• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت ڈلیور کر پائے گی؟۔۔شیر علی انجم

کیا گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت ڈلیور کر پائے گی؟۔۔شیر علی انجم

گلگت بلتستان میں جمہوریت کے تیسرے دور کا آغاز شدید شکوک و شبہات اور جلاو گھیراو کے سائے میں ہوچکا ہے۔ ظاہری طور پر پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، لیکن حقیقی معنوں میں جمہوری اقدار اور معاشرتی اصولوں کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو پاکستان تحریک انصاف کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جس طرح پاکستان میں وزیراعظم عمران خان تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام کی قسمت بدلنے اور عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں بُری طرح ناکام نظر آتے ہیں، بالکل وہی معاملہ گلگت بلتستان الیکشن 2020ء میں بھی دیکھنے کو ملا۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دورہ گلگت بلتستان میں صوبہ بنانے جیسے اہم اعلانات اور وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان امین گنڈا پور کی جانب سے اربوں روپے کے اعلانات گلگت بلتستان کے عوام کو متاثر کرنے میں ناکام ہوئے۔ خطے کی تاریخ میں پہلی بار عوام نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ اس خطے کے لوگ نظریات کی بجائے وفاق اور گندم سبسڈی کو ووٹ دیتے ہیں۔

ویسے تو گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف شروع دن سے ہی اندرونی رسہ کشی کا شکار رہی ہے، لیکن سید جعفر شاہ کی وفات کے بعد ٹکٹوں کی تقسیم سے لیکر اور کابینہ سازی تک کے مراحل میں اندرونی رسہ کشی، مفاداتی سیاست اور لابینگ نے پارٹی کی کئی فعال شخصیات کو گراونڈ کر دیا اور کئی نئے چہرے سامنے آئے۔ جس طرح پاکستان میں الیکشن جیتنے کیلئے جیتنے والے اُمیدواروں کو دوسری پارٹیوں سے توڑ کر لایا جاتا ہے، بالکل وہی پریکٹس گلگت بلتستان میں بھی کی گئی، لیکن کامیابی نہیں ملی اور پہلی بار سات آزاد اُمیدواروں نے بڑی اہم شخصیات کو بڑے مارجن کے ساتھ شکست دیکر تاریخ رقم کر دی۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ کئی آزاد اُمیدواروں کم مارجن کے ساتھ شکست ہوئی۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحاد کا بھی اتنا فائدہ نہیں ہوا، جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اس بار گلگت بلتستان کے عوام نے لوٹا کریسی، مذہبی سیاست، وفاقی سیاست اور لین دین کی سیاست کو ایک طرح سے مسترد کرکے جمہوری اور نظریاتی عوام ہونے کا عملی ثبوت پیش کیا۔ لیکن بدقسمتی سے عوام کے ساتھ پھر سے ہاتھ ہوگیا اور آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے تمام ارکان نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی آزادی کو پاکستان تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو پاکستان تحریک انصاف کیلئے گلگت بلتستان میں حکومت بنانا ایک طرح سے ناممکن ہو جاتا اور وہاں ایک مخلوط قومی حکومت کی تشکیل یقینی ہو جاتی۔ یوں آزاد اُمیدواروں نے وزارت کے لالچ میں 16 نومبر 1947ء کی تاریخ دہرا دی، جب جمہوریہ گلگت کے صدر نے اپنی صدارت کو سول سپلائی کی نوکری کیلئے سرینڈر کرکے بغیر کسی ٹیبل ٹاک کے ایک پشتون تحصیلدار کو گلگت بلتستان طشتری میں سجا کر پیش کر دیا اور اُس نے ایف سی آر نافذ کرکے جمہوریت کو ہی قید کر دیا تھا۔
بہرحال بڑے جوڑ توڑ کے بعد اس وقت گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور اگلے پانچ سالوں تک اُنہوں نے حکومت کرنی ہے۔ لیکن اس حکومت کو آنے والے پانچ سالوں میں حزب اختلاف کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ اس وقت حزب اختلاف کی کرسی پر حکومت سے بھی مضبوط عوامی مسائل کا ادراک رکھنے، خطے کی قانونی اور بین الاقوامی حیثیت کو اچھی طرح سمجھنے اور مسلہ کشمیر سے گلگت بلتستان کے رشتے کے بارے میں مکمل معلومات رکھنے والے قد آور مزاحتمی سیاست دان بیٹھے ہیں۔ اسی طرح الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کو گو کہ الیکشن کمشنر سے لیکر نگران وزیراعلیٰ تک نے مسترد کر دیا ہے، لیکن گلگت بلتستان کی عدالت عالیہ کے حکم کے باوجود علی امین گنڈا پور، جو ایک طرح سے گلگت بلتستان کا اقتدار اعلیٰ سمجھے جاتے ہیں، ان کی خطے میں موجودگی، الیکشن کے معاملات کی براہ راست دیکھ بھال اور الیکشن کمشنر کا پاکستان تحریک انصاف کی مقامی قیادت سے میل ملاپ و اخباری بیانات کی بنیاد پر دھاندلی بھی خارج از امکان نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے صدر و رکن گلگت بلتستان اسمبلی امجد حسین ایڈووکیٹ نے حلف برداری کے بعد ہی پانچ حلقے کھولنے کیلئے ایک بااختیار اور غیر جانبدار کمیشن بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کس طرح ان تمام معاملات کو جمہوری طریقے سے حل کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے حوالے سے جو اعلان کئے ہیں، اُن پر عمل درآمد کرنا شروع کرتی ہے۔ خطے کا بنیادی مسئلہ قومی تشخص کا حصول ہے اور وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کو باقاعدہ صوبہ بنانے کا اعلان کر رکھا ہے، لیکن کس قسم کا صوبہ، کیسے بنایا جائے، اُس کی تفصیلات عوامی نمائندوں کے پاس موجود نہیں۔ کچھ اس طرح کے اعلانات مسلم لیگ نون کی حکومت نے بھی کئے تھے اور اسمبلی کے اختیارات میں اضافے کیلئے ایک کمیٹی سرتاج عزیز کی سربراہی میں بنائی گئی۔ اس کمیٹی نے سفارش کی تھیں کہ مسئلہ کشمیر کے حتمی فیصلے تک اس خطے کو عبوری صوبے کا درجہ دے دیا جائے۔ اس عبوری صوبے کو نیشنل فنانس کمیشن، اقتصادی رابطہ کمیٹی اور ارسا سمیت وفاق و صوبے کے رابطہ کار اداروں کا ممبر بنایا جائے۔
مگر نواز شریف حکومت نے اپنی ہی کمیٹی کی سفارشات پر عمل نہیں کیا اور دو ہزار اٹھارہ میں ایک اور ایگزیکٹو آرڈر خطے پر مسلط کر دیا۔ اسی طرح دسمبر 2018ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان لاجر بنچ نے گلگت بلتستان آرڈر 2018ء میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو مزید بااختیار بنانے کا حکم دے دیا تھا اور ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے تناظر میں خطے کی قانونی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی، نہ ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی ملے گی، کیونکہ یہ حق آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کیلئے آئین کے آرٹیکل ون میں ترمیم کیلئے کوشش کرتی ہے یا ماضی کی طرح ایک نئے قسم کا آرڈر صوبے کے نام پر گلگت بلتستان پر مسلط کرکے ٹیکسوں کے نفاذ کا ایک نیا سلسلہ شروع کرتی ہے۔

یقیناً وزیراعظم عمران خان کے وعدے پر عمل درآمد ہونا ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں، کیونکہ اگر آئین میں ترمیم کی جاتی ہے تو ایک طرف مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ریاستی موقف مکمل طور پر دفن ہو جائے گا، وہیں جموں، کشمیر اور لداخ کی حیثیت کو جس طرح نریندر مودی نے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرکے ختم ہی کر دیا ہے، اُسے تسلیم کرنا شمار ہوگا۔ یعنی اس وقت مسئلہ کشمیر کی کنجی گلگت بلتستان ہے اور اس خطے کو پاکستان باقاعدہ صوبے کا درجہ دیتا ہے تو مسئلہ کشمیر ایک طرح سے ختم ہو جائے گا اور خطے میں جنگ کی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے، جس کا یقیناً آج کے اس بدترین معاشی بدحالی کے دور میں کوئی بھی مُلک متحمل نہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف نے خطے میں سیاحت کی فروغ کیلئے بھی بڑے اعلانات کئے ہوئے ہیں اور سیاحت کے فروغ کیلئے اولین ضرورت بہترین مواصلاتی نظام اور روڈ نیٹ ورک کا ہونا ہے، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کم از کم گلگت بلتستان کو ایس کام کی اجارہ داری سے آزاد کرکے جدید دنیا سے ملانا اور سکردو روڈ کی تعمیر کا کام ایف ڈبیلو او کر دیکر حکومت کو خاموش نہیں رہنا چاہیئے، کیونکہ یہ سڑک دفاعی حوالے سے اہمیت کی حامل ہونے کے ساتھ بلتستان کے عوام کیلئے موت اور زندگی کا مسلہ ہے۔ اس سڑک کی تعمیر کے طریقہ کار پر بلتستان کے عوام میں شدید شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے ساتھ زرعی شعبے کی بدحالی بھی گلگت بلتستان کے مقدر کا ایک اہم باب ہے۔ قراقرم یونیورسٹی سے لیکر بلتستان یونیورسٹی تک میں میرٹ اور معیاری تعلیم کو یقینی بنانا حکومت اور اپوزیشن کی اہم ذمہ داری بنتی ہے۔ اسی طرح ہائیڈرو پاور جنرینش گلگت بلتستان میں ایک منافع بخش صنعت کی حیثیت رکھتا ہے۔
لیکن بدقسمتی گذشتہ پانچ سالوں میں بننے والے تمام بجلی گھر خطے کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور نئے تعمیر ہونے والے زیادہ تر بجلی گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جس کی اصل وجہ کرپشن ہے، جس میں سابق وزیراعلیٰ اور وزیر تعمیرات براہ راست ملوث ہونے کی خبریں میڈیا کی زینت بنی رہیں، لیکن اُن کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ لہذا ہائیڈرو پاور جنریشن پر توجہ دیکر صرف گلگت بلتستان نہیں بلکہ پورے مُلک سے نہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہے، بلکہ عوام کو سستی بجلی بھی مل سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت خطے کے سلگتے کے مسائل کی حل کیلئے اپوزیشن کے ساتھ ملکرکام کرتی ہے یا پھر یوٹرن کی ایک نئی تاریخ گلگت بلتستان میں بھی رقم کرتی ہے، آنے والے وقتوں میں پتہ چل جائے گا۔

Facebook Comments