غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔12)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یک الف بیش نہیں صیقل ، آئینہ، ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا

طالبعلم ایک
یک الف بیش نہیں؟ کیا ہے الف کا مطلب؟

طالبعلم دو
ہے کوئی رمز یہ آئینے کو چمکانے کی ؟
یا فقیروں کے ہے ماتھے پہ الف جیسی لکیر؟

استاد ستیہ پال آنند
جی ہاں، یہ رمز ہے آئینے کو چمکانے کی
مرزا غالب تو ہیں مقروض نظیری ؔ کے یہاں
جوہر ِِ ِ بینش ِ ِمن در تہ ِ زنگار بماند
آں کہ آئینہ ء من ساخت نہ پرداخت دریغ ”
یہ ہے فرمان نظیری کا خود اپنے حق میں

طالبعلم دو
ترجمہ اس کا ذرا کیجیے تو ، بند ہ نواز

استاد ستیہ پال آنند
ترجمہ اس کا تو مشکل نہیں، لِکھ لو تم بھی
“قابل ِ دید مر ا جوہر ِ بینش تھا ،مگر
تہہ میں زنگار کی مخفی رہا، وائے افسوس”

طالبعلم ایک
گویا یہ سرقہ نظیریؔ سے ہےکھلمـ کھُلـا؟

استاد ستیہ پال آنند
ہم اسے سرقہ نہیں کہتے، عزیزی ، سمجھو
کوئی بھی قول نیا ہے ہی نہیں دنیا میں
عین ممکن ہے کہ نظیریـؔ بھی ہو یابندہ یہاں

طالبعلم دو
گویا غالب ؔہی ہے وہ آئینہ جس کی تہہ میں
دیکھنے والوں کو زنگار نظر آتا ہے
اور غالبؔ میاں کہتے ہیں یہ انصاف نہیں

طالبعلم ایک
کیسا یہ فعل ہے، آئینے کو صیقل کرنا ؟

استاد ستیہ پال آنند
سمجھو یہ بات کہ آئینہ تو فولاد کا ہے
(لوگ کہتے ہیں کہ سکندر نے کیا تھا ایجاد)
اور فولاد کے آئینے کو صیقل کرنا
کتنا مشکل ہے، میاں، کیسی جگر کاوی ہے
پہلے تو ایک چمک اٹھتی ہے ہلکی سی لکیر
اور پھر بعد میں زنگار گھسا جاتا ہے

طالبعلم دو
آدمی گویا ہے فولاد کا اک آئینہ
عین شفاف ہو تو اس کی چمک اصلی ہے
اور صیقل میں اگر کچھ بھی کمی رہ یائے
دیکھنے والوں کو زنگار نظر آئے گا

طالبعلم ایک
اب یہ حالت ہے مری ، کہتا ہے بے بس شاعر
صیقل ِ آئینہ اک طرز جنوں جیسی ہے
اور یہ طرز ِ جنوں خام ہے میری اب تک
“چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا ”

طالبعلم دو
اور کیا کچھ ہیں معانی جو ابھی مخفی ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

استاد ستیہ پال آنند
آئینہ اندھا ہو تو عکس دکھائی ہی نہ دے
بال آئینے میں آ جائے اگر، تو بھی غلط
دیکھنے والوں کو دو لخت نظر آئے گا
اور آئینہ ء باطن بھی ہے ایسی تمثال
جس سے ہوتی ہے عیاں صاف دلی، سچائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضروری نوٹ
سن 1866 عیسوی میں مرذا غالب نے اپنے شاگرد پیاے لال آشوبؔ کے نام اپنے ایک مکتوب میں اس شعر کی یہ تفسیر پیش کی۔
“پہلے یہ سمجھنا چاہیے  کہ آئینہ عبارت فولاد کے آئینہ سے ہے، ورنہ حلبی آئینوں میں جوہر کہاں اور ان کو صیقل کون کرتا ہے؟ فولاد کی جس چیز کو صیقل کرو گے، بے شبہ ایک لکیر پڑے گی۔ اس کو “الف صیقل” کہتے ہیں۔ جب یہ مقدمہ معلوم ہو تو اب اس مفہوم کو سمجھیے۔
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا۔۔
یعنی ابتدائے سن ِ تمیز سے مشق جنوں ہے۔ اب تک کمال فن نہیں حاصل ہوا۔ آئینہ تمام صاف نہیں ہو گیا۔ بس وہی ایک لکیر صیقل کی جو ہے ، سو ہے۔چاک کی صورت الف کی سی ہوتی ہے اور چاک جیب، آثار جنوں میں سے ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply