم نے 2016ء کو رخصت کر دیا۔ ہمارا سر فخر سے بلند ہے۔ 2016ء کی آمد پر ہم نے بڑی گرمجوشی اور ولولہ انگیز طریقے سے استقبال کیا، جھنڈیاں لگائیں، مٹھائیاں تقسیم کیں، ایک دوسرے کو مبارکبادیں پیش کیں۔ آخر کو ہم اپنے وطن کے شہری ہیں۔ اپنے ملک میں کام کرنا اور محنتِ شاقہ سے روزی کمانا ہمارا فرضِ اولین ہے۔ ہم نے سال کے 365 دن گزارے۔ وہ ایک ایک دن اگلی نسلوں کو بھی یاد رہے گا۔ ہم نے بڑی جانفشانی اور محنت سے روزی کمانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے بڑے کٹھن راستوں پر چلنا پڑا۔ ہم نے بہت سے لوگوں کے پیٹ کاٹے، جیبیں تراشیں، دشمنیاں مول لیں، لوٹ مار اور چور بازاری میں نام پیدا کیا۔ ہم نے ظلم و ستم کی جڑیں مضبوط کیں۔ دوسروں کے حقوق پامال کرنے کے لیے ہم نے جھوٹ اور فراڈ کا سہارا لیا۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ہم نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ ہم نے لبرل مارے جو ہمیں انسان کی قدر کا درس دے کر شاہراہِ انسانیت پر چلانے کے جتن کر رہے تھے، اور ہم نے علما کو قتل کیا کیونکہ وہ ہمیں ایمان و اسلام کا درس دے کر ہمیں گمراہ کر رہے تھے۔
مال کمانا اور معاشرے میں اپنا نام پیدا کرنا اتنا آسان نہیں۔ ہم نے اس راہ پہ چلنے کے لیے قربانیاں دیں۔ اپنے ایمان اور ضمیر تک کا سودا کر ڈالا۔ مگر کسی حق دار کو اس کے حق کے قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ ہم نے کمزور لوگوں کا گلہ دبا ڈالا اور شریف لوگوں کے گرد زندگی کا گھیرا تنگ کر دیا۔ لوگوں کی جان و مال و عزتیں ہم سے محفوظ نہ رہیں۔
ہم اس ملک کے ذہین ترین لوگ ہیں۔ ہم ناقص مال کو مہنگے داموں بیچ لیتے ہیں۔ سستی اور گھٹیا چیزوں کو اپنی چرب زبانی سے اعلیٰ کوالٹی کی ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ہم مال کے ساتھ ایمان بھی فروخت کرتے ہیں۔
ہم نے اشیائے خور و نوش میں اتنی ملاوٹ کی کہ خالص چیزیں مارکیٹ میں ناپید ہوگئیں۔ دودھ میں ملاوٹ کرکے اس کو وافر مقدار میں مہیا کیا۔ بھینسیں دودھ کم دیں یا زیادہ،گوالے کی ہمت ہے کہ وہ گاہک کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ پھر بھی اس ملک کے ناشکرے لوگ شکوہ کرنے سے باز نہیں آتے۔
جس کی جتنی استطاعت تھی اس نے اپنے اعمال کو دل مضبوط کرکے داغدار کیا۔
کسی میڈیکل سٹور سے خالص دوا کی امید نہیں رکھی جاتی، سرکاری ہسپتالوں سے غریب مریضوں کو دوا نہیں ملتی کیونکہ وہ سٹورز کو سپلائی ہوچکی ہوتی ہے۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز ڈیوٹی پر دو دو گھنٹے لیٹ پہنچتے ہیں اور پرائیویٹ کلینک پر وقت پہ پہنچنے کے لیے دو گھنٹے پہلے ہی ہسپتالوں سے تشریف لے جاتے ہیں۔ سارا دن لائن میں لگے مریض، دو بجے اپنی بیماری میں مزید اضافہ کرکے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ وہی مریض جن کی ہسپتال میں کوئی شنوائی نہیں ہوتی، پرائیویٹ کلینک پہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ انھیں بڑی عزت و احترام سے بٹھایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبان اخلاق کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں۔ مریض کا تفصیلی معائنہ کرتے ہیں۔ اگر ٹانگ میں درد ہے تو ہاتھ، پاؤں ، ناک، کان، گلہ، معدہ، جگر، دل، جگر، گردے، کے تمام مہنگے ٹسٹ کروا کر ان میں بھی اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں۔ اور مہنگی مہنگی دوائیاں لکھ کر غریب عوام کو فاقہ زدہ ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
اب رہا حال سرکاری و غیر سرکاری دفاتر کا، جہاں رشوت اور سود کو فروغ مل رہا ہے۔ ہم نے دفاتر میں کام کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا۔ اپنے نااہل بچوں کو اچھے عہدوں پر فائز کروایا، اعلیٰ قابلیت رکھنے والے بچوں کو ان کےحق سے محروم کر دیا۔ اپنی ان تدابیر سے ہم نے آنے والی نسلوں کو مستفید کیا۔
پھر ذکر ہو کچھ سیاستدانوں کا، جنھوں نے عوام کا پیسہ عوام پر خرچ نہیں ہونے دیا۔ بڑی بڑی گاڑیاں، اونچی شاندار عمارتیں، پلاٹ، زمینیں، دکانیں کیا کچھ نہیں بنا ڈالا۔ لہٰذا جو سیاست میں سیٹ جیت گیا، گویا اس کی لاٹری نکل آئی۔ حکمران طبقہ اینے تئیں ملک کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے اور فکرمند رہتا ہے کہ اگر اقتدار چھن گیا تو ان کی اگلی نسلوں کا کیا ہوگا۔ ہر کوئی اپنے دور میں مال سمیٹنے کی فکر میں رہتا ہے اور اندرون و بیرونِ ملک محلات تعمیر ہوجاتے ہیں۔ اور حفظِ ماتقدم کے طور پر سوئس بینکوں کا بھی بھلا کیا جاتا ہے۔
ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ گو ہم اَن ٹرینڈ ہیں، مگر پھر بھی جو چیز بھی ہمارے ہتھے چڑھی، ہم نے بڑی چابکدستی سے اسےزیادہ اپنے پیٹ کا ایندھن بنا لیا۔ ہم تو باہر مقیم پاکستانیوں کے پلاٹس اور زمینوں پر بھی قابض ہونا چاہ رہے تھے۔ لیکن غیر مسلم حکومتوں نے ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرکے ہمیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہونے دی۔ ہمیں اہلِ مغرب کی دیانتداری بالکل پسند نہیں۔ ہم ان کےسے اچھے شعائر سے سخت خائف رہے۔ ہم نے اگر تقلید کی تو بے راہ روی کی، بے جا آزادی کی، تاکہ ہمارا شمار اونچی سوسائٹی میں ہو۔
ابھی ہمارے بہت سے کام ہیں جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ مٹھی بھر مسلمان جو پرہیزگار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جوہم قلیل تنخواہ میں صبر شکر سے گزارہ کرتے ہیں، اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور جنھوں نے اپنے ماتھے سجدوں میں کالے کیے ہوئے ہیں، یہ مٹھی بھر مسلمان ہمارے عزائم کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیتے۔ انھوں نے ہمارا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ پتہ نہیں ان کے اندر اتنی طاقت کہاں سے آ جاتی ہے۔ آخر کو ہم بھی مسلمان ہیں، کلمہ پڑھتے ہیں، لیکن ان کو بہت گھمنڈ ہے۔ مگر ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ ہم ان سے بھی نبٹ لیں گے، ابلیس نے ہم سے دوستی نبھانے کا وعدہ جو کر رکھا ہے۔
ہم نے 2016ء کو اپنے ان شاندار کارناموں کے ساتھ رخصت کیا۔ چونکہ ہمارے کرتوتوں میں تبدیلی نہیں آئی اس لیے ہم 2017ء میں بھی اپنی اسی ڈگر پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

Facebook Comments

نسرین چیمہ
سوچیں بہت ہیں مگر قلم سے آشتی اتنی بھی نہیں، میں کیا ہوں کیا پہچان ہے میری، آگہی اتنی بھی نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply