مسئلہ فلسطین اور امت مسلمہ۔۔زین سہیل وارثی

کرونا کی دوسری لہر دنیا میں آ چکی ہے اور امسال یہ لہر ہمارے پیارے دوست جناب ڈونلڈ ٹرمپ کو شکار کر گئی ہے، جو فرماتے تھے کہ وہ سب سے برے امیدوار کے خلاف انتخابی مہم کا حصہ ہیں اور اگر وہ ہار گئے تو شاید امریکہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں۔ وہ اپنی بات پر کس حد تک پہرہ دیتے ہیں اسکا تو معلوم نہیں امریکی شہریوں نے ان سے جان چھڑوا لی ہے۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے نتائج مکمل ہو چکے ہیں اور بالآخر میاں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی شکست کے نتائج تسلیم کر لئے ہیں اور جوزف بائڈن حکومت سازی پر توجہ دے رہے ہیں۔

میاں ٹرمپ کے سینہ پر کشمیر اور فلسطین کے مسائل کا حل اعزازی تمغہ کی طرح چمکے گا کیوں کہ انھوں نے جس محنت سے تقریبا ان دونوں معاملات کو حل کی طرف دھکیلا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ یروشلم کو دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے، اور تمام عرب ممالک کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ وہ اپنے تایازاد یہودی بھائیوں کو فلسطین اور اسرائیل کا باشندہ تسلیم کر لیں۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، اور اومان نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ سعودی عرب جو ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے خفیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہے بس اعلان باقی ہے۔

اللہ کی مہربانی سے اسرائیل کو اب ایران اور اسکی ذیلی تنظیمیں جن میں حماس اور حزب اللہ پیش پیش ہیں کے علاوہ کسی عرب ملک سے خطرہ نہیں ہے۔ بقول ہمارے استاد محترم یہودی اور مسلمان ایک ہی جوتی کہ دو پاوں تھے جنھیں میاں ڈونلڈ ٹرمپ ایک ہی ڈبہ میں رکھنے میں ایک ساتھ رکھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

مسلمان اور یہودیوں کا یہ اتفاق اس لئے بھی ممکن ہوا ہے کہ مشرق وسطی کی تمام نام نہاد آل اولادوں کو اگر کسی قسم کا خطرہ ہے تو وہ ایرانی انقلاب سے ہے۔ جو تقریبا ہر عرب ملک میں آتش فشاں کی طرح موجود ہے اب یہ لاوہ پھٹنے میں کتنی دیر لگائے گا وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مشرق وسطی میں شیعہ افراد قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں، اگر وہاں ریاستی جبر نا ہو تو یہ انقلاب نا جانے آل سعود، آل صباح، آل الثانی اور آل الخلیفہ کو آل پہلوی کی طرح کب کا بہا کر لے گیا ہو۔

کسی دانشور کی وہ بات نہایت خوبصورت تھی کہ دشمن کا دشمن آپ کا دوست ہوتا ہے، اس لئے نظریہ ضرورت کے تحت عرب اور یہود بھائی چارہ دیکھنے میں نظر آ رہا ہے۔ عرب چاہتے ہیں، کہ اسرائیل سے تجارت ہو جس میں دفاعی مصنوعات اولین ترجیح ہیں کیونکہ یہود علم و فضل میں عرب لوگوں سے افضل ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل بھی ایران کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کر سکتا ہے، جیسا کہ پرانے زمانے میں ایران کا علاج کے لئے عرب ممالک نے ڈاکٹر صدام حسین کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اس علاج معالجہ کی خاطر اسرائیل کو عرب مالک کی فضائی حدود استعمال کرنی پڑیں گی جن کی اب بلا مشروط اجازت دے دی جائے گی اگر کبھی ضرورت پڑی، یہ ضرورت انکل جو کے حکومت میں آنے سے پہلے پڑے گی، کیونکہ انکل جو کے آتے ہی امید ہے کہ ایران کا جوہری معاہدہ جو دنیا کے تمام مقتدر ممالک کے ساتھ ہوا تھا بحال ہو جائے گا، جسے میاں ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر ختم کیا تھا۔

کیونکہ اسلام کی سب سے زیادہ فہم ہمارے ملک کے لوگوں کے پاس ہے اور ہم اسلامی دفاع کے ٹھیکیدار بھی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سنی اکثریتی ملک ہوتے ہوئے بھی ہم یوم القدس مناتے ہیں، حالانکہ ہمارے مرد مومن مرد حق جناب ضیاء الحق مرحوم نے فلسطینیوں کی نسل کشی کی خدمات سرانجام دی تھیں، جب وہ اردن کے محاذ پر امت مسلمہ کا دفاع سرانجام دے رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کے ہمارے مظلوم فلسطینی بھائی ہم پاکستانیوں کی محبت میں گرفتار نہیں ہیں۔ اس وقت ہمارے فلسطینی بھائی اردن کی زمینوں پر قبضہ کر کے ان کو اپنے صہیونی بھائیوں کو بیچنے کی تیاریاں کر رہے تھے، انکی ان تمام امیدوں پر جناب مرد مومن مرد حق نے پانی پھیرا اور بزور شمشیر اردن کا علاقہ واگزار کروایا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے مقتدر لوگ تو چاہتے ہیں کہ یہودی بھائیوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے، اگر یہ نہیں ہو سکتا تو کم از کم خفیہ ملاقاتوں اور محبت بھرے خطوط لکھنے کا سلسلہ ہی شروع کیا جا سکے، کیونکہ ہمارے ملک کے ازلی دشمن بھارت کو قابو کرنے کہ لئے ہمیں بہرحال کسی نا کسی وقت اپنے یہودی بھائیوں کی ضرورت درپیش ہو گی۔ کیونکہ بھارت اسرائیل سے دفاعی مصنوعات خریدتا ہے، اس کا مقابلہ کرنے کہ لئے ہمیں آج نہیں تو کل اپنے یہودی بھائیوں کو دل کی اتاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہنا پڑے گا۔ مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو ہمارا کشمیر کا مسئلہ بہت نازک صورتحال اختیار کر جاتا ہے۔ کیونکہ دونوں جگہ حق خودارادیت کا مسئلہ درپیش ہے۔ اگر آپ ایک سے دستبردار ہوتے ہیں تو دوسرے کہ لئے بھی معاملات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ میری ناقص رائے بطور سیاسی طالبعلم یہ ہے کہ کیونکہ مسئلہ کشمیر ایک قسم کا حل ہو چکا ہے اس لئے پاکستان بھی اعلانیہ نہیں تو خفیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔ حالیہ دنوں میں عوام الناس کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لئے پاکستان اسرائیل دوستی کے راگ بہت سے لوگوں نے الاپنے شروع کر دیئے ہیں جنھیں ذرائع ابلاغ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ وہی موسیقار ہیں جو کسی زمانہ میں امن کی آشا کے سریلے گیت گاتے تھے، اور اس کے بعد کے نتائج ہم سب نے بھگتے ہیں۔ خیر گھبرانے کی بات نہیں مجھے اپنی ایماندار، نیک، خوبرو قیادت پر مکمل بھروسہ ہے کہ وہ کبھی ایسا نہیں ہونے دے گی، مگر ڈر اس بات کا بھی ہے کہ باقی باتوں کی طرح اس پر بھی یوٹرن نا لے لیں۔

Facebook Comments