• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا ہندوستان واقعی میں ”ہندو راشٹر“ بنتا جارہا ہے؟۔۔اشرف لون

کیا ہندوستان واقعی میں ”ہندو راشٹر“ بنتا جارہا ہے؟۔۔اشرف لون

میں نے اپنے پچھلے کئی مضامین میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ کس طرح  ہندوستان میں اقلیتوں کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے اور ان پر موجودہ دائیں بازو کے  دورِ  حکومت میں مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ کس طرح دلتوں و مسلمانوں کو دن دیہاڑے راستوں، کھیتوں، گاڑیوں میں اور گھروں میں گھس کر مارا جارہا ہے، قتل کیا جارہا ہے۔ اُن سے دیش بھگتی  کے ثبوت مانگے جارہے ہیں۔ ڈرایا، دھمکایا جارہا ہے۔ اوردیش بھگتی کے ثبوت وہ مانگ رہے ہیں جن کی خود کی دیش بھگتی ایک زمانے میں مشکوک تھی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے دوسری بار الیکشن جیتنے اور حکومت میں آنے کے بعد ہندوستان کے سیاسی و سماجی حالات میں مزید ابتری آئی ہے۔ اور اب یہ پارٹی کھلے عام بنا کسی مزاحمت کے بھارتی پارلیمنٹ کے اندر قوانین پاس کررہی ہے ۔ کہیں پر یہ بڑے بیوپاریوں اور تاجروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے پارلیمنٹ میں بل  لا رہی ہے  اور کبھی یہ پارٹی مسلمانوں سے   ان کی شہریت چھیننے کے لیے قوانین پاس کررہی ہے ۔ اور آج اس پارٹی کوپارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے۔کیونکہ دونوں ایوانوں میں اس پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔ دونوں ایوانوں میں یہ من مانی اور زور زبردستی سے بل  لارہے  ہیں اور کالے قوانین پاس کر ر ہے  ہیں۔

دوسری بار حکومت کی کمان سنبھالتے ہی اس پارٹی نے پچھلے سال 4 اور 5 اگست کی درمیانی رات  کشمیر کو پوری طرح جیل خانے میں تبدیل کیا اور اگلے روز اس کی نیم خودمختاری کو بنا کسی مزاحمت کے پارلیمنٹ میں ختم کرنے کا اعلان کیا ،جو ہندوستان کی نام نہاد جمہوریت کے دیوالیہ ہونے کی طرف پہلا بڑا اشارہ تھا۔ ایک ریاست کو فوجی محاصرے یا جسے ہم کریک ڈاؤن بھی کہہ سکتے ہیں، میں لیا جاتا ہے اور پھر وہاں کے سیاستدانوں بشمول بھارتی سیاستدانوں کو جیل خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بچوں و بزرگوں کو دور کسی ریاست کی جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ پھربھارتی میڈیا نے بڑی بے شرمی سے اس کا جشن منایا۔ یہ کریک ڈاؤن تقریباً  6 مہینے تک رہا،انٹرنیٹ  چھ مہینے بعد بحال ہوا لیکن وہ بھی ادھورا،2جی کی صورت میں۔ انٹرنیٹ کی یہ صورتحال  آج ڈیڑھ سال گزر جانے کے بعد بھی 2جی  کی   صوت میں ہی موجودہے، جو دراصل نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان پابندیوں، بندشوں اور محاصروں کے بیچ عوام  کو کن اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا وہ بیان سے باہر ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ دیر رہنے والا ”لاک ڈاؤن“ اور انٹرنیٹ پابندی تھی۔

اس سال کی ابتدا میں کورونا وبا کے چلتے  ہی اس لاک ڈاؤن کو مزید آگے بڑھایا گیا اور اور پورے ہندوستان میں لاک ڈاؤن کیا گیا۔ اس اچانک اور فوری لاک ڈاؤن کے پیچھے بی جے پی کی وہ سیاست کارفرما تھی جس کے تحت وہ یہاں کے مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے اور مزید کچھ قوانین پاس کرنے کی تاک میں تھی۔ لاک ڈاؤن سے کچھ ہی مہینے پہلے بھارتی حکومت نے ایک ایسا قانون پاس کیا جس کے تحت یہاں کے مسلمان کو یہ باور کروایا گیا کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ اس قانون کی بڑی مخالفت ہوئی، لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ الٹا بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے مسلمانوں کے خلاف کچھ بھڑکیلے بیان دیے، سماج میں نفرت کا زہر پھیلایا گیا اور یوں چند ہی ہفتوں میں شمال مشرق دہلی میں فسادات بھڑک اٹھے جس میں پچاس کے قریب لوگ مارے گئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ان فسادات کے بیچ میں کچھ مسجدوں کو نذر آتش بھی کیا گیا۔ اس دوران  دہلی کی دو بڑی اور عالمی شہرت یا فتہ یونیورسٹیوں، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامع ملیہ یونیورسٹی میں مسلمان بشمول کشمیری طلاب پر حملہ کیا گیا جس میں بھارتی جنتا پارٹی کی طلاب تنظیم ’اکھل بھارتیہ ودھیارتھی پریشد“ اور پولیس برابر کی شریک رہیں بلکہ جامع ملیہ یونیورسٹی پر تو پولیس نے ہی طلاب حملہ کیا جہاں طلا ب کو لائبریری میں گھس کر مارا گیا۔ ان میں کئی طالبات بھی شامل تھیں۔

لیکن فسادات اور مظاہروں کے بعد بھی بھارت کی دائیں بازو کی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کو واپس نہیں لیا اور نہ اس میں کوئی ترمیم کی بلکہ مسلمانوں کو دیش دروہی اور باہری جیسے القاب سے نوازا گیا۔ اور انہیں مزید مایوسی کے دلدل میں دھکیلا گیا۔

اس کے چند ہی مہینے بعد بابری مسجد فیصلے نے سب کو چونکا بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ اور اس فیصلے  پر تنقید کی گئی۔ ا س فیصلے میں وہ زمین جہاں  پچھلی کئی صدیوں سے بابری مسجد تعمیر تھی کو ہندؤں کو سونپا گیا اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے کہیں دوسری جگہ زمین دینے کی بات کی گئی۔ سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ جو لوگ یا سیاستداں بابری مسجد کو مسمار کرنے میں ملوث تھے، ان کو بے قصور قرار دیا گیا۔

اس کے کچھ ہی ہفتے پہلے کسان مخالف بل  پاس کیا  گیا  جن کے مطابق صرف بڑے تاجروں اور بیو پاریوں کو فائدہ ملے گا۔ اور ان بلوں کے خلاف کسانوں نے تحریک چلارکھی ہے۔ کسانوں نے بھارت کی راجدھانی دہلی کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور باہر سے کوئی گاڑی دہلی میں داخل نہیں ہوسکتی۔ بھارتی میڈیا، جو اب پوری دنیا میں ”گودی میڈیا“ کے نام سے مشہور ہے،نے پنجاب کے سکھ کسانوں کیخلاف پروپیگنڈہ کرناشروع کیا ہے۔ اس میڈیا کی  پشت پناہی موجودہ حکومت کر رہی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں کہ یہ حکومت کا خریدا ہوا میڈیا ہے۔

آئے روز جس طرح مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے، جس طرح مسلمان نام والے راستوں اور شہروں کے ناموں کو ہندو شخصیتوں والے ناموں میں تبدیل کیا جارہا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت ایک ہندو راشٹر بننے پر گامزن ہے۔ بہت سے مبصرین اور دانشوروں نے آج کے بھارت کی مماثلت ہٹلر کے جرمنی میں ڈھونڈنی شروع کی ہے۔ جس طرح ہٹلر کے جرمنی میں یہودیوں کے خلاف پروپیگنڈہ چلایا گیا اور پھر انہیں ”ہولو کاسٹ“ کا نشانہ بنایا گیاز ویسا ہی کچھ اس وقت بھارت میں ہورہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ ہورہا ہے۔ بین المذاہب محبت یا شادی کو ”لو جہاد“ کا نام دیا جارہا ہے اور حال ہی میں  بھارت کی ایک بڑی ریاست اتر پردیش میں ایسی شادیوں اور محبت کے خلاف ایک بل بھی پاس ہوا ، جس کا مقصد دراصل ہندوستان کے مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا رکھنا ہے۔ اور کچھ ہی دن پہلے اس قانون کے تحت گرفتاری عمل میں آئی۔ یہ قانون دراصل ایک شہری کی حقوق صلبی کی طرف ایک اور قدم ہے۔ ”لو جہاد“ اصطلاح کا پہلی بار استعمال 2009 میں دائیں بازو سے وابستہ’’ہندو جاگرتی“ ویب سائٹ میں ہوا۔ جس کے مطابق ہندوستان کے مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو اپنی  محبت کے جال میں پھنسا کر، پھر شادی کرکے ان کو مسلمان بناتے ہیں۔لیکن تحقیق سے یہ بات کئی مرتبہ ثابت ہوئی ہے کہ یہ محض ایک پروپیگنڈہ ہے اور کچھ نہیں۔

پچھلے کئی ہفتوں سے اب مختلف مسلمان صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو بدنام زمانہ قانون UAPA کے تحت جیل میں ڈالا گیا، جس کے تحت دو سال تک ان کی رہائی یا ضمانت ناممکن ہے۔ ان میں شرجیل امام، عمر خالد، صفورہ زرگر قابل ذکر ہیں۔ کسی کو بھی کسی بھی وقت پولیس گھر،یونیورسٹی یا بازارسے اٹھا کر لے جاتی ہے، اور اگلے روز اخبار یا دوسرے ذرائع سے پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں  شخص یاطالب علم گرفتار ہوا ہے۔

اس سے پہلے بھارت جنتا پارٹی نے پورے ملک میں ہندی زبان کو لاگو کرنے کی تحریک چلانی شروع کی اور جنوبی ریاستوں میں بھی ہندی کو لاگو کرنے کی بات کی، لیکن جنوبی ریاستوں سے وابستہ متعدد سیاسی کارکنوں اور سیاستدانوں نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی۔ کشمیر میں پہلے ہی صدیوں سے چلی آرہی سرکاری زبان اُردو کو ہٹایاگیا اور وہاں اب پانچ سرکاری زبانوں کی  منظوری دی گئی ہے، جو نہ صرف ریاست کی شناخت کو مسخ کرنے کی طرف ایک اور قدم ہے بلکہ اس قدم سے ہندتو وادی پارٹیوں کے ارادے واضح ہوجاتے ہیں۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے  کہ اس سے پہلے والے پانچ سال میں اس حکومت میں  مختلف مسلمانوں کو مبینہ طور پر گائے کا گوشت کھانے یا محض  داڑھی رکھنے یا ٹوپی پہننے پرقتل کیا گیا۔ اخلاق، جنید اور افراضل کو اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ مسلمان تھے۔ ان بہیمانہ واقعات نے بھارت کی جمہوریت اور سکیولرزم کی پول کھول کر رکھ دی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ایسی نشانیاں ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اگر بھارت کی موجودہ دائیں  بازو کی پارٹی بی جے پی کی پالیسیوں کی مذمت نہ کی گئی اور ان کے خلاف تحریک نہ چلائی گئی تو وہ دن دور نہیں جب بھارت واقعی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کی خواہشات پر مبنی”ہندو راشٹر“ میں تبدیل ہوجائے گا جہاں صرف اور صرف ہندو ؤں کی چلے گی اور ان کو قانون کی حمایت بھی حاصل ہوگی اور جہاں صرف ایک ہندو کو شہری حقوق حاصل ہوں گے۔ روزگارو تجارت اور شہری حقوق پر صرف ہندوؤں کا حق ہو گا۔ مسلمانوں و دلتوں اور دوسری اقلیتوں کے لیے جو مراعات تھیں و ہ ختم کی جائیں گی۔ مانو سمرتی ملک کا قانون ہوگا۔ اور یہ ایسا ”ہندو راشٹر“ ہو گا جو نہ صرف اس خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرے کا باعث ہوگا۔

Facebook Comments

اشرف لون
جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی،انڈیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply