گمنام سفر ۔محمد اعزاز /قسط 3

پاسپورٹ کنٹرول پر آفیسر کے اچانک روکنے اور ساتھ چلنے کے حکم پر عبداللہ حیرت کے عالم میں آفیسر کے  ساتھ چلتا رہا، سکینر پر پہنچتے ہی آفیسر نے ہیٹ کیری کو دوبارہ سَکین کیا تو کہنے لگا کیا آپ جانتے نہیں کہ ہینٹ کیری میں لوشن یا کوئی لِیکوڈ(liquid)نہیں رکھا جاسکتا۔ وہ اِس لوشن سے بالکل بے خبر تھا فورًا آفیسر سے معذرت کی لوشن وہیں  چھوڑا اور واپس پاسپورٹ کنٹرول کی جانب بڑھا، مکمل کلیئرنس کے بعد ابھی بیٹھا ہی تھا کہ فلائٹ کا اعلان ہوگیا،

7 اکتوبر2016 کی شام ساڑھے چھ بجے جہاز نے یوکے کے لیے اُڑان بَھری، جہاز ابھی نچلی پرواز ہی کر رہا تھا کہ عبداللہ نے کھڑکی سے تعجب کے ساتھ لاہور کی شام کو آخری بار دیکھا دھواں، بد نظمی، غربت، گندگی اور بے ہنگم سی چیزوں کو چاہ کر بھی نہ  ڈھونڈ سکا،  جس کا ہر روز ہم لوگ زمین پر تذکرہ کرتے ہیں، اِتنا خوبصورت تو لاہور کبھی بھی نہ  تھا ہریالی، منظم، سکون اور روشنیوں بھرا شہر ۔۔ اور یہی بات اُس کے سفر کا پہلا سبق بنی، کہ دور سے دیکھا تو اپنا شہر بھی دوسرے خوشحال شہروں کی طرح حسین اور منظم لگ رہا تھا، بس ایک نظر چاہیے تھی جو دھواں اور تعصب کے اُس پار اُس خوبصورتی کو دیکھ سکے جسے ہم شاید دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔  جہاز کے فضا میں  گُم ہوتے ہی عبداللہ یادوں کے جھرمٹ سے نکل آیا، یادوں کے جہاز کو حقیقت کے کنارے لنگر انداز کرنے کے بعد وہ اپنی کُرسی سے اُٹھا اور اپنے بُک ریک کی جانب بڑھا، اُس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے گزرے سال کو الفاظ میں لکھے گا، قلم کا اُٹھنا تھا کہ جیسے یادوں کے بَند کھل گئے۔۔ اُس نے اپنے ڈائری کے صفحے  پر “گمنام سفر “لکھا اور اپنے گزرے سال کو کچھ یوں قلمبند کرنا شروع کیا ۔

میں  نے جب پاکستان سے پڑھنے کے لیے  یوکے آنے کا ارادہ کیا تو مجھے دو طرح کے لوگوں نے اِس سوسائٹی سے متعارف کروایا، ایک وہ لوگ جو مغرب(انگریزوں) سے بہت متاثر تھے، وہ مغرب سے  اور اس قدر تھے  کہ پاکستانی ہونے پر شرمندہ تھے، انہوں نے یوکے کو ایک پاکیزہ گائے بَنا کر پیش کِیا کہ بس جو وہاں ہے وہ سُکھی اور جو پاکستان میں ہے وہ دُکھی۔۔ اور  دوسرے وہ لوگ   تھے جو مغرب سے سخت نفرت کرتے تھے اور  نفرت کا یہ عالم تھا کہ اِن کے پاس آنے والوں کو بھی اتنا اچھا نہیں سمجھتے، اب ایسی صورت میں مجھے دو میں کسی ایک کو تو درست ماننا ہوگا۔۔لیکن جب غیرجانبدار ہو کر معاشرے کے رویے پر پڑھی ایک کتاب کا  فارمولا لگایا جس کے مطابق۔۔۔

کسی بھی معاشرے کی گزری ہوئی زندگی کا اندازہ وہاں کے لوگوں کے سونے اور جاگنے  کے وقت سے لگایا جاسکتا ہے  اور آنے والی  نسل کی کامیابی کا اندازہ معاشرے کے تعلیمی نظام سے لگایا جاسکتا  ہے تو نتیجہ کچھ اور نِکلا ۔۔
فارمولے کے مطابق اگر یہاں کی سوسائٹی کی بات کی جائے تو رات   دَس بجے تک سوناصبح صبح اُٹھنا اپنے کتوں کے ساتھ واک کرنا اور واپس آکر  ناشتہ کرنا اور پھر اپنے کام، سکول اور کالج    جانا، یہاں سارے کام صبح نو بجے شروع ہوتے ہیں اور نو کا مطلب نو، معاشرے کے عمومی رویے کی بات کی جائے تو وقت کے پابند لوگ، ہنستے مسکراتے لوگ، محنتی لوگ، کام کو کام سمجھ کر حق ادا کرنے والے لوگ، چھوٹے چھوٹے لکڑی کے گھروں میں رہنے والے لوگ، قدرت کو پسند کرنے والے اور ہر کام خود سے کرنے والے لوگ۔۔ اِن کی اس طرح کی عادات نے اپنا گرویدا کِیا، لیکن اتنا نہیں کہ خود کو کمتر سمجھا جیسا کہ بہت  سے لوگ  سمجھتے ہیں، لیکن اس معاشرے میں رہتے ہُوئے ان کے روز شب نے ایک گہرے احساس کمتری دیا کہ جو چیز ہمارے مذہب نے ہمیں عین کامیابی کے لیے بتلائی اس کا استعمال کوئی اور کر  کے  ہمیں ہی متاثر کررہا ہے۔۔۔ افسوس

فارمولے کے مطابق جیسے ہی وہ معاشرے کے رویے سے ہٹ کر یہاں کے تعلیمی نظام پر لکھنے لگا تو اُسے اپنا قریبی دوست اُسامہ نصیر یاد آگیا جو ایک ساتھ رہا کرتے تھے، اور وہ دونوں واحد کلاس میں ایسے تھے جنہیں کلاس کے دوران سخت نیند آتی تھی، اور دونوں اس وقت زیادہ الجھن کا شکار ہوتے جب یہاں کے مقامی لوگ دوران کلاس نہ تو تھکے ہوتے نہ ہی وہ کلاس میں سوئے سوئے رہتے، ایک ہم ٹھہرے کہ دل میں یہی خیال رہتا   کب کلاس ختم  ہو تو جا کر سوئیں ۔۔ بہرحال تعلیمی نظام پاکستان کے مقابلے میں  بالکل مختلف ہے، کلاس کے ماحول میں ٹیچر ترجیح دیتے  ہیں کہ اِن کے ساتھ مباحثہ کیا جائے، چیزوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے، جب کہ پاکستان میں ٹیچر سے کسی بھی معاملے پر بات کی جائے تو اُنہیں اپنا  سارا علم خطرے میں محسوس  ہونے لگتا ہے۔۔

تعلیمی سہولیات کی بات کی جائے تو    ان کا کوئی  مقابلہ نہیں، 24/7 لائبریری جہاں آپ کھاپی بھی سکتے  ہیں اور کسی بھی کتاب کو پانچ دن میں فراہم کرنا انتطامیہ کی ذمہ داری ہے اُسے بہت اچھے سے یاد ہے شروع  میں  وہ اور اسامہ  جب بھی   لائبریری میں جاتے تھے تو اپنے لا کالج کی لائبریری یاد کرتے جہاں کتابوں کو تالوں میں رکھا جاتا تھا اور فرنیچر ایسا کہ جو ایک گھنٹہ بیٹھے تو کمر درد لے کر اٹھے، اسی زمرے میں اگر تعلیمی ماحول میں انتخاب کی بات کی جائے تو یہ بات بھی اِس سوسائٹی کی قابل تحسین ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام میں آپ کو کسی بھی میدان کے انتخاب میں گھر، سکول اور معاشرے کا کوئی دباؤ نہیں، طالب علم خود کو جس میدان میں بہتر سمجھے وہاں جاتے ہیں جس سے آج ہر میدان میں اِنہوں نے  بہترین  انسان پیدا کیے ہیں، جبکہ ہماری سوسائٹی میں، امی، ابو، چاچا، تایا، ماما اور اہل  خانہ   مِل کر فیصلہ کرتے  ہیں کہ ہمارا بچہ سائنس پڑھے گا اور بچہ سائنس کے چکر میں چار سال میڑک میں ناکام ہونے کے بعد کسی دکان پر کپڑے بیچ رہا ہوتا ہے۔

انگریزوں نے اپنے تعلیمی اور معاشرتی نظام سے اپنی نَسل کو اِتنا پُر اعتماد بنایا ہے کہ وہ جس بھی فِیلڈ کا انتخاب کرتے ہیں مطمئن اور خوشحال رہتے ہیں ، ہمارے ہاں جب ہمیں احساس ہوتا  ہے کہ ہم کِس کام کے لیے بنے ہیں یا ہمیں کَیا کرنا چاہیےتب تک ہمارے بچے دنیا میں  آچُکے ہوتے ہیں اور پھر وہی ایک سرکل چلتا رہتا۔

یہ تو ہیں اِس معاشرے کی خوبیاں اور جو  بِلاشبہ  ان کی کامیابیوں کی ضامن ہیں ، لیکن حقیقت کے اِس پار  تصویر کا  دوسرا رخُ بھی موجود ہے جہاں ایسے واقعات اور  رویے ہیں جو اِس معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔۔عبداللہ نے جیسے ہی اپنے ساتھ ہونے والے اُن متعصب اور نفرت انگیز واقعات کو یاد کِیا تو   دکھ کی ایسی کاری ضرب لگی کہ اُس نے اپنا قلم بند کردِیا کیونکہ وہ حسین یادوں کے گلدستے میں خراب پھولوں کو نہیں سجانا چاہتا تھا اس لیے اپنی تحریر کو ادھورا چھوڑ کر سونے کے ارادے سے بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply