ایک ادھوری نشست۔۔عمر فاروق خان

کل  1:30 پر کھانا کھاتے  وقت فیس بک کھولی تو انعام رانا کی پوسٹ دیکھی کہ  وہ  آج دن 2 بجےایبٹ آباد چائے خانہ میں میزبان ہوتے ہوئے بھی بطور مہمان دعوت عام دے رہے ہیں ۔
تو کھانا ادھورا چھوڑ کر چائے خانہ جانے کی تیاری شروع کر دی ۔ بیگم جی سے کہا کہ میرے فیس بک کے دوست انعام رانا صاحب انگلینڈ سے آئے ہوئے  ہیں ،انہوں نے چائے خانہ مدعو کیا ہے۔
بلیک جینز بلیک کوٹ پہنتے ہی بیگم صاحبہ بولیں، تیاریاں تو کسی رانا کی بجائے   رانی سے ملاقات والی لگ رہی ہیں ۔انہیں رانا صاحب کی پوسٹ دکھا کر مطمئن کیا کہ واقعی  رانا صاحب سے ہی ملنے جا رہا ہوں ۔
چونکہ ایبٹ آباد میں آج کل روڈ کنسٹرکشن کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے تو بجائے گاڑی میں جانے کے  گھر سے پیدل ہی چائے خانہ پہنچا ، کاوئنٹر پر رانا صاحب کی آمد کا پوچھا تو ویٹر نے کہا کہ ابھی تک نہیں پہنچے ۔

رانا صاحب کو کال کی تو انہوں نے کہا کہ چائے خانہ کے سامنے ہی ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں ۔
تھوڑی ہی دیر میں رانا صاحب   اپنی بیگم صاحبہ   کے ساتھ آ گئے ۔
ڈاکٹر اجمل محمود صاحب اور ڈاکٹر منیر عباسی صاحب نے رانا صاحب کو خوش آمدید کہا ۔
ہال میں داخل ہوتے ہی نظر کمیل بھائی پر پڑی جو وہاں انتظار کر رہےتھے۔

نشست کا آغاز باہمی تعارف سے ہوا اور ڈاکٹر منیر عباسی نے  خود کو پلمونالوجسٹ کی حیثیت سے متعارف کرایا، تو گفتگوکی شروعات ہی کرونا سے ہوئی۔
کیسے کرونا کی لہر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا اور حکومتی نا اہلی ،کرونا پر سازشی تھیوری اور لوگوں کی توہمات کا ذکر ہوا۔

رانا صاحب اپنی ایبٹ آباد کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بولے کہ آخری مرتبہ 2003 میں جب ایبٹ آباد آیا تھا تو یہ ایک چھوٹا سا حسین شہر تھا اور اب یہ شہر آبادی کے لحاظ سے بہت پھیل گیا ہے اور ٹریفک بھی بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔اور رانا صاحب کے والد کی خواہش تھی کہ وہ ایک گھر ایبٹ آباد میں بناتے ۔

گھر کی بات سے محکمہ زراعت زیر بحث آیا کہ انہوں نے آدھا ایبٹ آباد اپنے پاس رکھا ہوا ہے نہیں تو آبادی سے ایبٹ  آباد میں خالی جگہ کوئی نظر نہیں آتی ۔
محکمہ زراعت کے  سویلین معاملات پر مداخلت بارے بحث  کے دوران یہ بات بھی درمیان میں آئی   کہ ان کو سویلین معاملات سے کیسے نکالا جائے، تو رانا صاحب نے اس پر کہا کہ لیفٹ ہی یہ کام کر سکتے  ہیں ، مگر ہمارے لیفٹ منافقت یا اقلیت کی وجہ سے   ابھی تک ایسا نہیں کر سکے ۔

لیفٹ کی غلطیوں ،کمی اور کوتاہیوں میں بات سیداحمد شہید تک جاپہنچی اور سید احمد کی انگریزوں کے بجائے سکھوں کے خلاف تلوار اٹھانا بھی گفتگو کا حصہ بنا ۔
جس پر رانا صاحب اور ڈاکٹر عباسی کے درمیان بہترین مکالمہ ہوا اور سید احمد شہید پر گفتگو میں بہت سوال  جواب  ہوئے ۔

اس دوران سیک سیمینار اور مکالمہ سیمینار زیر بحث آئے اور فیس بک کا شکریہ ادا کیا کہ اتنے بہترین دوست دیئے اور ہم تو رانا صاحب کے شکر گزار ہوئے کہ انکی وجہ سے وہ دوست جو ایبٹ آباد میں تھے ان سے بالمشافہ ملاقات ہوئی۔

اس دوران رانا صاحب شکوہ کرتے نظر آئے کہ میرا ہر بار اس طرز کے سیمینار  کا دل ہوتا ہے مگر پاکستانی صرف وہاں اکھٹے ہوتے ہیں جہاں پیٹ پوجا ہو۔اتنے ساروں کوسیمینار میں کھانا کھلانےسے اچھا ہے کہ اپنی تیسری شادی کیوں نہ کرلوں۔

یہ بات سچ ہے کہ ہم لوگ میلاد اور عرس میں بھی اس شرط پر شرکت کرتے ہیں  کہ وہاں لنگر   ہو گا اور اشتہاروں کے کونوں میں بھی لنگر شریف کا خصوصی ذکر ہوتا ہے جس میلاد وعرس میں لنگر   نہ ہو وہاں بس صرف مولوی اور انتظامیہ ہی محفل کی رونق ہوتے ہیں ۔

گفتگو کے درمیاں اسلامی نظام اور اسلامک ہسٹری بھی زیر بحث آئے ،اسلام کے پھیلنے میں جہاد ،تجارت ، اور روحانی سلسلوں پر بھی کھل کے بات ہوئی ۔
برصغیر میں اسلام کے پھیلاؤ میں اولیاء کرام کی خدمات اور ان تمام اولیاء کرام کی افغانستان سے آمد پر سیر حاصل گفتگو ہوئی ۔
ڈاکٹر منیر عباسی نے افغانستان کی تاریخ پر کمال گفتگو کی۔
اس دوران چائے اور کافی سے تمام مہمانوں کی تواضع کی گئی۔

چائے کے دوران کمیل بھائی نے ایبٹ آباد میں سیاحت پر ایک سیمینا  کرنے کی تجویز پیش کی جس کی سب نے تائید کی ۔
میں نے بھی ایک سوال کیا کہ ہمیں تاریخ میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے ہر مذہب، ہر فرقے کی اپنی اپنی تاریخ ہے اور ہر کوئی اپنی تاریخ کو سچ سمجھتا ہے ۔
بجائے تاریخ اور ماضی پر بات کرنے کے  ہم کیوں آج کے مسائل اور حالات پر بات  نہیں کرتے ۔

جواب میں ڈاکٹر منیر عباسی نے کہا کہ ہمارے پاس مکالمہ یا بحث کرنے کیلئے بہت محدود ٹاپکس ہیں ۔
جہاں بھی کوئی نشست ہوتی ہے اس میں ہم ماضی ، تاریخ ، فرقے اور اُن واقعات  کا ذکر کرتے ہیں جن کے ساتھ ہمارا تعلق ہی نہیں جن کا ذکر کرنے سے وہ واقعات واپس نہیں ہو سکتے ۔
رانا صاحب کی تاریخ پر بات کرنے کے دوران ہی نماز عصر کی  اذان شروع ہوئی اور  اذان کے ختم ہوتے ہی ڈاکٹر منیر عباسی اور ڈاکٹر اجمل صاحب نے کلینک ٹائم کی وجہ سے رخصت کی اجازت چاہی اور یوں ایک حسین نشست جو وقت کی قلت کی وجہ سے اس شرط پر برخاست ہوئی کہ یہ ادھوری نشست ان شا ءاللہ ایک بار پھر ایبٹ آباد میں ایک سیمینار کی شکل میں جمے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں سب نے رانا صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنے قیمتی شیڈول  سے  وقت نکالا اور ہم سب کو  جمع  کیا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply