نو عمری سے جڑی ایک اور یاد دھندلا گئی۔۔عبداللہ رحمانی

عبدالقادر حسن خدا کے حضور حاضر ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ خدا غفار ان کی کامل بخشش فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر کی توفیق بخشے۔ آمین۔

آپ کے کالم ایک طویل عرصے تک قارئین کو دام سحر میں گرفتار کئے رکھا،ساٹھ کی دہائی سے انہوں نے کالم نگاری کا سفر شروع کیا اور اپنے کالموں کا عنوان ”سیاسی باتیں“ رکھا۔ بعد ازاں مارشل لاء دور میں جب سیاسی کالم نگاری پر قدغنیں لگائی گئیں تو انہوں نے عنوان بدل کر ”غیر سیاسی باتیں“ کر دیا۔ ابتدا میں روزنامہ نوائے وقت سے وابستہ رہے، بعد میں روزنامہ ایکسپریس سے منسلک ہو گئے جو تعلق  تادم مرگ برقرار رہا۔

اوائل عمری میں جب انسان کی مطالعاتی زندگی کی بنیاد پڑ۔  رہی ہوتی ہے، تب بچوں کے ناول اور کہانیاں ہی ہماری اس بھوک کا مداوا کرتی تھیں۔ اشتیاق احمد مرحوم کے جاسوسی ناولوں پر پڑاؤ ڈالنے سے پہلے، ٹارزن، عمرو عیار اور ہرکولیس کی کہانیاں ہی شوق مطالعہ کو مہمیز دیتی تھیں۔ پھر بعد میں بچوں کے رسائل اور اخبارات کے مختلف دلچسپ سلسلے وقتاً فوقتاً پڑھتے رہے۔

اخبارات میں سے روزنامہ جنگ، روزنامہ اسلام، روزنامہ امت اور کبھی کبھار ایکسپریس ہماری دادی کے ہاں آیا کرتے تھے، جن میں شہ سرخیوں سے زیادہ پڑھنے کا کبھی شوق شاذ و نادر ہی ہوا کرتا تھا۔ البتہ اتنا یاد ہے کہ روزنامہ جنگ اور ایکسپریس میں کھیلوں کا صفحہ ہماری دلچسپی کا سامان رکھتا تھا اور اس میں سرخیوں سے لے کر خبروں کی مکمل رپورٹ کو چاٹ جایا کرتا تھا۔ اس صفحے کے علاوہ اخبار کے چیدہ چیدہ حصوں کو بھی ٹٹولتا تو جو تحریر یا کالم پسند آجاتی اور ہماری سطح کے مطابق ہوتی، تو اس کو بھی پڑھ لیا کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یادش بخیر! باقی تفصیلات کا یہاں ذکر کرنا مقصود نہیں۔
مختلف اخبارات کی وقت گردانی کرتے ہوئے، کالموں کا صفحہ بہت زیادہ خشک معلوم ہوتا تھا۔ انہی دنوں چند کالم نگار حضرات کے کالمز اپنے رواں اسلوب کے باوصف ہمیں کھینچ لیتے تھے۔ جناب حامد میر، جناب عطاء الحق قاسمی، جاوید چودھری، عامر ہاشم خاکوانی وغیرہم کے کالم اس نو عمری کے دور میں بھی پڑھنے میں مزا آتا تھا اور اسی سے رفتہ رفتہ ہمارے مواد مطالعہ کا معیار بلند ہونا شروع ہوا۔ انہی سلسلوں میں سے ایک سلسلہ روزنامہ ایکسپریس میں عبدالقادر حسن مرحوم کا سلسلہ بنام ”غیر سیاسی باتیں“ تھا۔ ان کے کالمز ہمیشہ شگفتگی اور روانی اپنے اندر لئے ہوئے ہوتے تھے، اسی وجہ سے ان کا کالم بہت ذوق و شوق سے پڑھتے تھے، اور کچھ سالوں تک تو ایکسپریس اخبار ان کے اور چند دوسرے کالمز کا مطالعہ کرنے کیلئے دیکھا کرتے تھے۔
بچپن کی یادیں بعد میں لوٹ کر آتی ہیں تو بہت ستاتی ہیں۔ کل جب اچانک سے ان کی وفات کی خبر سنی تو دل میں ہوک اٹھی اور نو عمری سے وابستہ یاد تازہ ہو گئی۔
بلاشبہ عبدالقادر حسن مرحوم کا میری مطالعاتی زندگی میں ہمیشہ حصہ رہے گا اور ان کی یاد میرے لڑکپن کی حسین ترین یادوں میں تازہ رہے گی۔
اللهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ

Facebook Comments