اسٹبلشمنٹ کا مخمصہ یا المیہ۔۔ایمل خٹک

عوامی حاکمیت کی جہدوجہد اہم مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کا بیانیہ عوام میں مقبول ہوتا جارہا ہے ۔ ایک طرف پی ڈی ایم کے جلسوں میں عوام کی شرکت بڑھتی جارہی ہے تو دوسری طرف اس کے  بیانیے کی وجہ سے اقتدار کے ایوانوں میں تشویش اور پریشانی بڑھ رہی ہے۔ گلگت-بلتستان الیکشن اور ملتان کی صورتحال نے ان کی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ اپوزیشن کا تندوتیز لہجہ اور اس کی جانب سے تواتر سے بعض اہم باوردی شخصیات پر سیاست میں مداخلت اور انھیں حالات کی خرابی کیلئے ذمہ دار اور جوابدہ قرار دینے کے عمل سے ہل چل مچی ہوئی ہے۔ تمام تر لالچ اور دباؤ کے باوجود پی ڈی ایم کی قیادت بعض ریاستی شخصیات کے  نام لینے اور پولیٹیکل انجینئرنگ کے ذریعے جمہوری حکومتیں گرانے، انتخابات پر اثرانداز ہونے اور موجودہ سیاسی سیٹ اپ کو لانے کیلئے انھیں موردالزام ٹھہرانے سے ابھی تک باز نہیں آرہے ہیں۔

تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال کے پیش نظر اسٹبلشمنٹ میں صلاح مشورے جاری ہیں ۔ ان کیلئے تشویش کی بات یہ ہے کہ اگرچہ سلیکٹیڈ حکومت ان کے  ایجنڈے کو آگے لیجانے میں بغیر چون و چرا عمل کررہی ہے مگر دیگر امور میں اس کی کارکردگی صفر ہے ۔ سلیکٹیڈ وزیراعظم اہم امور ریاست سے بے خبر یا لاتعلق نظر آتا ہے ۔ اور حکومت کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے ۔ ناعاقبت اندیش داخلی اور خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں عدم استحکام اور افراتفری کا خدشہ بڑھ رہا ہے ۔اندرونی سلامتی کی صورتحال مخدوش ہورہی ہے اور خطرات بڑ رہے ہیں۔ اس طرح عوامی سطع پر سلیکٹیڈ کی خراب طرز حکمرانی کیلئے سلیکٹرز کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔

اسٹبلشمنٹ کے اندر ان باتوں پر اتفاق بڑھ رہا  ہے۔ کہ ملک مزید بدامنی ، عدم استحکام اور افراتفری کا متحمل نہیں ہوسکتا، دوسرا سلیکٹیڈ حکومت کو لانے اور سنبھالا دینے میں انتہائی درجے کی بے احتیاطی کی گئی ہے اور اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں ننگی مداخلت سے اس کی غیر جانبداری کا بھرم ٹوٹ چکا ہے ۔ جس سے ریاستی اداروں کی ساکھ متاثر ہورہی ہے اور اس سلسلے میں شدید عوامی تنقید اور سنگین الزامات کا سامنا ہے ۔ اسلئے جانبداری کا تاثر زائل کرنے کیلئے اندرونی دباؤ بڑھ رہا ہے ۔

تیسرا سلیکٹیڈ نالائق اور نااہل ہے  اور خراب طرز حکمرانی خاص کر معاشی میدان میں ناقص کارکردگی سے عوام میں مایوسی بڑھ اور گرتی ھوئی معیشت کا دفاعی صلاحیت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ چوتھا اندرونی سلامتی کے خطرات سے نمٹنا سلیکٹیڈ حکومت کی صلاحیت اور استعداد سے باہر ہے ۔ پانچواں دفاعی اخراجات اور سماجی شعبے کے اخراجات میں عدم توازن بہت بڑھ رہا ہے اور دفاعی ضروریات پوری کرنے میں شدید مشکلات پیش آرہی ہے۔

سلیکٹیڈ اداروں کیلئے لائبلٹی بن چکی ہے ۔ سلیکٹیڈ کی وجہ سے سلیکٹرز کو بھی گالیاں پڑ رہی  ہیں ۔ اور اسٹبلشمنٹ کے اندر یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ ایک نالائق ، نااھل اور ناکام حکومت کیلئے اداروں کی ساکھ کو داؤ پر لگانا گھاٹے کا سودا ہے ۔اسٹبلشمنٹ کے اندر اس کے حامیوں کی تعداد محدود ہوتی جارہی ہے اور وہ تنہائی کا شکار اور اندرونی تنقید کی زد میں ہے۔ مکس پیغامات آرہے ہیں مگر ایک بات واضح  ہے کہ اداروں کو اپنی ساکھ اور شخصیات کے لیے  اپنی کھال بچانا ان کی اولین ترجیح  ہے۔

ادارے غیرجانبدار رہنے کے پیغامات بھیج رہے ہیں مگر اپوزیشن ان کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتی ہے اور غیرجانبداری ثابت کرنے کیلئے ٹھوس یقین دہانیوں اور عملی اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے ۔ باخبر رابطے کہتے ہیں کہ حکومت نے ملتان جلسے کی اجازت بھی اسٹبلشمنت کی مداخلت کے بعد دی ہے ۔ اور وجوہات کے علاوہ ڈیڈلاک اور بداعتمادی کی ایک وجہ احتساب کے نام پر انتقامی سیاست میں ایجنسیوں کا نمایاں نقش ہے ۔ اس طرح فوج کے غیرسرکاری ترجمان اینکرز اور دانشور صبح وشام ٹی وی پر اپوزیشن کی کردارکشی میں پیش پیش رہتے ھیں ۔

ادارے چاہے پلان “بی “ اختیار کریں یا پلان “سی “ نظام پرانے ڈگر پر نہیں چل سکتا۔ انھیں جلد یا بدیر سیاست ، سماج اور معیشیت کے شعبوں سے بیرکوں تک محدود رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ اور قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر اپنے اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کرنا ہوگا ۔ اب ملک بعض ریاستی اداروں کی ماوراء آئین کردار کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اب ریاست کے اندر ریاست یا ریاست کے اوپر ریاست کی گنجائش نہیں ۔

ملک مہنگائی، بیروزگاری اور اقتصادی بدحالی کی آتش فشاں پر کھڑی ہے ۔ آپشنز کم ہوتے  جاتے ہیں  ۔ اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو اگلے سال کی بجٹ سازی ایک مشکل ترین مرحلہ ھوگا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر اصلاح احوال کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں  تو خدشہ ہے کہ چند ریاستی شخصیات کی بجائے خود ریاستی ادارے بھی اپوزیشن کی براہِ  راست تنقید کی زد میں آجائینگے ۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply