کمپیوٹر سکریپ میں چھپے خزانوں کی تلاش ۔۔غیور شاہ ترمذی

کوئی 2 مہینے ہوتے ہیں کہ لندن سے ایک دوست کا فون موصول ہوا کہ ایشیاء کی الیکٹرانکس کی سب سے بڑی مارکیٹ ہال روڈ سے ملنے والے کمپیوٹر سکریپ میں خریداری کے لئے مدد چاہئے۔ میں نے ہال روڈ پر موجود اپنے دیرینہ دوستوں سے اس معاملہ میں مدد مانگی تو انکشاف ہوا کہ لاہور اور کراچی میں کمپیوٹر سکریپ ایک الگ دنیا بسی ہوئی ہے- خاموشی سے ہوتے ہوئے اس الیکٹرانک کچرہ بزنس میں اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے- جس سے منسلک لوگ چپ چاپ طریقہ سے اسے نہایت منظم انداز میں اس طرح کر رہے ہیں کہ نہ تو حکومتی ٹیکس اہلکاروں کو اس کی خبر ہوتی ہے اور نہ ہی عام آدمی یہ جان سکتا ہے کہ اس کاروبار میں کتنا پیسہ انوالو ہے اور کیسے انوالو ہے؟-

پاکستان میں ملنے والے کمپیوٹر سکریپ کا زیادہ تر حصہ بیرون ملک سے درآمد ہونے والے  کمپیوٹر سکریپ پر مشتمل ہے- جن ممالک سے یہ کمپیوٹر سکریپ پاکستان میں آ رہا ہے ان میں کینیڈا، امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی، چین اور دوبئی شامل ہیں- بیرون ممالک سے آنے والے کمپیوٹر سکریپ کے علاوہ پاکستان میں مقامی طور پر پرآنے اور ناکارہ ہو جانے والے کمپیوٹر اور ان کے پارٹس بھی اس سکریپ کا حصہ بنتے ہیں لیکن اس کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتی ہے-

بیرونی ممالک سے آنے والا کمپیوٹر سکریپ 2 طرح کا ہوتا ہے- اچھا سکریپ اسے کہا جاتا ہے جس میں 50٪ سے 60٪ تک آنے والا مال چالو حالت میں ہوتا ہے یا تھوڑی بہت مرمت کے بعد قابل استعمال ہوتا ہے- اس مال میں ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کے علاوہ لیپ ٹاپ، پرنٹرز بمعہ سکینر اور آفس فوٹو کاپی مشینیں بھی شامل ہوتی ہیں- اس کھیپ کے ساتھ جو مال قابل استعمال نہیں ہوتا، اس میں سے جو پارٹس استعمال کے قابل ہوتے ہیں، انہیں نکلوا کر مارکیٹ میں فروخت کے لئے پیش کر دیا جاتا ہے- پھر جو بچا کھچا مال ملتا ہے اسے ہی سکریپ کی نذر کیا جاتا ہے-

استعمال ہونے کے بعد پھینک دی جانے والی الیکٹرانک اور کمپیوٹر اشیاء کا یہ کچرا اس وقت دنیا میں بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ کچرا بہت خطرناک اور زہریلا بھی ہوتا ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سنہ 2020ء تک دنیا نے تقریباً سوا 5 کروڑ ٹن الیکٹرانک کچرا پیدا کر لیا ہو گا اور یہ کچرا ہر سال تقریباً 3٪ سے 4٪ کی رفتار سے بڑھ رہا ہے- ماحولیات سے متعلق اداروں کی نظر میں اس الیکٹرانک اور کمپیوٹر کچرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سے زیادہ تر الیکٹرانک کچرا ری سائیکلنگ کے لئے نہیں پہنچ پاتا بلکہ صرف 20٪ الیکٹرانک اشیاء ہی ری سائیکل کی جاتی ہیں- باقی اشیاء کو لوگ گھر میں رکھ کر بھول جاتے ہیں یا یوں ہی کہیں پھینک دیتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک عادت بھی ہے۔ جب یہ الیکٹرانک کچرا باہر کھلے میدانوں میں پھینک دیا جاتا ہے تو یہ مٹی اور پانی کو بھی زہریلا بنا دیتا ہے۔

حیران کن سوال یہ ہے کہ بالکل بھی قابل استعمال نہ ہو سکنے والے اس الیکٹرانک اور کمپیوٹر کچرے میں آخر ایسا کیا ہوتا ہے کہ یہ بھی فروخت ہو جاتا ہے اور کون لوگ اس کے خریدار ہوتے ہیں؟- دراصل الیکٹرانک اور کمپیوٹر کچرے والے مال کے خریدار 2 طرح کے لوگ ہیں- ایک وہ جو بیرون ملک خصوصاََ افریقی ممالک میں اسے برآمد کر دیتے ہیں اور دوسرے لاہور کے مقامی گولڈ مارکیٹ میں ورکشاپ والے جیولرز! جی ہاں، آپ درست پڑھ رہے ہیں- جس طرح آپ یہ پڑھتے ہوئے حیران ہیں کہ بالکل ناکارہ کمپیوٹر پارٹس کو سونے کے زیورات بنانے والے خریدتے ہیں بالکل ویسے ہی میں یہ جان کر حیران ہوا تھا- آپ کا تجسس ختم کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ الیکٹرانک اور کمپیوٹر کچرے بشمول ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر وغیرہ سے سونے، تانبے، اور ایلومینیم جیسی قیمتی دھاتیں حاصل کی جاتی ہیں مگر انہیں نکالنا اتنا آسان نہیں ہے- ایسا کرنے کے لئے پورا ایک مرحلہ مکمل کیا جاتا ہے- سب سے پہلے کمپیوٹر سکریپ کے تمام پارٹس کو علیحدہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں 7 مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے سونے، چاندی اور دوسری دھاتوں کو حاصل کیا جاتا ہے-

پہلے مرحلہ میں کمپیوٹر کیس کی طرف سے کھولا جاتا ہے- کمپیوٹر کو عام طور پر کمپیوٹر کے پیچھے سے تیز کرنے کے پیچ کو تلاش کر کے انہیں ایک سکریو ڈرائیور یا بجلی کی ڈرل کے ذریعہ کھولا جاتا ہے- عام طور پر نئے ماڈل کمپیوٹرز کو پرانے کمپیوٹر کی نسبت کھولنا آسان ہوتا ہے-

دوسرے مرحلہ میں کمپیوٹر کیس کھولتے ہی اس میں موجود تاروں کو کاٹا جاتا ہے- اس عمل کو آسان بنانے کے لئے ان تاروں کو بولٹ کٹر استعمال کئے جاتے ہیں- یاد رہے کہ کچھ تاریں سونے کی ملمع کاری کئے ہوئے ہوتی ہیں لہذا ان تاروں کو کاٹتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ سونے کی ملمع کاری والا حصہ ہی ضائع نہ ہو جائے-

تیسرے مرحلہ میں ریم (Ram) اور سی سی یو کو باہر نکالا جاتا ہے- ریم عام طور پر چھوٹے پلاسٹک کے ٹیب کے اختتام پر محفوظ ہوتا ہے- جبکہ سی پی یو میں ایک چھوٹا سا پھول سوئچ ہے جس کو کھولنے کے لئے احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے- اس میں ایک پٹا بھی ہوتا ہے جس میں سی پی یو کمپیوٹر میں پیدا ہونے والی گرمی خارج کرتا ہے.

چوتھے مرحلہ چار میں مدر بورڈ (mother board) سے پی سی آئی کو لینے کے لئے اسے کھینچ لیا جاتا ہے- بعض اوقات پی سی آئی اور مدر بورڈ کے ساتھ ایک یا زیادہ پیچ لگے ہوتے ہیں جنہیں تلاش کر کے کھول لیا جاتا ہے- پی سی آئی بورڈز دراصل سونے کی ملمع شدہ انگلیوں کی طرح ہیں جنہیں کاٹ کر فروخت کیا جاتا ہے-

پانچویں مرحلہ میں مدر بورڈ، پاور سپلائی، ہارڈ ڈرائیو اور ہارڈ ڈسکس کو باہر نکال لیا جاتا ہے- ان تمام اجزاء کو باہر نکالنے کے لئے بجلی کے ڈرل یا سکریو ڈرائیور کا استعمال کیا جاتا ہے- ہارڈ ڈرائیو، ہارڈ ڈسک اور بجلی کی فراہمی کرنے والی لائن کو بھی نکالنے کے لئے تمام سکریوز کھول لئے جاتے ہیں-

چھٹے مرحلہ میں کمپیوٹر کے ان تمام حصوں سے مختلف دھاتوں کی شناخت کر کے انہیں علیحدہ علیحدہ کر لیا جاتا ہے- کمپیوٹر میں موجود کولنگ فین کے نیچے ایلومینیم کا بڑا حصہ ملتا ہے- خالص تانبہ (کاپر) کولنگ فین کی موٹرز سے ملتا ہے-

ساتویں مرحلہ میں جب تمام دھاتیں جمع ہو جائیں تو Motherboards، ریمز، سی پی یوز، پی سی آئیز، سونے کی ملمع شدہ انگلیوں اور سونے کے ملمع شدہ دوسرے حصوں کو بھی حاصل کر سکتے ہیں-

Advertisements
julia rana solicitors

دراصل یہ سو فیصد سچی بات ہے۔ صرف کمپیوٹر ہی نہیں بلکہ اس طرح کے تمام ایسے الیکٹرانک آلات میں سونے اور چاندی کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے- اگر سونے کی کسی کان (gold mines) میں سے 3 سے 4 گرام سونا نکالنا ہو تو تقریباً ایک ٹن کچی دھات کو چھاننا پڑتا ہے۔ تاہم موبائل فون، ٹیبلیٹ، ڈیسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ جیسے آلات کے ایک ٹن الیکٹرانک کچرے سے تقریباً 350 گرام سونا نکالا جا سکتا ہے- یہی وجہ ہے کہ کمپیوٹر کچرے کی فروخت کا کاروبار پاکستان میں بہت تیزی سے جاری ہے اور شاید اسی وجہ سے افریقہ میں بھی اسے برآمد کیا جاتا ہے- اسی لئے اس کچرے کو اب لاہور اور کراچی میں بھی بیش قیمتی دھاتوں کی کان (mines) کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے کیونکہ یہ الیکٹرانک اور کمپیوٹر کچرا سونے، کاپر ایلومنیم اور دوسری ان جیسی مہنگی دھاتوں کا ذخیرہ بھی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply