ٹرمپ کیلئے کٹہرا تیار ہے کیا؟۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

بادشاہت کا نشہ بھی عجیب ہے، جب کسی کے منہ کو لگ جاتا ہے تو وہ خود کو برتر مخلوق خیال کرنے لگتا ہے۔ ویسے کچھ اختیارات بھی ایسے ہوتے ہیں کہ ایک فیصلے سے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتا ہے، اس کے ایک دستخط سے اقوام متاثر ہوتی ہیں۔ امریکہ کا صدر تو اور بھی زیادہ اختیارات کا مالک ہوتا ہے، کیونکہ اسے وراثت میں بہت سی ریاستوں کے غلام و اطاعت گزار حکمران نما لوگ بھی مل جاتے ہیں، جو براہ راست اس کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔ دیگر کچھ ملکوں کی طرح امریکی صدر کو جہاں بے تحاشہ اختیارات حاصل ہیں، وہیں انصاف کے بنیادی اصولوں سے متصادم ایک استثنیٰ بھی حاصل ہے کہ اس کے خلاف جتنی بڑی شکایت ہی کیوں نہ ہو، عہد صدارت کے دوران اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ شائد قارئین کے لیے یہ بات حیرت کی بات ہو کہ امریکی صدر چاہے تو خود معاف بھی کرسکتا ہے اور اگر عہدہ صدرات چھوڑنے کے بعد نیا صدر چاہے تو بھی اس کو معاف کیا جاسکتا ہے اور اس پر عمل بھی ہوچکا ہے۔

امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ذرا علیحدہ قسم کے صدر ہیں، جن کی پالیسیوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ وہ الیکشن سے پہلے عرب شہزادوں کو باپ کی جائیداد پر عیاشی کرنے والے کہتے رہے، مگر جب صدر بنے تو انہی شہزادوں کی دولت کی چمک دمک میں ایسا بہے کہ علی الاعلان کہتے تھے کہ ہم یمن کے مسئلہ پر انہیں ہتھیاروں کی فروخت نہیں روک سکتے۔ ان کے پاس ڈالر ہیں اور ہمیں ان ڈالروں کی ضرورت ہے۔ ان سے امریکی اسلحہ کی فیکٹریاں چل رہی ہیں اور امریکیوں کو روزگار کے مواقع میسر ہیں۔ جیسے ہی امریکی صدارت کی کرسی سے اتر کر بیت ابیض سے اپنی ذاتی گاڑی میں ذاتی گھر کی طرف روانہ ہوں گے تو امریکی قانون پوری طرح سے ان کے سامنے آجائے گا۔ ان کے بہت سے جرائم جو استثنیٰ کی وجہ سے پس منظر میں چلے گئے تھے، پوری طرح سے سامنے آجائیں گے۔ شہرت و اقتدار کی بری چیز یہ بھی ہے کہ انسان کے جرائم بھی شہرت پاتے ہیں، ان سے متعلق چھوٹی سی خبر بھی بریکنگ نیوز بن جاتی ہے اور یہی چیز ان کو پھنسوا بھی دیتی ہے۔

ٹرمپ کے خلاف کئی ایسے الزامات ہیں، جو ان کی باقی زندگی میں انہیں پریشان کرتے رہیں گے، ہم ان میں سے چند کا تذکرہ کرتے ہیں۔ میری ٹرمپ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھتیجی ہیں، ان کے والد کا انتقال ہوگیا تو خاندانی کاروبار ان کے چچا نے سنبھال لیا، جو اب امریکی صدر ہیں۔ اس کاروبار میں انہوں نے اپنے بھائی کی اولاد کے مالی مفادات کا خیال نہیں رکھا اور انہیں نقصان پہنچایا۔ میری ٹرمپ نے کتاب لکھی جس میں اپنے چچا یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا کا سب سے خطرناک آدمی قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے چچا پر ایک مقدمہ کر رکھا ہے، جس میں پانچ لاکھ امریکی ڈالر کے ہرجانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹرمپ پر تین مقدمے ایسے ہیں، جن میں انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے اور انہیں یہ کام کرنے کے لیے امریکی کانگریس کی منظوری درکار تھی، جو انہوں نے نہیں لی۔ واشنگٹن ڈی سی میں ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل میں غیر ملکی اہلکاروں کو ٹھرانے میں اختیارات سے تجاوز کیا۔

صدر ٹرمپ کا ماضی ان کو عدالت کے کٹہرے میں لانے والا ہے۔ صحافی جین کیرول نے الزام عائد کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انھیں 1990ء میں مین ہٹن کے ایک سٹور کے ڈریسنگ روم میں ریپ کیا تھا۔ اسی طرح 41 سالہ زیرووس نے کہا کہ ٹرمپ نے لاس اینجلس کے ایک ہوٹل میں نوکری کے بارے میں بات چیت کے دوران ان پر جنسی حملہ کیا تھا۔ ٹرمپ بھی شہنشاہ ہے، ان الزامات کے جواب میں ایک عورت سے کہا تم جھوٹ بول رہی ہو، کیونکہ میں تمہاری طرح کی عورتوں کو پسند ہی نہیں کرتا۔ پسند کریں یا نہ کریں، مکمل ثبوتوں کے ساتھ یہ کیس تیار ہے۔ اسی حوالے سے ایک کیس نے بڑی شہرت اختیار کی، جس میں ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہن نے تسلیم کیا تھا کہ انھوں نے دو خواتین کو پیسوں کی ادائیگی کے لیے تیار کیا تھا کہ وہ خاموش رہیں گی۔ اس پر مائیکل کو تین سال قید ہوئی، مائیکل نے کہا تھا کہ میں نے یہ سب ٹرمپ کے حکم پر کیا اور اسے کوئی سزا نہیں ملی۔

ٹرمپ کی ریئل اسٹیٹ کمپنی دی ٹرمپ آرگنائزیشن ٹرمپ کے لیے وبال جان بننے والی ہے، کیونکہ اس کے خلاف نیویارک میں وسیع پیمانے پر جرائم کی تحقیقات شروع ہونے والی ہیں۔ ان کے خلاف کئی مقدمات درج ہیں، جس میں بدعنوانی سرفہرست ہے۔ وانس اس حوالے سے بہت تیز رفتاری سے کام کر رہے۔ وہ صدر ٹرمپ اور ٹرمپ آرگنائزیشن کا آٹھ سال کا فنانشل ریکارڈ دیکھنا چاہتے تھے۔ صدر ٹرمپ نے دستاویزات کی درخواست کو روک دیا تھا اور اپنے اوپر ٹیکس چوری کے الزامات کو جعلی خبریں کہہ کر رد کر دیا تھا۔ ریئل اسٹیٹ ہی کے ممکنہ فراڈ کے حوالے سے نیو یارک کی اٹارنی جنرل لتیتیا جیمز صدر ٹرمپ کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں۔ انھوں نے کانگریس کو بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ قرضوں کے حصول کے لیے اپنی جائیدادوں کی قیمت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے جبکہ ٹیکس بچانے کے لیے ان کو کم قیمت ظاہر کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ موٹے موٹے چند کیسز ہیں، جن کا سامنا ممکنہ طور پر موجودہ امریکی صدر کو وائٹ ہاوس سے نکلتے ہی کرنا پڑے گا۔ کچھ کیسز اللہ کی عدالت لگنے تک سماعت کے منتظر ہیں، کیونکہ دنیا کی عدالتیں ضابطوں میں پابند فیصلے کرتی ہیں، جن میں انصاف کم ہی میسز آتا ہے اور ہر متاثر اپیل بھی نہیں کر سکتا اور کچھ متاثر تو ظلم کرنے والوں کو جانے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس کی عدالت میں یمن، افغانستان، شام اور صومالیہ کے مظلوموں کو ضرور انصاف ملے گا، جو اس بربریت کا شکار رہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے