وقت ایک سا نہیں رہتا۔۔عاصمہ حسن

وقت کبھی ایک سا نہیں رہتاـ ایک وقت ہوتا ہے جب ماں باپ کا سایہ سر پر قائم ہوتا ہے ـ اس چھاؤں میں اک عجیب سا سکون اور تحفظ کا احساس ہوتا ہے ـ بچپن کی بے شمار یادیں ہوتی ہیں ـ
جن میں بہن بھائیوں کا پیار’ ان کی پیار بھری لڑائیاں حتٰی کہ ہاتھا پائی لیکن دوسرے ہی لمحے مان جانا’ چھینا جھپٹی ‘ غل غپارہ ایک دوسرے کے بنا رہ نہ پانا ‘ ضد کر کے اپنی بات منوانا سب ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے ـ
جب تک ماں باپ کی آغوش میں ہوتے ہیں بہن بھائی سب ایک ساتھ ایک چھت کے نیچے ہنسی خوشی رہتے ہیں ـ نہ کوئی غم محسوس ہوتا ہے نہ کوئی تنہائی ‘ نہ ہی کوئی تکلیف و پریشانی محسوس ہوتی ہے ‘ نہ ہی کسی دوست کی کمی محسوس ہوتی ہے ـ
ماں باپ کا ساتھ کسی دولت سے کم نہیں ہوتاـ بے لوث دعا کے لئے اٹھنے والے ہاتھ سلامت ہوتے ہیں ـ

سارے زمانے کی صعوبتیں سہنے والا باپ ہوتا ہے جو ساری دنیا سے ٹکرا جاتا ہے اور اپنی اولاد کے لئے’ ان کے بہتر مستقبل کے لئے سرگرداں رہتا ہے ـ دن سے رات اور رات سے دن اپنی اولاد کی ضرورتیں پوری کرنے کی جدوجہد کرتا ہے ـ وہ اک شخص اپنے ناتواں کندھوں پر ساری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے روزگار کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے ـ نہ جانے کن کن مشکلات سے گزرتا ہے لیکن اف تک نہیں کرتا زبان پر شکوہ تک نہیں لاتا ـ کبھی تھکتا تک نہیں ـ۔ماں باپ کی موجودگی میں گھر ایک مضبوط قلعے کی طرح ہوتا ہے جس کے حصار میں انسان خود کو سب سے زیادہ محفوظ اور خوش تصور کرتا ہے ـ
ہمارے ہاں دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ گھر میں کوئی بھی پریشانی ہو ‘ کوئی بھی مسئلہ ہو فوراً والد صاحب کے گوشِ گزار کیا جاتا ہے اگر وہ گھر نہ بھی ہوں تب بھی فون پر بتایا جاتا ہے اور وہ عظیم شخص دنیا کے جس کونے میں بھی ہو جیسے مرضی حالات سے گزر رہا ہو فوراً اُس مسلئے کا حل بیان کرتا ہے اور ہم بھی اس تک اپنی بات پہنچا کر پرسکون ہو جاتے ہیں کہ اب مسلئہ حل ہو جائے گا ـ
جب باپ کا سایہ سر سے چھٹ جاتا ہے’ جب یہ شفقت کی چادر سر سے سِرک جاتی ہے تب ہم خود کو ایک دم سے تپتے صحرا میں تپتی ریت پر ننگے پاؤں اور ننگے سر محسوس کرتے ہیں زمانے کی گرم سرد کیا ہوتی ہے تب اندازہ ہوتا ہے ـ

اسی طرح ماں کا وجود ہوتا ہے جو اپنی ممتا کو دامن میں چھپائے رکھتی ہے ـ ہر اونچ بیچ سمجھاتی ہے اولاد کے عیبوں پر پردے ڈالتی ہے ـ ساری ساری رات جاگ کر پروان چڑھاتی ہے ـ ماں کے ایک رات کے جاگنے کا حساب بھی ہم نہیں چکا سکتے ـ
ماں کی عظمت کے بارے میں قران پاک میں بھی ذکر کیا گیا ہےـ ایک جگہ لکھا ہے کہ اور کچھ نہیں کر سکتے تو صرف ماں کو مسکرا کر ہی دیکھ لو جس سے حج مبروک کا ثواب مل جائے گا ـ ماں قدرت کا عظیم ترین تحفہ ہے ـ کائنات پیغمبر نے فرمایا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے ـ

لیکن اسی ماں سے ہم گھبرانا شروع کر دیتے ہیں جب وہ بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچتی ہے اس کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں ـ اولڈ ایج ہومز کا سہارا لیتے ہیں ـ ہسپتالوں میں بوڑھے ماں باپ کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا ـ والدین دس بچوں کو پال سکتے ہیں لیکن دس بچے مل کر بھی ماں باپ کا سہارا بننے کے روادار نہیں ہوتے ـ
جب ہم خود ماں باپ بنتے ہیں تب اندازہ ہوتا ہے کہ والدین کس قدر مشکلات سے گزر کر اولاد کو پالتے ہیں اپنی ساری زندگی ان کی پرورش میں وقف کر دیتے ہیں اپنے خواب اپنی خواہشات پسِ پشت ڈال دیتے ہیں ـ لیکن یہ بھی بہت دردناک حقیقت ہے کہ ماں باپ جب کمزور ہو جاتے ہیں وقت کے تھپیڑوں سے تھک کر چور ہو جاتے ہیں اور امید بھری نگاہوں سے اپنی اولاد کی طرف دیکھتے ہیں تب اکثر اولاد ان کو مایوس لوٹاتی ہے ـ

وہ والدین جو بچوں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے تھے ان کی آنکھوں سے ان کے اندر کی حالت جان جاتے تھے جو بن کہے ہر خواہش پوری کر دیتے تھے جب وہ کمزور پڑتے ہیں تو وہی اولاد ان کو سمجھ نہیں پاتی’ بوجھ سمجھنے لگتی ہے ـ انہی والدین کی آنکھوں کی نمی کو ان کی تنہائی کو سمجھ نہیں پاتی ان کو وقت نہیں دے پاتی ـ
وہ والدین جنہوں نے اپنی اولاد کو بولنا سکھایا تھا اب اپنی اسی اولاد کے بولے گئے نشتر سے لگے زخم برداشت نہیں کر پاتے ـ اولاد جب خودمختار ہو جاتی ہے تو اپنے والدین کی قربانیوں کو یکسر فراموش کر دیتی ہے ـ اپنی دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتی ہے اور بھول جاتی ہے کہ ان ناتواں کندھوں کو ‘ جھکی نظروں کو’ کمزور و لاغر جسم کو’ کپکپاتے ہاتھوں کو ان کی ضرورت ہے ـ
جیسے بچپن میں اولاد کو والدین کی توجہ اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح والدین کو بھی ان کے پیار اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ـ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اولاد اپنے والدین کی ریاضتوں کا پھل ان کو لوٹا سکتی ہے ـ

Advertisements
julia rana solicitors

زیادہ کچھ نہیں بس اپنا تھوڑا سا وقت’ پیار کے دو بول ‘ عزت و احترام دے کر ان کے وہ زخم جو وقت نے ان کو دئیے ان کا مداوا کر سکتے ہیں ـ
والدین کے گزرنے کے بعد افسوس کرنے’ ان کے نام کی دیگیں بانٹنے’ آنسو بہانےکا کوئی فائدہ نہیں ان کی زندگی میں ان کو یہ احساس دلانے کا مزہ ہے کہ ہاں وہ ہمارے لئے بہت اہمیت کے حامل ہیں اب ان کو سکھ دینے کا وقت آگیا ہے جتنی دعائیں سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیں کیونکہ والدین جیسی بے لوث محبت اس پوری کائنات میں کوئی نہیں کر سکتا ـ
جو اولادیں اپنے والدین کی خدمت کرتی ہیں انھیں سکھ پہنچاتی ہیں ـ ان کے آرام و آرائیش کا ‘ ضرورتوں کا خیال رکھتی ہیں وہ دین و دنیا پا لیتی ہیں دنیا میں بھی کامیابی ان کے قدم چومتی ہے اور آخرت بھی سنور جاتی ہے ـ
سوچیں ضرور کیوں کہ وقت ایک سا نہیں رہتا ـ ـ ـ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply