بازی گر۔۔ شہزاد سلیم عباسی

استاد بشیراحمد بولے،سمارٹ بوائے! تم کچھ کھاتے پیتے نہیں ہو؟ اتنے دبلے پتلے کیوں ہو!نیازی بولے قبلہ حضور! مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ میں دبلا پتلا ہوں یا ہٹا کٹا۔۔ میں تو بس آپ سے آج چند راز و نیاز کی باتیں کرنے اور کچھ کام کی باتیں سننے آیا ہوں۔ میں نے زندگی میں دنیا دیکھی ہے۔ دنیا کی رنگینیوں سے خوب آشنا ہوں۔ ہمیشہ سے کھیل اور فٹنس میرا مشغلہ رہے ہیں۔بس اب بے مقصدیت اور لاابالی طرز زندگی سے اکتا گیا ہوں۔ مجھے کچھ ایسا کرنا ہے جس سے میرے دل کو تسکین ہو۔

استادبشیر احمد بولے، تم کافی خوش قسمت انسان ہو جو چاہا مل گیا اور قسمت کی دیوی نے تم پر خوب مہربانی و کرم کا معاملہ کیا ہے۔عزت، دولت اور شہرت سب کچھ تو ہے تمہارے پاس!!بتاؤ اب کیا چاہتے ہو؟ نیازی صاحب بولے قبلہ حضور! میں اب چاہتاہوں کہ عوام کی خدمت کروں۔ اس لیے میں سیاست میں قسمت آزمائی چاہتا ہوں۔ مجھے اب سیاست کا امین اور عوامی خدمت کے میدان میں غازی بننا ہے۔لوگوں کو سیاسی محاذ پر ایجوکیٹ کرنا ہے۔ سیاست کے بدبوداراور گلے سڑ ے نظام کو سیاسی اصولوں اور نظریات پر کھڑا کرنا ہے۔ دھیمک زدہ معاشرے کو اخلاقیات کی بنیادی اکائیوں پر کھڑا کرنا ہے۔ بدلتے سماجی رویوں کو ازسرِنو مرتب کرنا ہے۔ معاملہ فہمی اور کردارکو معیار زندگی بنانا ہے۔

استاد بشیر احمد بولے،واہ بھائی واہ! اعلی سوچ، اونچی اڑان اور کمال کی فکر پائی ہے تم نے! مگر ایسے تو کئی لوگ اپنی دلی مرادیں لے کر میرے پاس آئے اور جب موقع ملا تو پھر مقصدیت سے کافی پیچھے ہٹ گئے۔ مادیت پرستی اور نفس کی ہوس ان کا اوڑھنا اور بچھونا بن کر رہ گئے۔ تم کیسے کرو گے یہ سب!! تم تو یہاں کے معاشرے کو ٹھیک طرح سمجھتے بھی نہیں ہو تو پھر کیسے اس سیاست کی بے رحم موجوں کے تھپیڑوں کو سہوگے!! کیسے صحرا کے اس رتیلے کھیل میں گرفت کو مضبوط رکھو گے! دیکھو! تم ایک شریف آدمی ہو، یہ سیاست تمھارے بس کا روگ نہیں ہے۔ سیاست کی چیراستیاں تم نہ جھیل سکوگے۔ اس لیے تم سیاست سے تائب ہو جاؤ، سوشل کاموں پرتوجہ دواو ر شوکت خانم کو سنبھالو۔میں تمہیں خبردار کر رہا ہوں کہ یہاں لوگ سیاست کے پراگندہ گرداب میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی منزل سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں جس سے نہ صرف ان کا اپنا ذاتی و شخصی نقصان ہوتا ہے بلکہ ملک و قوم بھی ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس کھیل میں جیتتا وہی ہے جس کے ہاتھ میں شطرنج یا گھوڑا نہیں بلکہ گھوڑے کی چال ہوتی ہے۔ جس نے گھوڑے کی چال سمجھ لی وہ ”گورو“ یا ”بازی گر“ کہلاتا ہے۔ قیام پاکستان کی تاریخ سے لے کر آج تک گھوڑے کی چال کی چاپی کسی سیاست دان یا پارلیمانی نمائندے کے پاس نہیں آئی۔ جب بھی شطرنج پر کھیلنے والے گھوڑے نے سمجھداری یا مغرور چال چلنے کی کوشش کی،شطرنج کے بازیگر نے اس کی بساط لپیٹ لی۔دیکھو! سیاسی لوگوں کو آج تک نہیں پتہ چلا کہ کس ڈگر پر چلنا ہے! سیاسی لوگوں کو اس کا م پر لگا دیا گیا کہ تمہاری باری تب تک چلے گی جب تک تم حکم عدولی نہیں کروگے۔ جس دن تم نے نافرمانی کی تو عوام، عدالتیں،میڈیا، نیب اور دیگر تفتیشی ادارے تمہارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجائیں گے اور پھر تمہیں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔

ایک بات یاد رکھو یہاں سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ کیوں کہ یہاں جو دکھتا ہے اصل میں وہ نہیں ہوتا ہے! اور جو نہیں دکھتا، اصل میں وہی ہوتا ہے۔ نیازی صاحب بولے! میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اچھے اور برے میں تمیز کروں گا۔ میں خوشحال پاکستان کے لیے ہر قیمت ادا کروں گا۔ میں عدل انصاف کے نظام میں ہر رکاوٹ دور کروں گا۔ میں غریب کی دہلیز پر پہنچ کر اس کی فریاد سنوں گا۔ میں صحت اور تعلیم کے دہرے معیار کو یکسر بدل دوں گا۔ احتساب سے لیکر ہر قسم کے انقلابی اقدام اور خوشحال نظام کے لیے کوشش کروں گا، بس آپ مجھے راستہ دیکھائیں۔ اس پر استاد بشیر احمد سوچ میں پڑگئے اور کہا نیازی میری بات غور سے سنو!! تم کبھی بھی سیاست کے چیمپیئن نہیں بن سکتے جب تک کہ تم لوٹوں کو اپنے ساتھ نہ ملا لو۔جب تک اپوزیشن کو ساتھ نہ ملا لو۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ نہ ملا لو۔ نیازی صاحب برجستہ گویا ہوئے اور کہا کہ مجھے ہر صورت آنا ہے اور نظام کی درستی کے لیے مجھے کوئی بھی قدم اٹھانا۔ مجھے منظور ہے۔ مجھے یہ ڈیل منظور ہے۔ مجھے سیاست میں آنا ہے۔ اور اب 22 سالہ جد و جہد کے بعد شطرنج بھی ملی اور گھوڑے بھی ملے مگر بازیگر کون ہے نہیں معلوم!

Advertisements
julia rana solicitors london

آج میری حکومت کو سوادو سال گزرچکے ہیں مگر مجھے نہیں معلوم کہ مہنگائی کے عفریت کو کیسے قابو کروں! مجھے نہیں سمجھ آرہی ہے کہ انصاف کے نظام میں حائل رکاوٹیں کیسے دور کروں! قرضوں کے بے تحاشا بڑھتے ہوئے بوجھ کو کیسے روکوں!۔ اپنے چوٹی کے دیرینا رفقاء کی پے در پے خراب کارکردگی کو کیسے جسٹیفائی کروں! اداروں کی زبوں حالی کا ذمہ دار کسے ٹھہراؤں۔اداروں کو بند کروں؟ نجکاری کروں یا مینجمنٹ کو تبدیل کروں؟ اپوزیشن کا مقابلہ کروں یا میڈیا کو لگا م دوں؟مجھے تو سوچ سوچ کے پیٹ میں بل پڑ رہے ہیں! چہرہ پیلا پڑ رہا ہے! اور گھبراہٹ کے مارے سانسیں اکھڑ رہی ہیں اور نیندیں بے چین ہیں! ضمیر مجھے اب نہ صرف ملامت کرتا ہے بلکہ ایک ہی سوال کرتا ہے کہ حکومتی نظم و نسق چلانے کی ذمہ داری کیوں اٹھائی تھی!!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply