سوال اک سویٹر کا ۔۔رعنا اختر

سکول اسمبلی مکمل ہو چکی تھی وہ اپنا رجسٹر تھامے کلاس کی طرف نکل چکی تھی اچانک اس کی نظر ایک گیارہ سالہ بچی پہ پڑی ، جسے اسمبلی گراؤنڈ میں ایک سائیڈ پہ کھڑا کیا گیا تھا ، ساتھ اور بھی دو تین بچیاں موجود تھیں ۔ نا چاہتے ہوئے بھی اس کے قدم رک گئے تھے ، بچی صاف ستھرے یونیفارم میں ملبوس تھی اس کے چہرے سے معصومیت جھلک رہی تھی سر کو سکارف سے ڈھانپے وہ خاصی پیاری لگ رہی تھی ۔ اس نے بچی کو پاس بلا کر پوچھا آپ کو کس وجہ سے اسمبلی گراؤنڈ میں کھڑا کیا گیا ہے ؟؟؟ تو بچی نے معصومیت سے جواب دیتے ہوئے کہا ٹیچر جی میں نے سکول کے یونیفارم کا سویٹر نہیں پہنا ہوا ناں کل امی نے دھویا تھا اور وہ سوکھ نہیں سکا تھا ۔ یہ الفاظ سنتے ہی وہ سکتے میں آ گئی ، جیسے کسی نے ہتھوڑے سے سر پہ وار کیا ہو دماغ چکرا کر رہ گیا رنگت فق پڑ گئی اس سوال نے اسے اپنے ماضی میں جھانکنے پہ مجبور کر دیا ۔

اماں آج پھر سویٹر نہیں پہنا آج پھر سکول مانیٹر مجھے اسمبلی ہال میں کھڑا کرے گی اور ٹیچر آتے ہی ڈنڈے برسائے گی ، ماں اس سوال سے پریشان ہوئی پتر کچھ نہیں ہوتا اپنی استانی سے کہہ دینا سویٹر سوکھ نہیں پایا تھا اس لیے میں پہن کر نہیں آئی ۔ اماں وہ کسی کی نہیں سنتی، تم مجھے سویٹر لا دو ناں ، منہ بسورے ہوئے اماں سے ضد کرنے لگی ۔ماں سوائے ٹالنے کے اور کیا کر سکتی تھی ٹھیک ہے پتر لا دوں گی سویٹر جاؤ ، اب سکول جاؤ ۔۔۔

اسمبلی ہال میں دعا کے لیے کھڑے وہ مسلسل تھوک نگل رہی تھی کیونکہ مانیٹر بچیوں کے یونیفارم کی چیکنگ شروع کر چکی تھی ۔ وہ لڑکیوں کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی جب ایک مانیٹر نے اسے دیکھ لیا ۔۔۔

باہر نکلو ، کیوں چھپ رہی ہو ،تم نے سکول یونیفارم کا سویٹر کیوں نہیں پہنا ہوا ۔اس نے اسے باہر نکالتے ہوئے کہا ۔ میرا سویٹر دھونے والا تھا اس نے تھوک نگلتے ہوئے کہا جیسے اس کا جھوٹ وہ جانتی ہو ۔ اچھا تو تمہاری امی وقت پہ دھو نہیں سکتی تھیں  ، دھویا تھا پر سردی کی وجہ سے سوکھ نہیں پایا ۔

ڈر کے مارے اتنی سردی ہونے کے باوجود اس کے ہاتھوں پہ پسینہ آ رہا تھا ہتھیلیاں آپس میں ملتی جا رہی تھی یہ سوچتے ہوئے کہ آج پھر مار پڑ جائے گی ۔

آجکل تو کپڑے سکھانے کی مشین بھی موجود ہیں ۔ نہیں ، ہمارے گھر ایسی کوئی مشین نہیں ہے بچی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ، تم جھوٹ بول رہی ہو ۔۔۔ ابھی ٹیچر آ کر ، تمہارے ہاتھ ڈنڈے سے لال کریں گی اور پھر سارا دن سردی میں کھڑی رہو گی کل خود ہی سویٹر پہن کہ آؤ گی ،ساتھ میں جرمانہ بھی ادا کرو  گی ۔۔۔۔ یہ سنتے ہی اس بچی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، ٹیچر کے آنے سے اس کی جان جاتے ہوئے دکھائی دی ۔ استانی نے یونیفارم نامکمل ہونے کی وجہ پوچھی ،اس نے وہی وجہ بتائی جو وہ پہلے مانیٹر کو بتا چکی تھی ، لیکن استانی صاحبہ نے اس کی بات نہ مانی، پہلے تو معصوم سے ہاتھوں پہ ڈنڈے برسائے ، پھر اسے اسمبلی ہال میں سردی میں ایک گھنٹہ کے لیے کھڑا کر دیا گیا ۔۔۔کافی دیر سردی میں کھڑے رہنے کے بعد اسے کلاس میں جانے کی اجازت مل گئی ۔ کلاس میں جاتے ہی ٹیچر نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی ۔۔۔ ساتھ ہی لڑکیوں نے کھسر پھسر کرنا شروع کر دی جیسے وہ اس کا مذاق اڑا رہی ہوں ۔

لیکن وہ ان سب سے لاپروا ہو کر اپنی کتابیں کھول کے بیٹھ گئی سکول سے چھٹی ہوئی ۔گھر جاتے ہی اس کا ضبط ٹوٹ گیا ، اپنی ماں سے لگ کے خوب روئی اماں مجھے سکول سویٹر کیوں نہیں لا دیتیں۔۔۔ اماں ہر بار اس سوال سے نظریں پھیر لیتی تھی ۔

کیونکہ بمشکل   اس کے سکول کا خرچہ چل رہا تھا گھر میں اور بھی بچے پڑھتے تھے ۔ باپ کی بے اعتنائی نے بچوں کو اپنی شفقت سے محروم کر رکھا تھا صرف وہ اپنی دھن میں مگن رہتا سب کچھ ہونے کے باوجود بچیوں کے لیے اس کے پاس کچھ نہ تھا ۔

ماں محنت مزدوری کر کے گھر کو چلا رہی تھی دال روٹی کے لیے اتنی مشکل ہوتی تھی کہ اسے سویٹر کون لاکر دیتا ۔۔؟

ماں اسے ہر بار یہ کہہ کہ ٹال دیتی تھی کل بازار جا کر تمہیں سویٹر لا دوں گی ۔ وہ بھی اس بات سے مطمئن ہو جاتی ، لیکن ” وہ کل اس کی زندگی میں کبھی نہ آئی  “۔۔

وہ باپ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کرتی تو باپ پہلے تو گھورتا رہتا پھر یہی جواب دیتا ” تمہاری ماں مر گئی ہے کیا ” جو تمہارے خرچے نہیں اٹھا سکتی ، اس سوال نے اسے اتنا تھکا دیا تھا کہ وہ باپ سے دوری برتنے پہ اکتفا کرتی تھی ۔

ماں کی محنت تھی اور اس کی لگن جیسے تیسے کر کے اس نے اپنی پڑھائی مکمل کی تو خدا نے ایسا کرم کیا کہ اسے ایک سرکاری سکول میں ملازمت مل گئی ۔ بچپن جیسے تیسے گزر گیا لیکن اب اس کی قسمت نے اس کے دن پھیر دئیے تھے ۔ اسے ایک مقام مل چکا تھا اسکی محنت نے اسے ایک نام دے دیا تھا ۔

جونہی اس نے اپنے مقام کو پایا اس نے ایک بات اپنے پلو سے باندھ لی تھی ۔

” کہ اس کی زندگی میں کبھی کوئی بچی سکول یونیفارم کے سویٹر سے محروم نہیں ہو گی ”

اچانک وہ پیچھے سے مس زبیدہ کی آواز سے چونک پڑی ، چند لمحوں نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا ۔ وہ بچی کی کلاس اور اس کا نام پوچھ کہ اپنی کلاس کی طرف چل پڑی ۔

سارا دن بے چینی میں گزرا اسے ایک پل کے لیے چین نہیں مل رہا تھا ۔ ہر پل اس سردی میں کھڑی بچی کا خیال رہا اس بچی کے روپ میں اسے اپنا ماضی کھائے جا رہا تھا ۔۔۔۔” اسے کوئی سویٹر لا کہ دینے والا نہیں تھا ، پوری سردی اس کی یونہی گزر گئی ہر بار ایک نیا بہانہ یوں وہ سکول اسمبلی میں جانے سے گریز کرنے لگی تھی ماں چاہ کر بھی اس کے لیے کچھ نہ کر سکی تھی ، سکول بیل پہ وہ سوچوں کے سمندر سے نکلی ۔۔۔ دل میں ارادہ کیا کہ آج کے بعد یہ بچی سکول اسمبلی میں سزا کے لیے کھڑی نہیں ہو گی ۔ سکول سے نکلتے ہی اس نے مارکیٹ کا رُخ کیا اور سکول یونیفارم کے تقریباً سو سویٹرز کا آرڈر دے کر گھر کی طرف روانہ ہو گئی ۔

” رات کروٹوں میں کٹی جب تک وہ اس ماضی کی بچی کو سزا سے نہ بچا لیتی اسے کیسے چین پڑتا ” ۔۔۔۔ اگلے دن جب وہ سکول پہنچی تو اس کے نام کا پارسل پہلے ہی آ چکا تھا جس میں ہر سائز کے سوئیٹر موجود تھے ۔ اس نے سکول کی ہیڈ سے اجازت لیتے ہی تمام سویٹرز مستحق بچیوں میں بانٹ کر سکون کا سانس لیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

” یوں اس نے ایک بچی کو یونیفارم کا سویٹر نہ ہونے کی وجہ سے روز سکول اسمبلی کے گراؤنڈ میں کھڑا ہونے سے بچا لیا “۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply