سنے کون قصہ دردِ دل۔۔سعید چیمہ

تخیل کی وادیاں جن کی شادابی و بہار پر بہت ناز تھا وہ اب قحط کا شکار ہو کر روبہ زوال ہیں۔ الفاظ کا ذخیرہ پرانے وقتوں میں اناج کی طرح ختم ہوا چاہتا ہے۔ ہاں البتہ اگر کتابوں کی موسلا دھار بارش ہو جائے    تو الفاظ کا قحط ختم ہو جائے گا۔ سید سلمان ندوی سے کسی نے پوچھا کہ میں لکھنا چاہتا ہوں، کیسے لکھوں؟ سید صاحب پہ خدا رحم کرے خاضر جواب اور صاحبِ علم شخصیت تھے جو قلم کو حرکت دیتے تھے تو فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیتے تھے، سیرت النبی مکمل کی تو اپنے سے پہلے والے سیرت نگاروں کو  مات دے دی، فرمانے لگے کہ اتنا پڑھو کہ ابلنے لگو اور جب ابلنے لگو تو لکھ ڈالو۔ سید صاحب کا کلیہ تو جمع تفریق کی مانند نہایت آسان ہے ، مگر اس پر عمل کرنا نہایت کھٹن ہے۔

سکون  کی تلاش میں پھرتے ہوئے نڈھال فقیر کی طرح اب بھی الفاظ کی تلاش میں مارا مارا پھر رہاہوں کہ کہیں سے  الفاظ کی صورت میں کچھ  زادِ راہ مل جائے، قحط مگر جب پڑتا ہے تو غرباء کے ساتھ امرا بھی گردشِ ایام میں الجھ جاتے ہیں، محمد حسین آزاد اور مولانا ابوالکلام آزاد ایسوں کی بات دوسری ہے، قحط سے چھٹکارا پانے کی عمومی صورت بارش ہوتی ہے مگر ہم برسات سے بھی امید کیوں کر لگائیں جب ہم ایسوں میں لگی کھنکتی مٹی پانی جذب ہی نہیں کرتی۔

موسم بھی ان دنوں ایسا ہے کہ پیڑوں کی ٹہنیوں پر خزاں کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں، زمین پر گرتے ہوئے پتوں کی سرسراہٹ ماحول کو سوگوار کر دیتی ہے، طبیعت میں عجب قسم کا بوجھل پن عود کر آیا ہے، آفتابی گولے کی کرنوں کی حدت  جسم کی فرحت کا سامان کرتی ہے تو بار بار خواہش کسی کونے کھدرے سے سر باہر نکالتی ہے کہ اس موسم میں گاؤں کے کسی میدان میں چارپائی کے ساتھ دو عدد تکیے اور پڑھنے کے لیے کتابیں میسر ہوں ہوں تو زندگی کچھ عرصے کے لیے مکمل ہو جائے۔

شہروں میں تو زیادہ سے زیادہ چھت یا پارکوں میں بیٹھ کر دھوپ سے رشتہ قائم کیا جا سکتا ہے، مگر وہ تنہائی میسر نہیں آتی جو دلِ ناہنجار چاہتا ہے، تنہائی اگر میسر بھی آجائے تو خیالات پھر بھی بھٹک کر بل کھاتی پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے دور چناب کے کنارے واقع گاؤں کی طرف گامزنِ سفر ہو جاتے ہیں، گاؤں کی محبت  ہمیں بہت کھنچتی ہے جیسے لوہا مقناطیس کو، مگر ہم ایسے بد بخت ہیں کہ لوہے سے نرم ہونے کے باوجود بھی گاؤں کی کشش کو خاطر میں نہیں لاتے، ایک طرف تو موسم جان لینے کے درپے ہے اور دوسری طرف کسی کے بچھڑ جانے کی خبر دل پر ایسا کچوکا لگاتی ہے کہ تکلیف جس سے مسلسل بڑھتی جاتی ہے، عبدالقادر بھی اب عالمِ بالا چلے گئے ہیں، ان کے کالم کے فسوں سے نکلنا بہت مشکل ہوتا تھا، عوام کے لیے ان ایسا دردِ دل بہت کم کالم نگار رکھتے ہیں، اب تو بار بار پیر نصیر الدین شاہ یاد آتے ہیں

سنے کون قصہ دردِ دل میرا غم گسار چلا گیا

جسے آشناؤں کا پاس تھا وہ وفا شعار چلا گیا

اپنے انجام کی فکر رہتی ہے، ہر وقت دھڑکا لگتا رہتا ہے کہ نامعلوم زندگی کا چراغ کیسے گُل ہو، دل میں غیب سے خیال وارد ہوتا ہے کہ میاں بس کر دو، بہت ہو گیا، زندگی جو تمہیں  امانت کے طور ملی ہے اس کو ضائع مت کرو۔ خیال وارد ہونے کے بعد مصمم ارادہ کیا جاتا ہے کہ زندگی کو مولانا وحیدالدین خان کی طرح اسلام کے لیے وقف کر دیا جائے، پھر یہ بات ارادہ توڑ دیتی ہے کہ مولانا کو پرایوں سے زیادہ اپنوں کی سختیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں، کیا تم ان مصائب کو برداشت کر لو گے، سوال کا جواب واضح نہیں ہو پاتا، اسی کشمکش میں ہوتا ہوں تو صدا آتی ہے کہ ثابت قدم رہنا، غالب تم ہی رہو گے۔ سیاست سے بھی ان دنوں وحشت سی ہونے لگی ہے، سیاستدان تو گویا قبرستان کے مکین معلوم ہوتے ہیں جن کے قریب جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے، جن کے لیے ہم باشندگانِ پاکستان کی کوئی وقعت ہی نہیں، جو شاید ہمیں انسان بھی نہیں سمجھتے، ہم ان پر بات کر کے اپنے الفاظ کا ذخیرہ ضائع کیوں کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کورونا وائرس دوسری مرتبہ سرطان کے پھوڑے سے بھی زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے، مگر مجال ہے جو اپوزیشن کی صف میں سے کسی زرخیز دماغ والے نے کہا ہو کہ خدا کے لیے بس کرو، عوام کو تو تم پہلے ہی انسان نہیں سمجھتے تھے کم از کم اپنا تو خیال کر لو۔ کیا صرف سیاست دانوں سے گلہ رکھنا درست ہے، عوام کو کیا کہا جائے جو کورونا سے بے پروا ہو کر جلسوں  میں شرکت کرتے ہیں جیسے جلسے میں شرکت کرنے پر اجرِ عظیم کا عدوہ کیا گیا ہو۔ اے قائد! آپ کی قوم پر عجب وقت آن پڑا ہے، آپ تو مزار میں لیٹے آرام فرما رہے ہیں مگر آپ کے وارثوں نے ہمارا جینا محال کر رکھا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply