• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

صاحبِ نہج البلاغہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے منسوب ایک قولِ بلاغت ہے، مفہوم جس کا یوں ہے کہ دنیا تمہیں برا سمجھے جبکہ باطن میں تم اچھے ہو‘ یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ دنیا تمہیں اچھا سمجھے جبکہ باطن میں تم برے ہو۔ فقر میں یہ قول بابِ ملامت کی توجیہہ ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ ایک مردِ درویش ہمارے پڑوس سے رخصت ہوگیا اور اُس کی زندگی میں اُس کے مقام کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ میڈیا ئی حلقے اس کا تمسخر ہی اڑاتے رہے۔ سنی سنائی بات سننے اور کرنے والے اُس کے اندازِ تکلم پر ہی کلام کرتے رہے۔ ظاہر پرستوں کا حال ہر دَور میں یہی ہوتا ہے ، کسی فقیر درویش قلندر خدامست کی اِس دنیا سے دمِ واپسی با حسرت و یاس یہ کہتے نظر آتے ہیں ٗ ہمیں پہلے معلوم ہوتا تو اُن سے شرفِ ملاقات ہی کر لیتے۔ اُن کے جنازے کا حجم اور ہجوم ۔۔۔۔ بلکہ ہجوم ِ عاشقاں اُس دنیا میں ان کی پذیرائی کا اندازہ بھی دیتا ہے اور اِ س دنیا میں خلق ِ خدا کے دلوں میں اُن کی وسعت ِ حکمرانی کا بھی۔ کسی نے کسی کو نہیں بلایا، جس نے بلایا تھا اُس کا حکم دلوں پر چلتا ہے۔ پس مرگ مقبولیت صداقت کی بے بدل دلیل بھی ہوا کرتی ہے۔ بہت کم لوگوں کو اُن کی زندگی میں اندازہ ہو سکا کہ خادم حسین… حسین ؑکا سچا خادم تھا۔۔۔۔ خادم حسین ٗ دراصل خادمِ دین تھا۔ اہلِ ظاہر بھی دیکھ لیں ٗ اس قدر پُراژدھام جنازہ ایک عوامی ریفرینڈم ہے… یہ ایک ریفرینڈم ہے کہ اس ملک کے عوام حرمت ِ رسولؐ اور ختمِ نبوتؐ کے معاملے میں کس قدر حساس ہیں۔ یہ اندرونی اور بیرونی عناصر کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ مملکتِ خدا داد پاکستان کے عوام ناموسِ رسالتؐ اور ختم نبوتؐ ایسے حساس معاملے پر کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ اُن کے لیے ایمان اور کفر ہی کا معاملہ نہیں ٗبلکہ زندگی اور موت کا معاملہ بھی ہے۔
اب دنیا ڈھونڈے ‘ وھیل چیئرپر بیٹھے اُس جسمانی معذوربابے کو ۔۔۔ جس نے فکری معذوروں کو بابِ عشق کا سبک خرام راستہ دکھا دیا۔ ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والا اعوان قبیلے کا یہ سپوت کسی مصلحت اور سیاست سے بے نیاز اپنی دھن میں ایک ہی نعرے پر پہرہ دیتا رہا۔ وہ نعرہ جو دین کی اساس ہے۔ ہم محمدیؐ ہیں اور عشقِ محمدﷺ ہمارا دین ہے۔ “فداک روحی اُمّی و ابی یا رسول اللہ”۔۔۔۔ ہمارا کلمہ و ایمان ہی نہیں ٗ لائحۂ عمل بھی ہے۔ ہمارا دین مکمل ہی اُس وقت ہوتا ہے جب سرکارِ دو عالم ﷺ کی اس حدیث پاک پر ہم پورے اتریں ” تم میں سے کسی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا ٗجب تک میں اُس کے نزدیک اس کی جان ،مال اور اولاد سے بڑھ کر عزیز نہ ہوجاؤں” اگر اِس حدیثِ پاک پر غور کر لیا جائے تو عشق ِ مصطفیٰ ؐکے حوالے سے لائحۂ فکر و عمل مکمل طور پر واضح ہو جاتا ہے۔ ہمارا دین عشقِ ذاتِ محمدﷺ سے شروع ہوتا ہے اور اسی ذاتِ والا صفات پہ وارفتگی پر ختم ہو جاتا ہے۔ “لاالہ الااللہ” پر کسی کو کسی سے کوئی تعرض نہیں، اصل دین تو “محمد رسول اللہ” سے شروع ہوتا ہے۔’’ محمد ابنِ عبداللہ‘‘ کی حد تک ہر غیر مذہب کاسلیم الفطرت انسان آپؐ کی ذاتِ بابرکات کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔ کفار ِ مکہ بھی صادق اور امین تسلیم کرتے تھے۔ گویا غیر بھی صفت کی تعریف کرنےپر مجبور ہیں ، اپنوں کی یہ پہچان کہ اپنے ذات کو تسلیم کرتے ہیں اور ذات پر دل و جان پر فدا ہوتے ہیں۔ “محمد رسول اللہ” کا عنوان دراصل خالق اور مخلوق کے درمیان واحد واسطہ اور وسیلہ ہونے کا اعلان ہے۔ شارع کی حیثیت سے شاہراہ ِ حیات پر اصول و کلیات کا تعین ذاتِ محمدی ؐ متعین کرتی ہے۔ اب تاقیامت تمام انسانوں کے لیے اور ہر زمانے کے لیے حُجّتِ قطعی “محمد رسول اللہ” ہیں۔
اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ کے مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے علّامہ خادم حسین اپنے نام کے ساتھ رضوی لکھتے تھے …”ر” پر زبر کے ساتھ۔ مختلف مسالک دراصل مختلف مکاتبِ فکر ہیں۔ یہ دین کو سمجھنے کے مختلف شعوری درجے ہیں۔ مکاتبِ فکر میں اختلاف اگر افتراق میں تبدیل نہ ہو ٗ تو فکری اختلاف باعث ِ رحمت ہے، وگرنہ سراسر زحمت! اختلاف صرف برداشت کے ساتھ رحمت ہوتا ہے، عدم برداشت اسے زحمت میں بدل دیتی ہے۔ اختلافِ فکر ایک فطری عمل ہے اور فکر کی نمو کے لیے ضروری بھی ہے۔ فکری اختلاف دراصل فہم کے نئے زاویے کھولتا ہے۔ نزولی حقیقت جب صعودی عقول کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو لامحالہ اِس میں اختلاف پیدا ہوتا ہے، اِس سے نکلنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ براہِ راست نقطۂ نزول کی طرف رجوع کیا جائے لیکن یہ باطنی طریقت کا نکتہ ہوگا۔ باطن کی حقیقت سمجھنے کا راستہ خود باطن ہی ہوتا ہے۔۔۔۔ سُبک ، پُرخطر ۔۔۔لیکن خطا سے پاک!! ظاہر میں موجود آلاتِ سمع و بصر سے باطن سمجھنے کی کوشش بس ایک فکری کوشش ہے اور فکری کوشش ایک بشری عمل ہے، اور بشرکسی حال میں خطا کے خطرسے پاک نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف اور صرف معصومیت و عصمت کا جہان ہے ‘جہاں فطرت کا انعکاس بلاکم و کاست ہوتا ہے ۔
تمہید ہمیشہ طولانی کر دیتا ہوں، آج کا کالم دراصل ایک حاضری ہے۔۔۔ قلمی حاضری۔ ایک مردِ درویش اور سچے عاشقِ رسولؐ کی نمازِ جنازہ میں حاضر نہ ہو سکاٗ بوجوہ ناسازی طبع… اس لیے ضروری سمجھا کہ اپنی قلمی حاضری لگوا لی جائے تاکہ عاقبت کے لیے کچھ زادِ راہ میسر آسکے۔ اگرچہ تعداد صداقت کا معیار نہیں لیکن دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ آخرہ یہ تعداد کن افراد پر مشتمل ہے۔ اگر کلمہ گو ایک بڑی تعداد میں نکل کر کسی کے حق میں کلمۂ خیر کہہ دیں، تو یہ زبانِ خلق نہیں بلکہ نقارہ خدا ہے۔ خادم حسین رضویؒ کے طریقِ تکلم اور طریقہ کار سے اختلاف ہو ٗ تو ہو لیکن اُن کے مقصد پر کسی کو کوئی اختلاف نہ تھا۔ اپنے مقصد سے غیر متزلزل وابستگی اس معذور شخص کا طرۂ امتیاز تھا جس نے اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا۔ استقامت کے اس کوہِ گراں کے جنازے میں لاکھوں کی تعداد میں خلقِ خدا کا اُمڈ آنا ایک درجۂ قبولیت ہے۔ سنا ہے‘ شہرِ لاہور نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ دیکھا ہے۔ پس مرگ اِن کے مسلک کے مخالفین بھی اِن کے حق میں غیر مشروط کلمۂ خیر کہے بغیر نہ رہ سکے۔ اِس شخص نے ناموسِ رسالتؐ پر اس وقت پہرہ دیا جب لوگ شش و پنچ میں مبتلا تھے۔ کہتے ہیں‘ علامہ صاحب شدت پسند تھے ، وہ شدت پسند صرف محبت میں تھے۔ محبت میں شدت کا نام عشق ہے اورعشقِ نبیؐ ہی دین کا معیار ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک نعتیہ شعر ہے
دین کیا ہے عشقِ احمدؐ کے سوا
دین کا بس اک یہی معیار ہے
خادم حسین رضویؒ اس معیار پر پورے اترے۔ عشقِ رسولؐ کا تقاضا حرمتِ رسولؐ اور ختمِ نبوتؐ پر غیر مشروط پہرہ دینا ہے، اور یہ فقیر تمام عمر اِس مشن پر ڈٹا رہا۔
ملامت کی گلی سے گزرنا اخلاص کا امتحان ہوتا ہے۔ علامہ خادم حسین رضویؒ اخلاص کے اس امتحان پر بھی پورے اترے۔ ایک اعلیٰ پائے کے عالمِ دین ، عربی گرامر اور علم الحدیث کے بہترین ماہر اِس شخص نے محض ایک عالمِ دین ہونے کا پروٹوکول بھی کبھی وصول نہ کیا۔ عربی کے اساتذہ کہتے ہیں کہ عربی دانی میں نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ عربی اور فارسی دونوں پر عبور تھا۔ کلامِ اقبالؒ گویا حفظ کر رکھاتھا۔ انداز عوامی تھا‘ اس لیے عوام الناس اُن کے علمی قد کاٹھ سے آگاہ نہ ہو سکے۔ میری نظر میں وہ ایک ملامتی فقیر تھا، جس کا بھید اُس کے جانے کے بعد کھلا۔
حضرت علی ہجویری الجلابی المعروف داتا گنج بخشؒ اپنی شہرۂ آفاق کتاب “کشف المحجوب” میں حضرت ذوالنون مصریؒ کی بابت لکھتے ہیں کہ اہلِ مصر آپ ؒکے حال اور جمال سے بے خبر تھے، جس رات آپؒ کا وصال ہوا ٗاسی رات شہر میں ستّر اولیا نے خواب میں سرکارِ دوعالمؐ کی زیارت کی۔ عوام الناس کو جناب ذوالنون مصریؒ کی قدر ومنزلت سے آگاہ کرنے کے لیے حق تعالیٰ نے ایک جھنڈ کی صورت میں پرندے بھیج دیے جوآپؒ کے جنازے پر‘ پَر سے پَر ملا کر سایہ کر رہے تھے۔ اگر بادلوں کا سایہ ہوتا تو لوگ اسے قدرتی واقعہ سمجھ لیتے۔
اِس عاشقِ رسولؐ نے صرف محبت کا دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ اِس دعوے کو ثابت بھی کر کے دکھا دیا۔ وہ عاشقِ صادق تھا۔ لاکھوں مریدین و معتقدین کی موجودگی میں ڈیڑھ مرلے کے گھر میں قیام کرنے والا اور سوکھی روٹی پر اچار کی پھانک رکھ کر کھانے والا یہ درویش عشق و محبت کا ایک نیا معیار قائم کر گیا۔ راہِ عشق و وفا میں مالی و معاشرتی مفاد کی طلب ٗ صداقت کی نفی ہے۔
اِس وقت میں علامہ صاحب کے اندازِ تکلم پر کلام نہیں کروں گا۔۔۔۔ ہمارے بابا جی واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ جب کسی کو قبول کر لیا جاتا ہے تو اُس کو تمام خامیوں سمیت قبول کیا جاتا ہے۔ عزت خدائی رازوں میں سے ایک راز ہے۔ خدا جب کسی کو عزت دیتا ہے تو مخلوق کے دلوں میں اس کی محبت نافذ کر دیتا ہے۔
ع خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

Facebook Comments