موروثی سیاست،میراثی سیادت اور فوجا حوالدار …. احمد رضوان

پاکستان میں اگر سیاستدان اپنی سیاسی وراثت اگلی نسل کو منتقل کرتے ہیں تو کیا برا کرتے ہیں ؟  ڈاکٹر، وکیل، صحافی،انجینئر اور دیگر تمام پیشوں سے وابستہ لوگوں کی اولاد اگرانہیں  وراثتی طور پر اختیار کرتی ہے تو سیاست دانوں نے کون سا قصور کردیا ہے ؟ ہم لوگ بھی تو اپنی سیاسی وابستگی کو اپنی نسلوں میں دانستہ یا نادانستہ طور پر پروان چڑھاتے ہیں وہ بھی اس وقت جب وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مکمل غیر جانبداری سے فیصلہ کرنے کے قابل نہ ہوں ۔ ایمان سے گریبان میں جھانک کر دیکھئے ، اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہوگی جن کو یہ تقلید ورثے میں ملی ۔عصبیت عصبی ہو، غصبی ہو،کسبی ہو، سیاسی ہو، گروہی ہو ،قبائلی ہو،عائلی ہو، سائلی ہو، فاعلی ہو، مفعولی ہو یا معمولی ہو ،عصبیت ہی کہلاتی ہے چاہے اسے کتنا بھی ملفوف کرنے کی کوشش کی جائے ، انسان اس عصبیت کی گرفت سے کبھی بھی، کہیں بھی آزاد نہیں ہے ۔

بچپن میں  اپنے بڑے بزرگوں کو جو بظاہرکسی سیاسی جماعت کےباقاعدہ تو دوربےقاعدہ رکن بھی نہیں تھے  مگر  سیاسی ہمدردی یا وابستگی رکھتے تھے۔وہ جب  کسی شخصیت یا پارٹی کی بابت  بات کرتے تھے تو جس دھڑے یا پلڑے میں وہ اپنا وزن ڈالتے تھے وہی ہمارا بھی اصولی موقف ٹھہرتا تھا۔ در ایں حالانکہ سب سیاست دان، ”سیاست اصولی کی بجائے وصولی” کے مقولہ پر محکم یقین  کرکے عمل پیہم رہا کرتے تھے اور آج بھی ہیں۔ اسی طرح  جو بزرگوں سے گھر پر سن کر آتے،محلے کے یاروں ،سکول کے ہم مکتب سنگی ساتھیوں کے ساتھ،سیاست پر منہ ماری ہوتی اور اپنا  اپنا اصولی موقف درست ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا۔ بات دلیل کی بجائے ذلیل کرنے تک پہنچ جاتی اور اپنا بابا اوپر رکھنے کے چکروں میں بحث ذاتی کردار پر حملوں اور فحش گفتار جملوں پر منتج ہوتی۔

سیاست میں اولیں یادیں جو اوائل بچپن کی ہیں وہ بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف تحریک نظام مصطفیٰ (ص)کی ہے ۔ یہ بتاتے ہوئے چنداں مضائقہ نہیں کہ سارا خاندان ہمیشہ سے مسلم لیگ کا دم بھرتا رہا ہے خواہ وہ فنکشنل مسلم لیگ ہو یا نان فنکشنل ہو۔یہ گروہ سیاستداناں بھی اپنی ماہیت میں مجھے سیال مادے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ جس برتن میں ڈال دو،پگھل کر اسی سانچے میں ڈھل کر ڈھلمل یقین کے ساتھ کھانچے اور  سیاسی خوانچے تک رسائی پا لیتا ہے۔بچپن کی  منڈلی کے پانچ پیاروں میں سے  قبلہ شاہ صاحب اور جگر بھٹی کٹر جیالے تھے جبکہ میں،میرا عم ذاد اور جَگت چاچا  قاسم ، لپا ڈگی میں اپنے بڑوں کے زیر اثر متوالے تھے ۔شاہ صاحب اور بھٹی کو یہ سیاسی میراث بزرگان کی دین کے ساتھ ساتھ والدین کی طرف سے عطا ہوئی تھی ۔ تب فرقے اور سیاسی گروہ کو چھوڑنے والا کافر ،زندیق اور قابل گردن زدنی ٹھہرتا تھا ۔ الیکشن کے دنوں میں تو گہما گہمی اپنے عروج پر ہوتی ۔ روزانہ کی بنیاد پر حلقائی سے ہلکائی ہوئی سیاست پر خوب خوب طعن و تشنیع کی جاتی ۔ ہر روز سیاستدان کوئی متنازع بیان داغ دیتے اور خود اپنی باتوں پر ردعمل کا جواز فراہم کرتے ۔ بدلا تو اب بھی کچھ نہیں ہے حتی کہ جو تبدیلی کا نعرہ مستانہ لگا کر لیلائے اقتدار کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے ہیں وہ بھی کان نمک ہوکر رہ گئے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

موروثی سیاست برصغیر میں کسی مقامی  اثر و نفوذ سے پیدا ہونے والی  صورتحال کا نتیجہ نہیں ہے۔چند مستثنیات کو چھوڑ کر ساری سیاسی جماعتوں کا ایک ہی وطیرہ ہے۔ آپ یورپ ، امریکہ، کینیڈا اور دنیا بھر میں  اس کی مثالیں بہت آسانی سے ڈھونڈ سکتے ہیں ۔ برما کی آن سانگ سوچی ہوں، ہندوستان کی اندار گاندھی ہوں ، بنگلہ دیش کی حسینہ واجد ہوں ، پاکستان کی محترمہ بینظیر بھٹو ہوں ،ان سب میں قدر مشترک ان کے والد کا وزیر اعظم ہونا اور پھر ان سب کا وزیر اعظم بننا ہے ۔ سیاست دان کے بیٹے/بیٹی کا سیاست میں آنا کوئی معیوب بات نہیں ہے ۔ اس کے بعد وہ سیاستدان جو خود تو وزرائے اعظم کی گدی پر پہنچ گئے اور اب ان کی اولاد اس تگ و دو میں ہے کہ وہ  بھی کسی طرح اس منصب کو پالے۔ کوئی بھی جماعت ہو  چاہے  چوہدری شجاعت ہوں،اسفندیار ہوں ،اچک اچک کر کرسی پر بیٹھنے والے اچکزئی ہوں، تہتر کے آئین کے تناظر والے مولانا ہوں، ماٹو سب کا ایک ہی ہے ۔  سب کا ایک ہی فنڈا ہے   سب سے اونچا ہماراجھنڈا ہے  ہاں اس  میں ڈنڈا  فوجے حوالدار کا ہے ۔ڈنڈے سے مار کھانے ، سڑکوں پر  آنے  جیلیں بھرنے تک  غریب عوام ،کارکن اور حمایتی  جبکہ تخت نشینی کے لئے لیے باپ کی جگہ بیٹا یا بیٹی۔ طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ وہ نام نہاد دانشوران جو ساری عمر کسی  نہ کسی ازم کے سحر میں مبتلا رہے اور جب جب اس  ازم  کی عظمت کا بت پاش پاش ہواتواپنا ٹھیہ ، ٹھیکا  اور ٹھمکا بدل کر  کسی اور کی بغل میں جاگھسے ۔ لطیفہ نما واقعہ مشہور ہے کہ سیاسی جماعت کاحکومت بنانے کے بعد کابینہ کا پہلا بند کمرے میں اجلاس جاری تھا کہ دروازے پر کھڑے دربان کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ اس  نے کمرے میں موجود اکثریتی سیاستدانوں کی سابقہ جماعت کا نعرہ لگا دیا  تو  اکثر  ارکان یک زبان ہو کر اسی جماعت کے نعرے لگانے لگے  ۔غلطی کا احساس  ہونے پر ایکدم خیال آیا کہ وہ تو وفاداریاں بدل کر دوسری جماعت میں شامل ہو چکے ہیں  تو فوراً معذرت خواہ  ہوگئے۔ان میں سے ایک سینئر لیڈر صاحب بولے ”سب خیر ہے،کوئی بات نہیں، انجانے میں  ایسا ہوجایا کرتا ہے ۔ یہ سب  سیاست دان اپنے سیاسی استھانوں اور تھانوں کی سیاست کے بادشاہ ہیں  ۔ کبھی کبھی مگر سُتا ہوا بھٹی اور بھٹو بے وقت جاگ  جایا کرتا ہے کیونکہ یہ صرف  ہلکی پھلکی نیند سوتے ہیں مرتے کبھی نہیں۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply