وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا۔۔عارف خٹک

آج اس کی  شلوار پھر  پھٹی ہوئی تھی۔ سر سے بھی خون رس رہا تھا۔ ہونٹ زخمی تھے۔ ننگے پیر گاؤں کی کچی سڑک پر بیٹھا ہوا اپنے گندگی سے لتھڑے بالوں میں بار بار انگلیوں  سے خارش کرکے وہ خود کو پُرسکون کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ پیر بہت گندے ہورہے تھے بلکہ اس کے ننگے پیر سخت گرم زمین پر چلتے چلتے جل گئے تھے۔
میرا اس گاؤں کے مڈل  سکول میں تبادلہ ہوئے ایک ماہ ہوا تھا۔ میرا تعلق کوہاٹ سے تھا مگر نوکری کے سلسلے میں اپنے شہر سے بہت دور دراز اس علاقہ میں میرا تبادلہ کروا دیا گیا ۔میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور پورے گھر کا انحصار مجھ پر تھا لہذا مزاحمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ چپ چاپ اس گاؤں میں آکر ایک چھوٹا سا گھر جہاں پانچ اور پردیسی اساتذہ بھی تھے، کرائے پر لیکر اسکول میں پڑھانے لگا۔
یہاں اس علاقے میں نہ پانی تھا نہ بجلی اور نہ ہی کوئی ایسی سہولت تھی لہذا میرا زیادہ وقت کتابیں پڑھنے میں گزرنے لگا۔ ۔سکول آتے میں روز اس پاگل کو سڑک کنارے بیٹھا دیکھتا جو خاموش نظروں سے کبھی کبھار مجھے دیکھ لیتا تھا مگر وہ شاید ہر ایک سے بیگانہ تھا اور ہر کوئی اس سے بیگانہ تھا۔ اس کے سر سے بہتا خون دیکھ کر میں رک گیا۔ شاید گاؤں کے شریر لڑکوں نے اس کو پتھر مارے تھے۔ مجھے اس پر ترس آنے لگا۔ میں نے اس کو آواز دی کہ “آجاآ میں تمہاری  مرہم پٹی کروا دوں”۔ مگر اس نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔
روز میں اس پاگل کو دیکھتا رہتا اور سوچتا کہ چہرے مہرے کو دیکھ کر ایسا ہرگز نہیں لگتا کہ یہ پیدائشی پاگل ہے۔ اس کے نین نقش بہت ہی خوبصورت تھے۔ اگر اس کے بال کٹوا کر صاف ستھرے کپڑے پہنا دیئے جائیں تو شاید کوئی یقین نہ کرے۔کہ یہ بندہ پاگل بھی ہوسکتا ہے۔ میں روز ایک دو منٹ کیلئے اس کے پاس کھڑا ہوکر اس کے بارے سوچتا رہتا۔ ۔ایک دن میں اس کے پاس کھڑا یہی کچھ سوچ رہا تھا کہ حاجی ہدایت اللہ صاحب جو اس گاؤں کے نمبردار تھے نے ،اپنی گاڑی روک کر ۔ مجھے غور سے دیکھا۔ “بھتیجا ہے میرا۔ دو سال سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔ شہر میں رہتا تھا۔ دو سال پہلے اپنی ماں کے جنازے پر آیا۔اور ہوش وحواس کھو دیئے”۔ میں حیرت سے حاجی صاحب کو دیکھ رہا تھا۔ حاجی صاحب نے میرا اشتیاق دیکھا تو گاڑی کا انجن آف کرکے گاڑی سے نیچے اتر آئے۔ اور بوجھل قدموں سے اس پاگل کی طرف بڑھ گئے۔ نہایت دکھ کیساتھ اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا مگر پاگل نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ واسکٹ سے رومال نکال کر اس کے ماتھے سے خون صاف کرنے لگا۔ “چھوڑونگا نہیں ان حرامیوں کو”۔ حاجی صاحب غصے کی شدت سے کانپنے لگے۔ میں نے ترحم آمیز نظروں سے حاجی صاحب کو دیکھا۔ “حاجی صاحب آپ ان کو گھر کیوں نہیں رکھتے؟”۔ حاجی صاحب کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ “ایک پی ایچ ڈی اسکالر کو کیسے باندھ سکتا ہوں”۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر سی دوڑ گئی۔ “کیا کہا پی ایچ ڈی ڈاکٹر؟۔ کیا میں اس کے بارے میں بالکل صحیح سوچ رہا تھا کہ یہ عام بندہ نہیں ہے”۔ حاجی صاحب زمین پر بیٹھ گئے۔ “بہت مشہور رائٹر ہیں۔ دس بارہ کتابیں لکھی  ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتا تھا۔ ۔۔۔۔۔ اس کو کون کافر کا بچہ زنجیروں سے باندھ سکتا ہے۔ بلکہ یہ تو اتنا نرم خو ہے کہ اس نے دو سال میں کسی سے بات تک نہیں کی۔ پورا دن اس سڑک پر بیٹھ کر کسی کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ کہتا ہے وہ آئیگی میرے پاس۔ ۔۔۔۔۔ رات کو قبرستان جاکر اپنی ماں باپ کی قبروں کے بیچ سو جاتا ہے”۔
حاجی صاحب نجانے کیا کیا بول رہے تھے مگر میرا دماغ اپنی جگہ سن ہوگیا تھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ بندہ اتنا پڑھا لکھا ہونے کے باوجود ننگے پیر، پھٹے پرانے کپڑے، میل اور جوؤں سے بھرے سر کیساتھ اس حالت میں کیسے پہنچا۔ میں بھی فرط عقیدت سے حاجی صاحب کے دوسری طرف بیٹھ گیا۔ میں نے ہمدردی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ “وہ ضرور آئیگی”۔ اس نے آہستہ سے میری طرف سر گھمایا۔ اس کی آنکھوں میں مخصوص چمک ابھری، ہونٹ ہلکے سے نیم وا ہوگئے “ہاں میری صائمہ آئیگی”۔ تیزی سے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور پہاڑ کے دوسری طرف قبرستان کی طرف دوڑ لگا دی۔
میں نے حیرت اور صدمے سے ہاتھ میں پکڑی کتاب کو دیکھا۔ جس پر جلی حروف میں لکھا تھا “سپنے” کتاب کے اوپر کونے میں شہتاب خان کا نام جھلملا رہا تھا۔
ایک سال سے وہ میرے پاس اسکول میں بیٹھنے لگا۔ وہ سر جھکائے پورا دن خاموش بٹھا رہتا۔ میں روز رومال میں اس کیلئے روٹی اور کچھ سالن اچار کیساتھ لیکر آتا تھا کہ میں نے اس کی ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ شہتاب خان کو اچار اور سبزیاں بہت پسند ہیں۔
میں بچوں کو پڑھاتا تھا اور میرا پسندیدہ مصنف مجھے ایک ٹک گھورتا رہتا۔ میں ان کو کھانا کھلا کر ان کی ہی کتابیں سنانے بیٹھ جاتا۔ اب تو پورے علاقے میں میری اور شہتاب خان کی دوستی مشہور ہوگئی مگر وہ فقط مجھ سے یہی کہتا “وہ آئیگی دیکھنا ۔۔۔۔ایک دن میری صائمہ آئیگی”۔
ایک دن میں اپنی ماں کی بیماری کے سلسلے میں اپنے گاوں آیا۔ پندرہ دن کے بعد جب واپس ڈیوٹی پر پہنچا تو مجھے سڑک کنارے شہتاب خان بیٹھا نظر نہیں آیا۔ میرے ہاتھ میں وہی رومال تھا جس میں روٹی تھی اچار تھا اور ٹینڈے گوشت کا سالن تھا جو میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنے پسندیدہ مصنف کیلئے پچھلے ایک برس سے بلاناغہ تیار کرکے لاتا تھا۔ میں متلاشی نظروں سے شہتاب کو ڈھونڈنے لگا مگر شہتاب مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔
اسکول پہنچا تو یہ خبر مُجھ پر بجلی بن کر گری کہ دس دن قبل شہتاب اپنے ماں باپ کی قبروں کی بیچ مردہ پایا گیا۔ مجھے ناقابل یقین جھٹکا سا لگا۔ میرا ذہن قبول نہیں کرپارہا تھا کہ۔میرا پسندیدہ اور آئیڈیل انسان کا یہ یقین کیسے غلط ہوسکتا ہے کہ “وہ آئیگی ضرور آئیگی”۔ میرا ذہن سنسنا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں آنکھوں میں آنسولئے اسکول سے متصل قبرستان کی طرف جانے لگا کہ اپنے دوست کو آخری سلام کرلوں۔ رومال میرے ہاتھ میں تھا۔ قبر کے قریب پہنچا ایک چھوٹے قد کی خوبصورت اور وضع دار خاتون جو چہرے مہرے سے اس علاقے کی نہیں لگ رہی تھی،بیٹھی ہوئی قبر پر ایسے ہاتھ پھیر رہی تھی جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو فرط محبت میں سہلا رہی ہو۔ بالآخر خاتون قبر پر جھک گئی اور قبر کی مٹی چومنے لگیں۔ ایکدم فضا دلدوز چیخوں سے گونجنے لگی۔ “تیری صائمہ آگئی ہے شہتاب۔۔۔۔۔ اٹھ جاؤ ناں ظالم”۔
میں ہکا بکا اس خاتون کو دیکھ رہا تھا جو یقیناً صائمہ ہی تھی۔ پھر اونچی آواز میں اس کے قہقہے سنائی دینے لگے میں نے ہاتھ میں پکڑا روٹی کا رومال مضبوطی سے پکڑلیا کہ میری دوستی نبھانے کی یہ ڈیوٹی ہنوز ختم نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments