• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • متحدہ عرب امارات اسرائیل معاہدہ اور یو اے ای کے پاکستان سے تعلقات کا جائزہ۔۔ بلال شوکت آزاد

متحدہ عرب امارات اسرائیل معاہدہ اور یو اے ای کے پاکستان سے تعلقات کا جائزہ۔۔ بلال شوکت آزاد

جن کا خیال ہے کہ کورونا وباء ہی 2020ء کی اہم ترین اور عظیم خبر ہے انہیں خبر ہو کہ اس سال اسرائیل عرب امارات معاہدہ دراصل کورونا وباء سے بھی اہم ترین اور عظیم خبر ہے اور اس سے بھی زیادہ غور طلب خبریں وہ ہیں اور ہونگی جو ہم تواتر سے دیکھیں گے جن میں صرف اسرائیل ،اسرائیل ہورہی ہوگی۔

عالمی وباء کے اس دور میں عالمی سیاست میں جو غیر معروف اور ناقابل قبول تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں ان کو دیکھ کر سنجیدہ اور متمول ذہنیت کے افراد بھی ان تھیوریز پر غور کرنے لگے ہیں جنہیں اکثریت سازشی تھیوریاں کہہ کر رَد  کرتی رہتی ہے۔

“اسرائیل نارملائزیشن یا ریکوگی-نیشن” دراصل وہ ایجنڈا ہے جس پر گزشتہ 70،80 سال سے مستقل کام جاری ہے۔

درحقیقت تمام مسلمان ممالک کا کسی نہ کسی طرح اسرائیل سے کوئی نہ کوئی تعلق اعلانیہ و غیر اعلانیہ چل ہی رہا ہے لیکن اسرائیل ان تعلقات کو نارمل ڈپلومیٹک اور سٹریٹیجک ریلیشن میں کنورٹ کرنے کے فراق میں ہے۔

کیا مسئلہ درپیش ہے کہ اسرائیل کو سبھی کی بالخصوص مسلمان ممالک کی تسلیمات کی اشد ضرورت پڑ گئی ہے؟

اس کو سمجھنے کے لیے آپ ذرا ایک ریاست کا تصور سمجھ لیں۔

ایک ریاست کے ویسے تو طے شدہ عناصر چار ہی ہیں پر موجود دور میں رائج کل چھ عناصر ہیں جن کے بغیر ریاست کا تصور مکمل نہیں ہوتا۔

طے شدہ چار ریاستی عناصر میں علاقہ یا زمین, آبادی یا عوام, حکومت اور خودمختاری یا آزادی ہیں لیکن رائج ریاستی عناصر میں ان چار کے ساتھ ماہرین اور مبصرین کی اکثریت ان دو مطلب بین الاقوامی تعلقات یا تسلیمات اور آزاد ذرائع ابلاغ یا فریڈم آف سپیچ اینڈ ایکسپریشن کو بھی شامل کرتی ہے۔

مطلب رائج ریاستی تصور میں بالترتیب علاقہ یا زمین, آبادی یا عوام, حکومت, خودمختاری یا آزادی, بین الاقوامی ذرائع ابلاغ یا فریڈم آف سپیچ اینڈ ایکسپریشن وہ عناصر ہیں جو ایک ریاست کی تشکیل اور تکمیل کے ساتھ ساتھ اس کے تسلسل کے لیے ضروری ہیں۔

اب آپ اسرائیل کو بطور ریاست دیکھیں اور بتائیں کیا وہ رائج ریاستی تصور کے پیمانے پر پورا اترتی ہے؟

اسرائیلی زعماء کو اول دن سے جس چیز کی اشد ضرورت رہی ہے وہ ہے بین الاقوامی سہل تعلقات اور عالمی تسلیمات یعنی دنیا اسرائیل کو بغیر کسی لیت و لعل کے ناصرف تسلیم کرے بلکہ اسکی اہمیت کو مدنظر رکھ کر تعلقات کو تقویت دے۔

اسی کے پیش نظر آجکل جاری اسرائیل نارملائزیشن یا ریکوگی-نیشن کی لہر شروع کی گئی ہے جس میں بڑی پیش رفت تب دیکھنے کو ملی جب متحدہ عرب امارات نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کاوشوں سے اسرائیل سے تاریخی معاہدہ کرکے اسے مکمل تسلیمات بہم دے کر اس لہر کو جلا بخشی اور خلیج کا وہ پہلا ملک بن گیا جس نے اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرکے باقاعدہ سفارتی تعلقات کی داغ بیل ڈال دی ہے جبکہ یاد رہے خلیج فارس اور عرب لیگ کے طاقتور اور معاشی طور پر مستحکم ممالک میں متحدہ عرب امارات کی حیثیت کسی صورت کم نہیں اور یہ کہ عرب امارات کو خطے میں سعودیہ عرب کا دست راست مانا جاتا ہے۔

لیکن صورتحال یہ ہے کہ سعودیہ عرب اس ڈیل پر خاموش اور بغیر کسی تاثر کے نظر آرہا ہے جبکہ امریکہ اور اسرائیل کے زعماء و ذرائع ابلاغ کا دعوی ہے کہ بہت جلد سعودیہ عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرکے سفارتی و تجارتی تعلقات کی داغ بیل ڈالے گا پر ابتک کی موصولہ اطلاعات اور بیانات سے سعودیہ عرب ان سب خبروں اور بیانات کی تردید کرچکا اور بارہا اس بات کا اعادہ کرچکا کہ فلسطین کے مستقل اور متفقہ حل تک سعودیہ عرب اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔

بہرحال اسی ماہ کی خبروں پر بغور نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ یہ متحدہ عرب امارات اسرائیل تعلقات محض تسلیمات یا ریکوگی-نیشن تک محدود نہیں بلکہ انہی تعلقات کے بل پر اسرائیل اپنا سانپ سیڑھی والاکھیل اب سعودیہ عرب اور پاکستان کے قریب تر لے آیا ہے یعنی سیاسی, جغرافیائی اور تجارتی تعلقات کی آڑ میں اسرائیل تقسیم کرو اور حکومت کرو کے مصداق خطے کا کنٹرول ہتھیاتا جارہا ہے۔

گذشتہ پندرہ دنوں کی خبریں دیکھیں تو اول خبر کہ متحدہ عرب امارات نے غیر معینہ مدت تک عارضی بنیادوں پر پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک (ترکی ، ایران ، یمن ، شام ، عراق ، صومالیہ ، لیبیا ، کینیا اور افغانستان وغیرہ) کے لیے وزٹ ویزہ سروسز معطل کردی ہیں کا جائزہ لیں تو بظاہر یہ کورونا کی وجہ سے اٹھایا گیا حفاظتی اور ریاستی قدم لگتا ہے لیکن دوسری جانب تازہ تازہ حلیف بنے اسرائیلی عوام کے لیے متحدہ عرب امارات کے دروازے جوں کے توں نہیں بلکہ کھلے دل سے وا ہیں جس سے یہ پیغام مل رہا ہے کہ اب غیر عرب یا عجمی بلخصوص مسلمان ممالک کے لیے متحدہ عرب امارات کی زمین مختصر ہوچکی ہے۔

مبصرین کا دعوی ہے کہ جن ممالک پر متحدہ عرب امارات کی جانب سے وزٹ ویزہ کی روک تھام کی گئی ہے عالمی وباء کے تناظر میں دراصل ان میں اکثریت ان ممالک کی ہے جو متعدد بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف اپنا ووٹ کاسٹ کرچکے ہیں نیز یہ کہ انہی ممالک اور ان کی عوام نے 13 اگست 2020ء کو ہونے والے یو اے ای اسرائیل نارملائزیشن یا ریکوگی نیشن معاہدے کی سخت مخالفت کی ہے لہذا اس وقت اسرائیل انہی ممالک سے سابقہ حساب برابر کرنے اور ان کی ہمت توڑ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مقام پر لانے کے لیے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے کررہا اور یو اے ای سے کروا رہا ہے۔

اسی ہفتے کی ایک اور خبر ہے کہ فلائی دوبئی کا پہلا طیارہ براہ راست دوبئی سے تل ابیب کا فضائی راستہ استعمال کرکے اسرائیل میں لینڈ کرکے اپنی فضائی سروسز کا باقاعدہ آغاز کر چکا ہے اور متحدہ عرب امارات و اسرائیل کے مابین شروع ہوئے دوستانہ تعلقات میں ایک اہم پیش رفت کا اضافہ ہوا ہے۔

قابل ذکر بات یہ کہ دبئی فلائی کی پہلی فلائیٹ نے حب تل ابیب اسرائیل میں لینڈ کیا تب اسرائیلی وزیرآعظم بینجمن نیتن یاہو نے باقاعدہ استقبال کیا اور اس استقبالی بیان سے اماراتی سیاحوں اور مسافروں کا خیر مقدم کیا کہ

“یہ امن کے ثمرات ہیں غدعزیزان من امارتی سیاحو, اسرائیل میں خوش آمدید۔ ۔ ۔”

جبکہ کورونا وائرس وبائی مرض کی وجہ سے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی معیشتوں کو سخت نقصان پہنچنے کے بعد ، دونوں نوزائیدہ دوست ملک, متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نارملائزیشن یا ریکوگی-نیشن کے معاہدے سے تیزی سے منافع کی امید کر رہے ہیں۔

فلائی دوبئی کے سی ای او غیث الغثیت نے جب اس ماہ کے شروع میں اس فضائی سروس کا اعلان کیا تو انہوں نے کہا،

“دبئی تل ابیب کی طے شدہ پروازوں کا آغاز معاشی ترقی میں معاون ہوگا اور سرمایہ کاری کے مزید مواقع پیدا کرے گا۔”

دبئی سے روزانہ دو بار فلائی دوبئی کا طیارہ, دبئی تل ابیب فضائی پٹی پر اڑے گا ، اور اسرائیلی ایئر لائنز ایل ال اور اسرار دونوں کو توقع ہے کہ وہ اگلے ماہ اماراتی وواسرائیلی شہروں کے درمیان اپنی تجارتی خدمات کا آغاز کریں گے۔

متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں مقیم اتحاد ایئر ویز نے کہا ہے کہ وہ مارچ 2021 میں تل ابیب کے لئے پرواز شروع کردے گی۔

پریشان کن طور پر دونوں ممالک کے مابین فلائی دوبئی کی طے شدہ پروازیں اس وقت آئیں جب مبینہ طور پر متحدہ عرب امارات نے ایران ، ترکی ، لبنان ، شام اور صومالیہ سمیت 13سے زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کو نیا ویزا جاری کرنا بند کردیا ہے۔

اس دستاویز کو ، جسے متحدہ عرب امارات کے پارکس میں کام کرنے والی کمپنیوں کو بھیجا گیا تھا کو رائٹرز نیوز ایجنسی نے دیکھا تھا کہ جس میں امیگریشن سرکلر کے حوالے سے بتایا گیا تھا جو 18 نومبر کو عمل میں آیا تھا۔

جس میں بتایا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات سے باہر کے شہریوں کے لئے پاکستان, افغانستان ، لیبیا اور یمن سمیت کئی ممالک سے آئندہ نوٹس تک نئے روزگار اور وزٹ ویزوں کے لئے درخواستیں معطل کردی گئیں۔

جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہوئے بیان اور بعد از متحدہ عرب امارات ہم منصب سے گفتگو یہ بات کہی گئی کہ صرف وزٹ ویزہ پر پابندی ہے جس کی وجہ بھی عالمی وباء کورونا بتائی گئی۔

حالانکہ حقیقت میں سب کو یہ سمجھ آرہا ہے کہ اسرائیل خطے میں انگڑائی لیکر پوری طرح بیدار ہوچکا ہے اور سب سے پہلے وہ پاکستان سمیت ان ممالک کا ناطقہ مشرق وسطی میں بند کرنے میں مصروف ہے جو اسرائیل سے نظریاتی بغض رکھتے ہیں۔

برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ متحدہ عرب امارات مسلم دنیا کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والا تیسرا جبکہ خلیج کا پہلا عرب ملک بن گیا ہے، اس سے قبل 1979 میں مصر اور 1994 میں اردن نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اسرائیل نارملائزیشن یا ریکوگی-نیشن کو تقویت دی تھی۔

مذکورہ دونوں ممالک پہلے ہی اسرائیل سے ویزا فری سفر کے معاہدوں پر دستخط کرچکے ہیں اگرچہ ابھی اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے جبکہ ساتھ ہی سرمایہ کاری کے تحفظ ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے معاہدے بھی دونوں ممالک اور اسرائیل کے مابین ہوچکے ہیں۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی معاہدے کے بعد سے ، بحرین اور سوڈان نے بھی اسرائیل سے تسلیمات کا معاہدہ کیا ہے اور تعلقات کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے۔

ان (مصر, اردن, متحدہ عرب امارات, بحرین اور سوڈان) ممالک کے اسرائیل سے تسلیمات کے معاہدوں نے ایک دیرینہ عرب دنیا اور مسلم دنیا کے اتفاق رائے کو متزلزل کردیا ہے کہ جب تک اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ آزادی و خودمختاری کے جامع معاہدے کی تکمیل نہیں کرتا تب تک اسرائیل کے ساتھ کوئی معمول کے سفارتی و تجارتی تعلقات نہیں بننا چاہیے۔

دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی کے عہدیداروں نے اسرائیل نارملائزیشن یا ریکوگی-نیشن کے حالیہ ہونے والے معاہدات پر شدید تنقید اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے عرب ریاستوں کے اس فعل کو “پیٹھ میں وار” کے طور پر محسوس کرتے ہوئے شدید مذمت کی ہے۔

حقیقت یہ بھی ہے کہ خلیجی عرب کی متعدد ریاستیں برسوں سے ایران کے ساتھ مشترکہ عداوت کی بنیاد پر اسرائیل کے ساتھ خاموشی سے تعلقات استوار کررہی ہیں ، جبکہ امریکہ اس عمل کی حمایت کرتا ہے۔

علاقائی ہیوی ویٹ سعودی عرب نے اب تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو باضابطہ بنانے یا ایسے کسی ارادے سے گریز کیا ہے۔(لیکن خطے میں جاری چہ مگوئیوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ بحرین اور عرب امارات سعودی دست راست ریاستیں ہیں جنہیں سبز بتی دکھا کر خاموشی سے اجازت دی گئی ہے۔)

خیر مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء میں بہت کچھ چل رہا ہے جس کے نتیجے میں کچھ اپ سیٹس, بریک اپس اور سرپرائزز برآمد ہوں گے جس کے لیے طاغوت کے صف اول کے مہرے پوری طرح حرکت میں آچکے ہیں۔

گزشتہ سال کے وسط سے, جب کشمیر اور فلسطین پر پاکستانی حکومت نے سخت گیر اور دوٹوک موقف متعدد بار عالمی افق پر دہرایا تب سے بھارت اور اسرائیل کے گماشتے عرب امارات کو اپنا مسکن بنا کر پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہیں۔

جب پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 71 ممالک کے تعاون سے کشمیریوں کے حق میں قرار داد منظور کروا لی تھی، تب سے اس قرار داد کی منظوری کو پاکستان کی عالمی سطح پر بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔

جبکہ اسرائیلی ایجنسی موساد اور بھارتی ایجنسی را، تب سے یو اے ای میں پہنچ کر اپنا منفی کردار شروع کر چکی ہے, اطلاعات ہیں کہ موساد کے کچھ ٹاوُٹس یو اے ای میں اہم ترین عمارتوں کی تصاویر لیتے ہوئے پکڑے گئے یا نظر میں آئے ہیں, اور یہ کہ پاکستانیوں کو یو اے ای سے نکلوانا، پاکستان پر مختلف پابندیاں عائد کروانا ، یو اے ای کے لوکل پاکستانیوں کو ذلیل و رسوا کرنے کے پیچھے درحقیقت اسرائیل اور بھارت ہے۔

یقینی طور پر یہ سب کچھ اماراتی شاہی خاندان کی مرضی سے ہو رہا ہے کہ ایئرپورٹس و دیگر مقامات پر جانتے بوجھتے بزرگ، چھوٹے بچوں والی خواتین کو گھنٹوں لائن میں کھڑا کیا جاتا ہے ، بلوچ شناخت کے حامل پاکستانیوں کو پاکستان سے الگ شناخت کیا جا رہا ہے اور مستزاد یہ کہ ان واقعات کی کوئی پاکستانی ویڈیو نا بنا لے, شرطے (اماراتی پولیس) موبائل کھینچ کر لے جاتے ہیں ، پھر شرطے ( پولیس ) والے ان سے کہتے ہیں، جاؤ اپنے عمران خان سے کہو کہ

“تمہیں موبائل واپس دلوا دے۔”

جبکہ بھارتی و دیگر غیر اسلامی ممالک کیلئے کوئی نیا قانون نہیں۔

اوپر سے اب وزٹ ویزوں پر غیر معینہ مدت تک عارضی پابندی بوجہ کورونا یہ بتانے اور سمجھانے کو کافی ہے کہ خطے کے حالات کس رخ پر جارہے ہیں جبکہ پاکستان کو اب کس طرح دوستوں اور دشمنوں کا فرق اور تعلقات کی تجدید کی اشد ضرورت ہے۔

تردیدیں اور وضاحتیں معمول کی کاروائیاں ہوتی ہیں جو ہر غیر اخلاقی واردات کے بعد انجام دی جاتی ہیں لیکن سبھی اس بات سے واقف ہیں گراؤنڈ پر وہی ہورہا ہوتا ہے جو تردید اور وضاحت سے پہلے خبر بن چکا ہوتا ہے۔

افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے متحدہ عرب امارات جیسے ملک کے ساتھ تعلقات میں پہلے بھارت کی وجہ سے اور اب اسرائیل کی وجہ سے بدمزگی نمایاں ہورہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کی حکومت اور مقتدر طبقہ ضرور ان باتوں اور خبروں سے باخبر ہے اور اپنی حکمت عملی وضع کرنے میں مصروف ہوگا لیکن ہماری ادنی سی رائے یہ ہے کہ جب دوست ممالک نے چونکہ چناچہ اگر مگر اور لیکن ویکن کا تکلف ختم کرکے براہ راست اقدمات اٹھالیے ہیں تو ہمیں بھی اب سنجیدہ ہوکر تعلقات پر ازسر نو سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔

Facebook Comments