سیاست عجیب کھیل ہے، اس میں ہر روز نیا موقف اپنا پڑتا ہے۔ یہاں کوئی چیز طے شدہ نہیں سمجھی جاتی، نام کے ضابطے ہوتے ہیں بس۔ جیسے ہی تھوڑا سا پریشر آیا، ہر چیز پر کمپرومائز کر لیا جاتا ہے۔ ہمارا ضرورت سے زیادہ آزاد میڈیا سیاستدانوں کو ان کے سابقہ کلپس دکھا دکھا کر پریشان بلکہ ہراساں کرتا رہتا ہے، مگر انہوں نے بھی اب میڈیا کو سنبھالنا سیکھ لیا ہے۔ اب یوٹرن کو حکمت عملی اور بیانات کو الیکشن کمپین کے خوبصورت عناوین دے دیئے جاتے ہیں۔ سیاست کی اپنی حرکیات ہیں، اس میں چھوٹی سی غلطی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ عمران خان صاحب نے الیکشن دھاندلی کو ایشو بنایا، جب اس کا شور تھما تو پانامہ لیکس کی کہانیوں پر اٹھے اور جب تک نواز شریف کی حکومت سمجھ پاتی اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہ گیم کافی حد تک تبدیل کرچکے تھے۔
بہت عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا، غالباً ڈیرہ اسماعیل خان میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا جلسہ تھا اور وہاں پی پی کافی کمزور تھی، اس کے لیے بڑا جلسہ کرنا کافی مشکل تھا اور چھوٹا جلسہ پی پی کے لیے بڑا دھچکا ہوتا۔ ایسے میں پی پی کے ایک خیر خواہ جو علاقے کے پولیس افسر تھے، ان کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ان سے کہا گیا کہ جیسے ہی پی پی کے لوگ جلسہ گاہ میں جمع ہوں، آپ ان پر لاٹھی چارج کریں، گرفتاریاں کریں اور جلسے کو اکھیڑ کر رکھ دیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جلسہ درہم برہم ہوگیا، مگر پی پی چھا گئی، کیونکہ دوسرے دن کے سارے اخبارات پولیس کی ظالمانہ کارروائی سے پر تھے۔ کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ لوگ کتنے تھے؟ ہر جگہ پولیس کی کارروائی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔ پی پی نے جو حاصل کرنا چاہتی تھی، اس نے بڑی آسانی سے حاصل کر لیا۔
اگر قارئین کو یاد ہو تو عمران خان صاحب نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف بڑے مارچ کا اعلان کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ میں ایک لاکھ موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ اسلام آباد آوں گا۔ لاہور میں غلط حکمت عملی اور فقط اعلانات کرنے کی وجہ سے جب راوی پل کراس کیا تو ان کے ساتھ چند سو موٹر سائیکل سوار تھے اور میڈیا اسے ناکام قرار دے رہا تھا۔ ان کا یہ مارچ جیسے ہی مسلم لیگ کے گڑھ گجرانوالہ پہنچا، وہاں پر عمران خان صاحب پر انڈوں سے حملہ کیا گیا، یہ مسلم لیگیوں کی سب سے بڑی حماقت تھی۔ اس حملے کے ساتھ ہی پورا میڈیا پی ٹی آئی کا ہمددر بن کر نون لیگ پر حملہ آور ہوگیا۔ اب لوگوں کی شرکت اور ایک لاکھ موٹر سائیکل سواروں کی کوئی بات نہیں ہو رہی تھی، ہر طرف سے مسلم لیگ نون کی مذمت ہو رہی تھی۔ افرادی اعتبار سے ناکام مارچ سیاسی حرکیات کے اصول کی مخالفت سے ایک کامیاب ترین مارچ میں تبدیل ہوگیا۔
سیاست کا حسن یہ ہوتا ہے کہ اس میں مقابل کی بات کو سنا جاتا ہے، پسند نہ بھی ہو تو بھی اس کو مناسب جگہ دینا پڑتی ہے، پورے نظام میں ان کو حصہ دار بنانا پڑتا ہے۔ اس کا کچھ مظاہرہ آصف زرداری کے دور میں ہوا، جب محترم طاہرالقادری صاحب انقلابی مارچ کے ساتھ اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے تھے تو انہیں سیاسی انداز میں ڈیل کیا گیا۔ شرکاء کے لیے واش رومز اور پینے کے پانی تک کا انتظام کر دیا گیا، سیاسی بیان بازی کے باوجود ان کے اسلام آباد پہنچتے ہی سیاسی رہنماوں کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کیے گئے اور ان کی کچھ مان کر زیادہ تر دلاسے دے کر انہیں روانہ کر دیا گیا۔ یوں بغیر کسی جانی و مالی نقصان کے محض بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کرکے ایک بڑے مظاہرے کو کنٹرول کر لیا گیا۔
اسی طرح کا مارچ مسلم لیگ کی حکومت میں ایک لمبے دھرنے کی بنیاد بن گیا اور اسے ماڈل ٹاون واقعے سے جذباتیت ملتی رہی اور آخر یہی دھرنے اور نامناسب ردعمل مسلم لیگ نون کے بڑے ووٹ بنک کو کاٹنے میں کامیاب ہوگیا۔ اگرچہ وہ ووٹ طاہرالقادری صاحب کو بھی نہیں ملا اور عمران خان صاحب کو اس سے بڑا فائدہ ہوا۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اپوزیشن نے سیاسی حرکت پیدا کرکے اپنی ساکھ کو بچانے کی کوشش شروع کی ہے۔ وہ الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں، وہ آہستہ آہستہ عمران خان صاحب کے کیے وعدوں پر ہی ان کو نیچا دکھا رہے ہیں۔ آدھی مدت گزر چکی ہے اور باقی بھی بڑی تیزی سے گزر رہی ہے۔ الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی کی حکومت پر ڈنٹ ڈالنا اس پورے احتجاج کا مقصد ہے، یعنی جو کچھ عمران خان صاحب کر رہے تھے، وہی اب اپوزیشن کر رہی ہے۔
اس سب کو ہنڈل کرنے کی بہترین حکمت عملی کھلی آزادی کی ہے کہ اپوزیشن جہاں جلسہ کرنا چاہے، آزادی دی جائے، بلکہ اسے سہولت فراہم کی جائے، جیسا کہ فضل الرحمن صاحب کے دھرنے کے وقت کیا گیا تھا، وہ حکمت عملی بہت اچھی تھی۔ عمران خان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جب اپوزیشن جلسے کرے گی تو وہ کنٹینر فراہم کریں گے، یہ بہت اچھی حکمت عملی تھی، جہاں سیاست کو سیاست سے ہنڈل کرنے کی کوشش تھی، وہی اخلاقی برتری اور بے خوفی و خود اعتمادی کا بھی اظہار تھا۔ مگر اب کرونا کا بہانہ بنا کر صرف اپوزیشن کے جلسے روکے جا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے کے پی کے میں مختلف مقامات پر بڑے بڑے جلسے کیے ہیں، وہاں کرونا کا داخلہ ممنوع تھا۔؟ اس لیے انہیں اجازت دے دی گئی۔ خود خان صاحب نے بھی جلسے کیے ہیں، مگر اپوزیشن کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ ڈاکٹرز کی رائے کے مطابق احتجاج کو نئی شکل دینا اپوزیشن کا اصل امتحان ہوگا، دیکھتے ہیں کہ وہ اس میں کس قدر کامیاب ہوتی ہے۔ عمران خان صاحب اس وقت پی پی، مسلم لیگ اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے لوگ پولیس والوں کو پیسے دے کر اپنے گھروں پر چھاپے مروا رہے ہیں۔ ان چھاپوں کی تصاویر بڑی تگ و دو سے میڈیا پر چلوا رہے ہیں، اس سے ان کو خواہ مخواہ شہرت مل رہی ہے اور پورا سوشل میڈیا اور الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا اس سے بھرا ہوا ہے۔ آپ نے خواہ مخواہ میں غیر جمہوری رویئے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے ملتان جلسے کو کامیاب کروا دیا۔ جو کوریج انہیں ایک دن کے ایک مخصوص حصے میں ملنی تھی، وہ اب مسلسل مل رہی ہے۔ کافی عرصے بعد پی پی ملتان میں بھرپور ردعمل کا مظاہرہ کر رہی ہے، سویا ہوا کارکن جاگ رہا ہے اور یہی سیاسی جماعتوں کو مطلوب تھا، جو آپ نے انہیں دے دیا ہے۔ سنا ہے اب عمران خان یوٹرن نہیں لیتا، حکمت عملی تبدیل کرتا ہے، اسی لیے کنٹینر دینے والے عمران خان صاحب نے اب کریک ڈاون شروع کر دیئے ہیں، جو یقیناً بوکھلاہٹ کی علامت ہے۔
Facebook Comments