محترمہ
مریم نواز شریف۔ یکم دسمبر2020
نائب صدر پاکستان مسلم لیگ (ن)
جاتی امراءرائے ونڈ،لاہور
السلام علیکم
میں اعظم معراج تحریک شناخت کا ایک رضا کار ہوں۔یہ فکری تحریک پاکستانی مسیحیوں کی دھرتی سے نسبت آزادی ہند، قیام تعمیر و دفاع پاکستان میں ان کے اجداد اور موجودہ نسلوں کے شاندار کردار کے ذریعے مسیحیوں کی پاکستانی معاشرے میں قابل فخر شناخت کو اجاگر کرنے کی تحریک ہے اس تحریک کی بنیاداس خیال پر ہے کہ کوئی فرد یا کمیونٹی کسی بھی ایسے معاشرے میں ترقی نہیں کر سکتے ہیں جسے وہ جانتے نہ ہوں نہ اپنا مانتے ہوں۔ لہٰذا پاکستانی مسیحیو! معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمہیں اپنے آباءکی سرزمین پر درپیش حالات دستیاب موقعوں ا پنی کمزوریوں اور توانائیوں کے صحیح تخمینے کے ساتھ دھرتی سے اپنی نسبت اور اپنی اس شاندار شناخت کی وراثت کو جان کر اس معاشرے میں فخر اورشان سے جینا ہے گو کہ حالات واقعات اور رویے بعض اوقات امتحان لیتے ہیں ان سے دل برداشتہ ہو کر اپنی اس قابل فخر شناخت کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔
اس تحریک کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے دیگر اقدامات مثلاً نوجوانوں اور مذہبی، سماجی، سیاسی کارکنوں سے فکری نشستیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں اسی اجتماعی خود آگاہی، خود شناسی کے ساتھ خود انحصاری کو اپنانے پر زور دیا جاتا ہے ان فکری نشستوں میں اس سبق کودوہرایا جاتا ہے کہ کہ تم اس دھرتی کے بچے ہو آزادی کی جنگ میں تمہارے اجداد قائد کے ہمراہی تھے، تم وطن کے سپاہی ہو، قوم کے معمار ہو، قابل فخر، قابل دید ہو، محافظ غازی اور شہید ہو، شہداءکے وارث ہو، حیدران کے ساتھی ہو، ھلال جرات کے استعارے ہو، جرآت کے ستارے ہو، بسالت کے نشان ہو، اور سب سے بڑھ کر اس سبز و سفید پرچم کی شان ہو، لہٰذا پاکستانی مسیحیو ! دھرتی سے اپنی نسبت اپنے اس ورثے اور شان، پہچان اور شناخت کو اپنی روحوں میں ا±تار لو اور اپنے آباءکی سرزمین پرفخر سے جیو۔ نیز اس مقصد کے حصول کے لئے میں نے گیارہ کتب بھی لکھی ہیں۔
دھرتی جائے کیوں پرائے؟ شناخت نامہ سبزوسفید ہلالی پرچم کے محافظ وشہدائ شہدائے،وطن شان سبزو سفید چوبیس چراغ حیدران کے مسیحی ساتھی افواج پاکستان کے مقامی مسیحی جرنیل کئی خط اِک متن اسٹوری آف ٹو لیٹر پاکستان کے مسیحی معما
ر
ان کتب میں بھی مسیحیوں کی اسی شناخت کو اجاگر کرنے کے ساتھ پاکستانی مسیحیوں کو پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل دستیاب موقعوں اور ان کی کمزوریوں کے ساتھ توانائیوں کو بھی حقائق اور اعدادو شمار کے ساتھ ا±جاگر کیا ہے۔اس فکری تحریک کا نہ کوئی مذہبی، سیاسی ایجنڈا ہے اور نہ ہی یہ کوئی این جی او ہے۔یہ صرف اجتماعی خود شناسی کی ایک آگاہی مہم ہے اور اس تحریک کا کوئی انتظامی ڈھانچہ بھی نہیں دنیا بھر میں پھیلے اس کے رضا کار اس فکر کو اپنی سماجی، معاشرتی و معاشی حیثیت کے مطابق پھیلانے میں اس یقین سے حصہ لیتے ہیں۔کہ یہ فکری تحریک پاکستانی مسیحیو ں کے لئے پاکستانی معاشرے میں فکری، شعوری،تعلیمی،معاشی،سماجی، معاشرتی،علمی ،تہذیبی،مذہیی اور سیاسی ترقی کی راہیں ہموار کرے گی۔ میری روزی روٹی رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے آتی ہے اور میں بھی اس تحریک کا ایک رضا کار ہوں۔اس مختصر تعارف کے بعد میں آپ کی توجہ غیر مسلمان پاکستانیوں کو درپیش ایک اہم مسئلے کی طرف دلاوانا چاہتا ہوں گو کہ غیر مسلمان پاکستانیوں کے مسائل کسی بھی طرح دیگر پاکستانیوں سے علیحدہ نہیں لیکن کچھ مسئلے ایسے ہیں جن کا تعلق براہ راست مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے ہے۔ انہی میں سے ایک مسئلہ غیر مسلم پاکستانی شہریوں پر پچھلے ستر سالوں میں تھوپے گئے مختلف انتخابی نظام ہیں۔ گو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ غیر مسلمان پاکستانی شہری ہزاروں سال سے اس دھرتی کے بچے ہیںِ آزادی ہند کے سپاہی ،قیام پاکستان میں قائد کے ہمراہی تعمیر وتشکیل پاکستان کے معمار دفاع وطن میں غازی،محافظ اورشہیدبھی ہیں۔ لیکن دھرتی کے ان غیر مسلم بچوں پر مذہب کے نام پر پچھلے ستر سالوں میں ایسے سیاسی انتخابی نظام تھوپے گئے ہیں۔جو کسی بھی طرح کسی ریاست کے آزاد شہری ہونے کے بنیادی انسانی حقوق کی نفی کرتے ہیں اسی طرح آئین پاکستان کی کئی شقیں غیر مسلم پاکستانی شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی نفی کرتی ہیں۔لیکن غیر مسلم پاکستانی شہری بھی ریاست اور حکومتوں کی کمزوریوں اور نظریہ ضرورت کی اہمیت کی بدولت ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ لیکن جس مسئلے کو میں اپنے اس خط میں اجاگر کرنا چارہا ہوں , وہ صرف متعلقہ ذمہ دار اداروں اورآپ جیسی دیگر شخصیات کی ذرا سی توجہ سے حل ہو سکتا ہے۔
اس کے لئے میں ”غیر مسلمان پاکستانیوں کے سیاسی ا لمیے کا مقدمہ “ نامی کتابچے کی 3 سندھی کاپیاں، سندھ سے آپ کی اعلیٰ قیادت کی صوابدیدی سفارش پر غیر مسلم پاکستانیوں کی شناخت پر ممبران قومی اسمبلی ڈاکٹر درشن ، جناب کیسومل خیل داس اور اردو کی 8کاپیاں مسیحیوں اور سکھوں کی شناخت پر چار ایم پی ایز اور ایک سینیٹر صاحب کے لئے بھیج رہا ہوں گوکہ میں براہ راست بھی غیر مسلم پاکستانیوں کی شناخت پر سینیٹ، قومی وصوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے خواتین و احضرات تک یہ کتابچہ پہنچا چکا ہوں۔
لیکن اگر آپ کے ذریعے یہ دستاویز آپ کے ان سیاسی ورکروں تک پہنچے گی تو یقیناان کی برادریوں میں آپ کی دلچسپی ان کے لئے باعث افتخار ہو گی۔۔اس کتابچے میں، میں نے اپنے تیئں پاکستان کے غیر مسلم شہریوں پر پچھلے ستر سالوں میں تھوپے گئے انتخابی نظام کا جائزہ بھی لیا ہے اور ماضی اور حال کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کے لئے اس مسلے کا حل بھی پیش کیا ہے۔ میں نے یہ کتابچہ اردو میں لکھا پھر اسے سندھی اور انگریزی میں ترجمہ بھی کروایا ۔ اور پھر اسے بطورغیر مسلم پاکستانیوں کے نام کھلا خط کے پاکستان بھر میں عام غیر مسلم پاکستانیوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ میرا مقصد سب سے پہلے غیر مسلمان پاکستانیوں کو اس مسئلے کی آگاہی دینا تھا لیکن ہمارے سیاسی نظام کا یہ جمہوری المیہ ہے۔ کہ یہ تقریباً 79لاکھ پاکستانی چاہے جتنے مرضی اپنے مسائل سے آگاہی حاصل کر لیں، لیکن جب تک آپ اور آپ کے ساتھ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین ان بدنصیب پاکستانیوں کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچیں گے،اس مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا۔ جس طرح آج کل آپ نے ووٹ کو عزت دینے کی آگاہی مہم شروع کی ہوئی ہے۔اس مہم میں اگر اپ اپنے وقت کاپاکستان میں اقلیتوں کی آبادی کے تناسب سے چار فیصد بھی دیں، تو ان تقریبا ً 79 لاکھ پاکستانی شہریوں کے ووٹوں کو بھی عزت مل جائے گی۔ کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ جس طرح 73سال میں وطن عزیز نے کئی انقلابات دیکھے لیکن آج تک یہ79لاکھ غیرمسلم دھرتی کے سپوت کسی بھی انتخابی نظام سے مطمئن نہ ہو سکے۔ اس میں یقنیا ان کی اپنی کوتاہیوں کا بھی ہاتھ ہے۔لیکن آپ جیسے سیاسی اشرافیہ کے نمائندے اس المیے کے زیادہ ذمدار ہیں۔ کیونکہ ریاستی ادارے آپ لوگوں کے اخیتار میں زیادہ رہے ہیں۔ لہٰذا خدشہ ہے کہ اگر ووٹ کو عزت مل بھی گئی تو یہ 79لاکھ پھر بھی کہیں ماضی کی طرح اس عزت سے محروم ہی نہ رہ جائیں۔ میں نے یہ کتابچہ حکومتی اتحادی پارٹیوں پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، پی ایم ایل ق ، بی اے پی، جی ڈی اے ، اے ایم ایل ، بی این پی، ڈبلیو پی اور حزب اختلاف کی جماعتوں پی ایم ایل ن ، پی پی پی، جے یو آئی ، جماعت اسلامی، اے این پی سمیت سب کو بھیج رہا ہوں۔اب دیکھتے ہیںِ اس ملک کے تقریباً79 لاکھ غیر مسلم پاکستانی شہریوں جو کہ ووٹوں کی صورت میں تقریباً 37 لاکھ بنتے ہیں۔ اور پاکستان کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں ،ان کے اس سیاسی و جمہوری المیے کے سدباب کے لئے کون پہل کرتا ہے،بظاہر یہ بے ضرر سی پہل ہو گی، لیکن اس کے اثرات بہت دور رس ہوں گے، جس کے مثبت ثمرات پہل کرنے والی سیاسی جماعت کو ہی حاصل ہوں گے اور وہ اس کا کریڈٹ حال کے علاو¿ہ مستقبل میں بھی لیتی رہے گی۔ کیوں کہ اس مسئلے کے حل سے غیر مسلمان پاکستانیوں کے نوے فیصد مسائل کے حل کا اختیار ان کے اپنے ہاتھوں میں چلا جائے گا اور میں سمجھتا ہوں اس سے بڑی جمہوریت کی کوئی خدمت ہو نہیں سکتی۔ کیونکہ آج کی ترقی کی دنیا میں کسی بھی قوم کی ترقی کے اعشاریوں میں اس بات کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے کہ اس ملک وقوم کی اقلیتیں،بچے اور خواتین کے حقوق کو کس قدر اہمیت دی جاتی ہے۔ اس طرح دوہرے ووٹ کی قرار داد کو تیاری کے ساتھ پیش کرنے والی سیاسی جماعت قومی و بین الاقوامی سطح پر بہت نیک نامی کما سکتی ہے۔ اور قومی سطح پرپاکستان کی غیر مسلم تقریباً 79لاکھ آبادی 2017ءکی افراد شماری کے مطابق اور تقریباً37لاکھ ووٹ جو کہ پاکستان کے ہر حلقے میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہ ووٹ بہت ساری قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس قرار داد کی تیاری کے لئے ہماری کسی مشاورت کی ضرورت ہو تو تحریک شناخت کے رضا کار اسکے لئے حاضر ہیں۔ویسے اس مسلے کو سمجھنے کے لئے اب کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ۔اب بس اس مسلے کے ثمرات سیمٹنے کے لئے پہل کی ضرورت ہے اور پہل کے لئے صرف سیاسی نیت ( پولیٹیکل ول) کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی میں آپ کو دعوت بھی دیتا ہوںکہ آپ بھی اس فکری تحریک میں بطور رضا کار شامل ہو کر اس تحریک کے پیغام کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ آپ کے اس تحریک میں بطورِ رضا کار شامل ہونے سے ہمیں اس تحریک کا پیغام سرعت سے پھیلا نے میں مدد ملے گی کیونکہ بطور ایک قومی سطح کے لیڈر آپ کے کہے کے اثرات قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہوتے ہیں اور فکری تحریکوں کے نظریات کو پھیلانے کے لئے جذبے جنون کے ساتھ وسائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور آپ کی ذات اس تحریک کے لئے ایک اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے اور یہ فکر کیونکہ استحکام پاکستان کی ہے لہٰذا آپ پاکستان کے لئے مختص وقت اور آپ کے وسائل میں سے کچھ اس فکر کوپھیلانے میں بھی ضرور لگنے چاہیے۔
اس فکری تحریک کے پیغام کے پھیلنے سے جہاں پاکستانی مسیحیوں کو عزم و حوصلہ ملتاہے۔ وہی اس پیغام کے پھیلنے سے پاکستانی قوم میں بین المذاہب و معاشرتی اور سماجی ہم آہنگی بھی پیدا ہوتی ہے۔ جس سے قومیں مضبوط اور مستحکم ہوتی ہیں اور اندرونی طور پر مضبوط قومیں ہی اقوام عالم میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ استحکام پاکستان کے لئے اس ادنیٰ سی کوشش میں بھی اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔
میں آپ سے بطور نائب صدر پاکستان مسلم لیگ (ن)اس کتابچے پر فوری رائے اور جواب کی توقع رکھتا ہوں۔
کیونکہ یہ بدنیصب دھرتی کے بچے بھی پاکستانی ہیں۔اور انکے ووٹوں کو بھی عزت دینے کا اہتمام ہونا چاہیے۔مزے کے بات ہے۔ان کے ووٹوں کو عزت آپ بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان اور عمران خان ایک بے ضرر سی آئینی ترمیم سے دے سکتے ہیں۔کوئی بڑی جدو جہد کی ضرورت نہیں بس آدھے گھنٹے کے وقت کی سرمایہ کاری اس کتابچے کو پڑھنے کی ہے۔ وہ بھی آپ کے مشیر بھی پڑھ کر آپ کو مرکزی خیال بتا سکتے ہیں۔ بس ادارک کی ضرورت ہے کہ یہ کتنا بڑا ظلم ہے۔ میں آپ کے بطور پاکستانی شہری تحریک شناخت میں بطور رضا کار شامل ہونے کی دعوت پر بھی آپ کے مثبت جواب کا منتظر رہوں گا۔
امید ہے آپ اس خط کو اسی سیاق و سباق سے پڑھیں اور سمجھیں گی جس میں یہ تحریر کیا گیا ہے۔
والسلام
اعظم معراج
رضا کار تحریک شناخت
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں