محبت کرنے والوں سے ایک گزارش۔۔گل نوخیز اختر

اشرف ایک ٹی وی چینل میں کیمرہ مین ہے۔ تعلیم میٹرک اورشکل و صورت مناسب ہے۔دو سال پہلے اِسے ایک لڑکی سے محبت ہوگئی۔ یہ ہر ریکارڈنگ پر مجھے ”پارو“کے قصے سناتا تھا۔ پارو بھی اشرف کی طرح”اعلیٰ تعلیم یافتہ“تھی‘ ماڈلنگ کا شوق تھا۔ ایک دن اشرف سے ملاقات ہوگئی اور پہلی ملاقات ہی محبت میں بدل گئی۔ اشرف نے مجھے ایک دن اُس کی تصویر بھی دکھائی جس میں اُس کی پارو‘ سبز رنگ کی لپ اسٹک لگائے اپنے گھر کے فریج پہ ہاتھ رکھے بڑے فخر سے کھڑی تھی۔اُس نے مجھے پارو کا ایک ایس ایم ایس بھی پڑھایا جس میں پارو نے اشرف کو اپنا ذاتی شعر بھیجا تھا”کمرے میں کھڑکی‘ کھڑکی میں پٹھان……میرا اشرف میری جان“۔
دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے لیکن دونوں کے گھر والے اس شادی کے خلاف تھے‘ ایک دن اشرف نے مجھے بتایا کہ گھر والے راضی نہ ہوئے تو میں نے اور پارو نے طے کر لیا ہے کہ ہم کورٹ میرج کرکے کرائے پر گھر لے کر علیحدہ رہیں گے۔“میں نے حیرت سے پوچھا”کتنی تنخواہ ہے تمہاری؟“ آرام سے بولا”اٹھارہ ہزار“۔ میں نے گھور کر اُسے دیکھا”تو تمہارا کیا خیال ہے اٹھارہ ہزار میں گھر کا کرایہ‘ بجلی کا بل‘ گیس کا بل‘ پانی کا بل اور دیگر ضروریات پوری کر لو گے؟“ اشرف نے طنزیہ لہجے میں میری طرف دیکھا”سرجی!لگتا ہے آپ محبت کی طاقت کو نہیں جانتے‘پارو کہتی ہے کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے‘ اُسے صرف میرا پیار چاہیے“۔میں کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ اشرف جلدی سے پھر بول پڑا”سرجی!پارو کی محبت نے مجھے بہت طاقتور بنا دیا ہے‘ اب میں ساری دنیا سے لڑ کر اپنا حق لے سکتا ہوں“۔میں نے احتیاطا ً پوچھا”تم نے بتایا تھا کہ تمہیں تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی‘ تو کیا تم نے چینل کے مالک سے بات کی؟“۔ سہم کر بولا”نہیں سر!وہ تو ہر وقت غصے میں ہوتے ہیں‘ خوامخواہ نوکری سے ہی نہ نکال دیں۔پھرایک دن اشرف اور پارو کی کورٹ میرج ہوگئی اور دونوں ایک کمرے کے فلیٹ میں رہنے لگے۔ شادی کو چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک دن پتا چلا کہ پارو اور اشرف کی بھیانک لڑائی ہوئی ہے اور پارو اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی ہے۔میں نے اشرف کو فون کر کے بات پوچھی تو دانت پیس کر بولا”کیا بتاؤں سر جی! اِس منحوس شکیلہ نے تو میری زندگی عذاب کر کے رکھ دی ہے“۔ میں چونکا”شکیلہ؟؟؟ یہ کون ہے؟۔ بے بسی سے بولا”یہ وہی پارو ہے‘ کم بخت کا اصل نام شکیلہ ہے“۔ میں نے فوری طور پر پوچھا کہ ہوا کیا ہے؟ اشرف نے جو تفصیل بتائی اُس کا مختصر خلاصہ یہ تھا کہ ”پارو عرف شکیلہ اُس سے روز نئی نئی چیزیں خریدنے کی فرمائش کرتی ہے‘کرائے دیگر بلوں کی رقم ادا کرنے کے بعد اشرف کے پاس کچھ نہیں بچتا لہذا وہ سیخ پا ہوجاتاہے“۔ میں نے یاد دلایا کہ تمہیں تو پارو کی محبت نے طاقتور بنا دیا تھا۔ غصے سے بولا”اُس وقت میں نے اِس پینڈو کو سوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا‘ سر جی! یقین کریں مردوں کی طرح خراٹے لیتی ہے‘ صبح اٹھتی ہے تو جب تک منہ پر پانی کے چھینٹے نہ مار لے‘ آنکھیں بھینگی لگتی ہیں۔ کچھ دنوں بعد اشرف نے بتایا کہ پارو سے صلح ہوگئی ہے اور وہ دوبارہ اُس کے پاس آگئی ہے۔تین چار ماہ بعد پھر دونوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی‘ اب کی بار اشرف نے میرے آگے ہاتھ جوڑ دیے”سر جی! میں تو تنگ آگیا ہوں‘ آپ ہی اِسے کچھ سمجھائیں۔“ میں نے وعدہ کیا کہ میں شام کو اُن کی طرف ضرور چکر لگاؤں گا۔آفس سے فارغ ہوکر میں اشرف کے فلیٹ پر آگیا‘ دونوں ایک دوسرے سے سخت ناراض لگ رہے تھے‘ میں نے پارو سے پوچھا ”بی بی! تم بھی تو اشرف سے بہت محبت کرتی تھیں‘ یہ ساری محبت کدھر گئی؟“ پارو پھٹ پڑی”مجھے کیا پتا تھا کہ میرے نصیب پھوٹ جائیں گے‘ شادی سے پہلے تو یہ روز نہا دھو کر‘ صاف ستھری شرٹ پہن کر مجھ سے ملنے آیا کرتا تھا‘ میں سمجھتی تھی شائد ایسا ہی ہے‘ لیکن شادی کے بعد پتا چلا کہ یہ کتنا ڈنگر ہے‘ چھ چھ دن نہاتا نہیں‘صبح غسل خانے میں کلی کرتے ہوئے ایسی ایسی آوازیں نکالتاہے کہ میرا جی متلانے لگتاہے‘ کام سے واپس آتا ہے تو پھٹی ہوئی بنیان اور کچھا پہن کرٹی وی دیکھنے لگ جاتاہے‘دو دو مہینے تک ناخن نہیں کاٹتا‘خود روز سگریٹ کی ڈبی پھونک جاتاہے‘ میں ہاضمے کے لیے بوتل مانگ لوں تو موت پڑ جاتی ہے۔بس میں نے اِس کے ساتھ نہیں رہنا“۔ میں سمجھ گیا کہ حالات کافی خراب ہوچکے ہیں۔ ایک ہفتے بعددونوں میں طلاق ہوگئی۔آج دونوں اپنے اپنے گھر بہت خوش ہیں۔
محبت سچائی کا نام ہے‘ جہاں سچائی نہیں رہتی وہاں محبت بھی نہیں رہتی اور سچائی یہ ہے کہ جس سے ہم پیار کرتے ہیں وہ ہر وقت ویسا نہیں ہوتاجیسا ہم اُسے دیکھتے ہیں۔ اگر وہ کوئی انسان ہے توعین ممکن ہے کہ وہ خراٹے بھی لے۔ اُس کے بال بھی الجھے ہوئے ہوں۔کسی بات میں کنجوسی بھی دکھائے۔غصہ بھی کرے۔ بیزاری بھی دکھائے۔۔ بلند آواز ڈکار بھی لے۔ منہ پھاڑ کر جماہی بھی لے۔ سرِ عام خارش بھی کرتا پھرے وغیرہ وغیرہ۔ہم سب اپنے گھروں میں کچھ اور ہوتے ہیں اور باہر کچھ اور۔ لباس سے شخصیت تک ہم روز ایک دوہری زندگی گذارتے ہیں۔ ٹھیک ہے باہر کے ماحول کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا بھی ضرور ی ہے۔ لیکن جس سے آپ محبت کرتے ہیں اور جسے اپنی زندگی کاحصہ بنانے جارہے ہیں اُسے ضرور کھل کے بتائیں کہ آپ کی اصلیت کیا ہے۔جس کو آپ سے پیار ہے اُسے آپ پسینے میں شرابور بھی اچھے لگیں گے۔ بڑھی ہوئی شیو میں بھی اچھے لگیں گے۔ موٹے پیٹ میں بھی اچھے لگیں گے اور کالی رنگت میں بھی اچھے لگیں گے۔مردہو یا عورت‘ہر انسان ایک جیسا ہے۔کسی کا اصل زیادہ دیر تک چھپا نہیں رہ سکتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply