غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔10)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

محفلیں بر ہم کر ے ہے گنجفہ بازِ خیال
ہیں ورق گردانیء نیر نگ ِ یک بت خانہ ہم

استاد ستیہ پال آنند
میں بتاؤں، نوجوانو، خوشنما، عمدہ طریقہ بحث کا؟
خود سے پوچھو، پوچھتے جاؤ، سوال اندر سوال

طالبعلم ایک
“محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازِ خیال”
محفلیں؟ اجماع؟ تقریبیں،؟نشستیں،؟دعوتیں؟
عام مجمع؟ خاص مجمع؟ حلقہ ء احباب؟ جلسہ؟
کوئی چوراہا؟ گلی؟ َ گھر؟ گھر کی بیٹھک؟

طالبعلم دو
جی نہیں، لگتا ہے یہ جلسہ کہیں باہر نہیں ہے
ذہن کے تاریک حجرے میں ہے اس کا انعقاد

طالبعلم ایک
ذہن میں مصروف ہے اک “گنجفہ باز ِ” خیال

طالبعلم دو
اور یہ ماہر ہے بکھرؤ  کا، استبعاد کا
سست، ثولیدہ پریشاں ہو گئے ہیں سب خیال

طالبعلم ایک
طے ہوا اک فکر ِ فی نفسہ ہے جس نے سر بسر
ایک بھگدڑ سی مچا رکھی ہے نظم ِ ذہن میں
کیسا یہ زندیق ہے ، کافر ہے ، نا فرمان ہے

طالبعلم دو
شاعر ِ محمود غالب، بے خطا ، بے داغ ہے
واحد و یکتا خدا کی فردیت کو مانتا ہے
سینکڑوں رنگوں میں وحدت کو ابھرتے دیکھتا ہے
اور اس نیرنگیء مشہود کو با ایں ہمہ پہچانتا ہے

طالبعلم ایک
تب یہی بطلان کا ماہر، فریبی ، بازی گر
ذہن کو محدوف کر دیتا ہے گویا سر بسر

Advertisements
julia rana solicitors london

استاد ستیہ پال آنند
خوب سے ہو خوب تر کی سمت تم دونوں رواں
چلتے جاؤ کہتے جاؤ،”منزل ، ما دور نیست”!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا