طارق عزیز کی یاد میں۔۔محبوب الہیٰ تنولی

یہ 2005 کی بات ہے تب میں یونیورسٹی میں انجینئرنگ پڑھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ جاب بھی کرتا تھا۔

انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے سامنے سے بس گزرتی تھی جس کا نمبر 15A ہوتا تھا اور یہ بس تقریباََ پورا ایک گھنٹہ لگا کر ائیرپورٹ پہنچاتی تھی۔
اس بس کو پکڑنے کیلئے تقریباََ گھنٹہ پہلے تیار ہو کر نکل کر سٹاپ پر آنا پڑتا تھا۔

یونیوسٹی کی کلاسز اور دیگر ضرورتوں کی وجہ سے وقت کی بہت اہمیت تھی اور میرے بس کے سفر میں آنے جانے میں تین سے چار گھنٹے لگ جاتے تھے۔

اس کے ساتھ تدریس کے سلسلے میں بھی شام کو اکیڈمیز جانا پڑتا تو بسوں اور چنگچی کے سفر کافی اذیت ناک ہو جاتے۔
ایسے میں ایک کمیٹی ڈال لی میں نے کہ نکلے گی تو بائیک لے لوں گا۔
اسی دوران میرے ایک محترم کولیگ جناب لطیف صاحب المعروف پا  جی میرے ساتھ شفٹ میں آگئے اور لاہور صدر گول چکر اپنے گھر کے پاس سے مجھے لفٹ دے دیتے مگر گول چکر تک پہنچنے کیلئے مجھے دو دفعہ رکشہ  بدلنا پڑتا تھا۔
پا  لطیف کی ایک پڑوسن تھیں جن سے ان کی یاد ﷲ تھی ۔ محترمہ PTV لاہور کی سکیوریٹی سپروائزر تھیں۔
کسی خوبصورت لمحوں میں انہوں نے پا  لطیف کو طارق عزیز شو کے دو ٹکٹ دیے اور کہا کہ ضرور آنا۔

پا نے مجھ سے ذکر کیا ” منڈیا اج بی بی نوں ترس آ ہی گیا اے،پڑیں کول شو دے دو ٹکٹ نے جے کوئی کڑی شڑی ہے تاں نال لے جا تے جا کے ویکھ لے”۔

میں نے عرض کی ” پا  جی لڑکی شڑکی کا کوئی چکر نہیں ایسا کرتے ہیں ہم دونوں چلتے ہیں آپ کی بائیک پر۔”
پا  جی راضی ہو گئے۔

5 اپریل دو 2005 کی بات ہے, منگل کا دن تھا تو پا  نے مجھے یونیورسٹی سے پک کیا۔ پا  ہیلمٹ کی پابندی کرتے تھے مگر اس کا شیشہ ڈھیلا تھا جو کہ خود سے نیچے آ جاتا تھا۔ وہ سارا راستہ ایک ہاتھ سے شیشہ اوپر نیچے کرتے رہے اور دوسرے ہاتھ سے بائیک چلاتے ہم الحمرا آرٹس کونسل مال روڈ پہنچ گئے۔
میں بہت زیادہ پرجوش اور خوش تھا کہ بچپن کی ایک خواہش پوری ہو رہی تھی۔ 90 کی دہائی میں جب بھی نیلام گھر دیکھتے تو ایک خواہش ہوتی کہ اس میں شرکت کیسے ہو اور آج وہ خواہش حقیقت کا روپ دھار رہی تھی۔
وہاں بہت لمبی قطار تھی ایک طرف مردوں کی اور ایک طرف عورتوں کی۔ گارڈز اور ملازم کارڈ چیک کر کے اندر بھیج رہے تھے۔

ہم داخل ہوئے تو تقریباََ درمیان والی قطاروں میں دو کرسیاں خالی مل گئیں اور ہم بیٹھ گئے۔
آہستہ آہستہ حال سارا بھر گیا ۔ تمام لوگ خصوصا ً نوجوان طبقہ بہت اونچی آواز میں بول رہے تھے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ ہال کھچا کھچ بھر گیا

ایسے میں پردہ ہٹا اور طارق عزیز صاحب کی دو بیبیوں کے ساتھ آمد ہوئی ۔ شوروغل اور سیٹیاں مزید بڑھ گئیں۔

جیسے ہی ” ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے ” کی آواز سپیکرز پر آئی پورے ہال کو سانپ سونگھ گیا
وہ صرف اپنی آواز کے رعب سے اتنے بڑے مجمع کو کنٹرول کر رہے تھے۔

پروگرام کا آغاز ہوا اور جنرل پبلک سے سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔
طارق صاحب سوال پوچھتے اور دوڑتے ہوئے اوپر سامعین کی طرف جا کر جواب لیتے۔ ستر سال تو تب بھی عمر تھی ان کی مگر ایک انرجی تھی جو نظر آتی تھی اگرچہ ہاتھوں میں رعشہ بھی تھا مگر مجال ہے جو پروگرام کبھی ہاتھ سے نکلنے دیا ہو۔

انہوں نے ایک سوال پوچھا کہ دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک بلحاظ رقبہ کون سا ہے۔
پاہ لطیف نے میری طرف دیکھا تو میں نے ان کو بتایا ” قازقستان”
یہ سننا تھا کہ پاہ جی دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر سیٹ پر کھڑے ہو گئے اور اچھلنا شروع ہو گئے۔
طارق عزیز نے ان کو دور سے دیکھا تو سیدھا ان کی طرف آئے کہ دیکھنے میں یہ پروفیسر لگتے ہیں۔
مائیک پاہ کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا “کاجشتان”
طارق عزیز کو سمجھ نہیں آئی ” دوبارہ بتائیے گا”
پاہ پھر بولے ” کاکجستان”
طارق سمجھ گئے کہ بندہ قازقستان کہنا چاہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا “جواب درست ہوا۔ ۔ آگے تشریف لے جائیں”
اب ہوا یہ کہ پاہ جی بھول گئے کہ جواب کیا تھا۔ ۔وہ پہلے نیچے جھکے اور مجھ سے پوچھا کہ دوبارہ بتاؤ کیا نام تھا
میں نے توڑ کر کے بتایا کہ قازق۔ ۔ ستان۔ ۔ وسط ایشیا۔
پاہ آگے سٹیج پر گئے تو ریکارڈنگ کیلئے ان سمیت سب سے دوبارہ وہی سوال پوچھے گئے ۔ پاہ کو کیش انعام اور کتاب ملی۔
وہ واپس پسینوں پسینے ہوئے سیٹ پر پہنچے اور کہا کہ منڈیا سارا وقت میں قازقستان یاد ہی کرتا رہا۔
کیش کا لفافہ کھول کر دیکھا تو تین سو روپے دیکھ کر پاہ جی کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ آ گئی ” چلو بچیاں لئی ادونا لبھ گیا جے”
پاہ نے ایک نظر کتاب کو دیکھا اور کہا ” منڈیا انوں تو ہی رکھ ایہہ ساہڈے کم دی نہیں”
وہ کتاب میں نے لے لی۔ وہ طارق عزیز کی پنجابی شاعری کی کتاب تھی ” ہمزاد دا دکھ”

بہرحال پروگرام چلتا رہا تو طارق عزیز نے Metro کی موٹر سائیکل کے مقابلے کا اعلان کیا اور کہا کہ ایک سوالات کا پرچہ حل کرنا پڑے گا جس میں کامیاب ہونے والے کو سٹیج پر مقابلے کیلئے بلایا جائے گا۔

اس وقت ایک موٹر سائیکل کیلئے چار مقابلے ہوتے تھے تب جا کر بندہ جیتتا تھا۔ آج کل کی طرح نہیں کہ ناچ کر دکھاؤ تو بائیک ملے گی اور پھر چھچھور پن کی انتہا کرتے ہوئے بیبیوں کو پیچھے بٹھا کر سٹیج پر گھومنیاں بھی لگاؤ۔

تقریباََ تیس کے قریب لوگ پرچہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے جن میں سے طارق عزیز صاحب نے پندرہ بندے بلا لیے جن میں راقم بھی شامل تھا۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی کہ پرچہ حل کرنے کے بعد آگے جانا پڑے گا۔ یہ ایک انسانی ادراک کی ایک قسم سی ہوتی ہے۔

پرچہ سامنے آیا تو اس میں پندرہ سوال تھے۔ مجھے آسان لگے ، آتے تھے سوائے ایک کے۔
ایک سوال مجھے یاد ہے کہ ” ایشیا کی مرچوں کی سب سے بڑی منڈی کہاں لگتی ہے”
یونیورسٹی میں میرے ایک مسکین سے کلاس فیلو ابرار کا نزول سندھ سے ہوا تھا جو کہ آج کل برطانیہ میں گوروں کے شجرہ نسب میں ضروری ردو بدل فرماتا ہے ۔اس نے مجھے بتایا کہ میرے گوٹھ کنری میرپور خاص میں مرچوں کی بہت بڑی منڈی لگتی ہے۔
یوں میں نے جواب میں کنری سندھ لکھ دیا۔ جنرل نالج انسان کے مطالعے یاداشت اور مشاہدے پر منحصر ہوتا ہے۔ نوجوانوں اور بچوں کو اس طرح سے ملنے والی معلومات ذہن میں رکھنی چاہئیں۔

بہرحال کچھ دیر بعد طارق عزیز نے دو بندوں کا نام پکارا کہ سٹیج پر آ جائیں۔ ان میں ایک میں تھا اور دوسری کوئی انگلش کی لیکچرر خاتون تھیں
مقابلہ شروع ہوا اور ہم دونوں سے پانچ پانچ سوال کیے گئے۔
ہم دونوں کے تین تین جوابات درست ہوئے اور ٹائی پڑ گئی۔
طارق عزیز صاحب نے ہمارے نام کی پرچیاں لکھیں اور سامنے سے ایک بہت پیاری گڑیا نما بچی کو بلایا کہ کوئی ایک اٹھا لیں۔
بچی نے جو پرچی اٹھائی اس میں میرا نام تھا۔ یوں یہ مقابلہ میں جیت گیا اور ” ہمزاد دا دکھ” ایک بار پھر مجھے مل گئی ۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ قسمت کی دیوی بھی معنی رکھتی ہے۔
یہ پروگرام اگلے ہفتے آن ائیر ہونا تھا۔
مجھے بتایا گیا کہ دو ہفتے بعد پھر آپ کا کوارٹر فائنل ہے۔مجھے اجازت دی گئی کہ ساتھ دوستوں کو لا سکتے ہیں۔
یہ میرے لیے بہت خوشی کے لمحات تھے۔ میں نے سب سے پہلے فون کر کے ابو کو بتایا پھر دیگر گھر والوں کو۔
واپس پاہ لطیف کے پاس آیا تو انہوں نے کہا
” منڈیا باقی تاں سب ٹھیک اے اتنے پسینے کیہڑی بی بی نو ویکھ کے آئے نے”؟

اگلے پروگرام میں میرے کزن کلیم اقبال بھائی اور دوست رفیع آفریدی, شیخ سرفراز آفندی اور ابڑو سائیں بھی ساتھ تھے ۔ پاہ لطیف تو یقیناََ روح رواں تھے۔

یہ مقابلہ بھی میں جیت گیا اور پاہ جی پھر ایک سوال کا جواب دے کر تین سو روپے اور “ہمزاد دا دکھ” جیت کر آئے۔ بلکہ اس کے بعد ٹیلی وژن اور ریڈیو پر جس پروگرام میں بھی شرکت کی پاہ جی کو ہمیشہ کیش انعام لازمی ملا۔ پاہ جی کی ایک خصوصی  بیٹی  ہے وہ پروگرام پر جانے سے پہلے پوچھتے کہ آج کیا لاؤں آپ کیلئے تو وہ فرمائش کرتی تھی یوں اس معصوم کی فرمائش اور دعا کی بدولت ہم جیتتے رہے۔

پھر 31 مئی 2005 کو میرا فائنل مقابلہ تھا۔ دفتر سے کولیگز کے علاوہ اساتذہ کرام اور میرے دوستوں نے بھی شرکت کی۔ ان سب کی موجودگی میں تھوڑا سا کنفیوز ہو گیا اور ﷲ سے صرف یہ دعا کی یا ﷲ عزت رکھنا۔

فائنل میں میرے مد مقابل کیمسٹری کے استاد تھے اور اتفاق سے وہ میرے دوستوں کے بیچ ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہیں دوستوں کو جب معلوم پڑا کہ یہ میرے مدمقابل ہو سکتے ہیں تو دوست میری بڑھا چڑھا کر تقریباََ جھوٹی تعریفیں کرتے رہے کہ محبوب کو شکست دینا ناممکن ہے۔ یوں میرے دوستوں کی شرارت سے وہ ٹیچر بےچارے پہلے ہی demoralize ہو گئے۔

ہمارا مقابلہ ہوا اور آٹھ آٹھ سوال پوچھے جانے تھے مگر آخری سوال سے پہلے ہی فیصلہ ہو گیا اور میں جیت گیا۔ ویسے بھی میری قسمت کہ میرے حصے میں آسان سوال آئے اور مخالف کو کچھ مشکل۔

بہرحال مجھے موٹر سائیکل کی چابی دے دی گئی اور بعد میں لے بھی لی گئی کہ بائیک آپ کو کمپنی آفس سے ملے گی۔

کمپنی آفس سے مجھے موٹر سائیکل کچھ دنوں بعد مل گئی اور میرے کولیگ نقوی صاحب اس کو چلا کر مجھے پیچھے بٹھا کر والٹن لے گئے کیونکہ مجھے بائیک چلانی نہیں آتی تھی۔ ہاں راستے میں نقوی صاحب اور میں نے موٹر سائیکل کی خوشی میں دنبہ ضرور پھاڑا۔

والٹن ایئر پورٹ کے رن وے پر میں نے بائک چلانی سیکھی اور اس میں چودھری ﷲ رکھا میرے استاد تھے یہ اور بات ہے کہ خود ان کو بھی ٹھیک چلانی نہیں آتی۔

موٹر سائیکل کی رجسٹریشن پر صرف میرا دو ہزار خرچہ آیا۔
پورے یونیورسٹی کے دور میں جتنا مستفید موٹر سائیکل سے میں ہوا اتنے ہی یار دوست بھی ہوئے۔ ہاسٹل میں ایک سال بائیک اپنے کاشف بھائی کے پاس چھوڑ کر میں کہیں غائب ہوا۔ جاتے ہوئے ان کو گزارش کی کہ اپنا سمجھ کر استعمال کرنا جب سال بعد واپس آیا تو اس کی حالت ایسی تھی جیسے یاروں نے طوائف سمجھ کر استعمال کیا ہو بلکہ بلتکار کیا ہو۔ انجن اور ٹائر جام تھے۔اوپر نسوار کی گولیاں پڑی تھیں اور جگہ جگہ تھوک کے نشان بھی تھے۔ اس کو گدھا گاڑی پر مکینک کے پاس لے کر گیا اور نیا انجن ٹائر بنوائے۔ وہ بائیک آج بھی بہترین حالت میں میرے پاس موجود ہے۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب ٹائم کی بچت کیلئے مجھے بائیک کی اشد ضرورت تھی تو محترم طارق عزیز صاحب کے ہاتھوں ﷲ نے میری مشکل آساں کر دی۔

اس کے بعد بھی اکثر ان کے پروگرام میں جانا ہوا اور ان کی شخصیت کا رعب مجھ پر طاری رہا۔ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی بات کی۔ ان کے پروگرام میں چاروں صوبوں گلگت اور کشمیر تک سے لوگ شرکت کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری خواہش تھی کہ کار کے مقابلے میں شرکت کروں مگر ایک بار جیتے ہوئے بندے کو وہ دوبارہ دو سال تک چانس نہیں دیتے تھے۔
سنا تھا کہ انہوں نے کہا تھا کہ چونکہ میری کوئی اولاد نہیں تو مرنے کے بعد میری جائیداد ریاست پاکستان کے نام ہو گی۔
آج وہ چراغ گل ہو گیا۔ ایک ستارہ تھا جو ڈوب گیا۔ ایک ایک کر کے روشن ستارے ڈوبتے جا رہے۔ میرا تعلق اس نسل سے ہے جنہوں نے کئی نسلوں کا امتزاج دیکھا ہے۔
لاہور گیا تو سوچا تھا اشفاق احمد سے ملوں گا مگر ان کا انتقال ہو گیا
” اداس نسلیں” پڑھا تو سوچا اس کے لکھاری عبدﷲ حسین سے ملوں گا مگر خواہش ادھوری رہی۔
اﷲ ان سب ادبی ستاروں کو جوار رحمت میں جگہ دے۔
دعا ہے کہ رب مستنصر حسین تارڑ کو لمبی حیاتی دے
سنا ہے کشور ناہید بیمار ہیں اﷲ ان کو شفا دے۔

Facebook Comments