• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سعودی عرب، العلاء میں مدائن صالح و الحجرا کی تاریخ(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔منصور ندیم

سعودی عرب، العلاء میں مدائن صالح و الحجرا کی تاریخ(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔منصور ندیم

الحجرا میں آثار قدیمہ کے تاثرات :

مدائن صالح سمیت نبطی علاقوں میں آثارِ قدیمہ کی تلاش کے لیے کچھ عرصہ پہلے کھدائی ہوئی تھی جس میں ریاض کی شاہ سعود یونیورسٹی کے عبدالرحمان السحیبانی سمیت کئی ایک سعودی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے حصہ لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اس سے قبل کی دیدان اور لحیان تہذیبوں پر زیادہ توجہ دی تھی۔ لیکن اب العلا کے لیے قائم کیا گیا شاہی کمیشن اس سے بڑے منصوبے میں شامل ہو گیا ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ یہ قدیم معاشرے کس طرح پروان چڑھے تھے۔‘

امریکی ماہرِ آثارِ قدیمہ ریبیکا فُوٹ،جو العلا میں شاہی کمیشن کے تحت سروے ٹیم کی سربراہ بھی ہیں، کہتی ہیں کہ اب تک کی کاوشوں کا مقصد کھدائی تھا کیونکہ جو ٹیکنالوجی اور وسائل اب حاصل ہیں وہ پہلے نہیں تھے۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ وادئِ العلا کا سروے کر رہے ہیں تاکہ اب تک آثارِ قدیمہ کی جو باتیں معلوم نہیں تھیں انہیں دریافت کیا جائے۔ ریبیکا فوٹ کہتی ہیں کہ اس سروے کی وجہ سے سعودی عرب کا شمار قدیمی تہذیبوں میں ہونا شروع ہو جائے گا۔

ایک ہزار برس قبل مسیح سے تین ہزار برس قبل مسیح کے عرصے کے بارے میں اور میسوپوٹیمیا اور مصری تہذیب کے بارے میں کافی علم پہلے سے موجود ہے۔ لیکن قدیم دور کے حوالے سے سعودی عرب کے بارے میں بہت کم معلومات تلاش کی گئی ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری تلاش کس طرح قدیم تاریخ کو تبدیل کرے گی، لیکن اس بات کا کافی امکان ہے کہ یہ دریافتیں قدیم تاریخ کے بارے میں نئے تصورات کو جنم دیں۔ ریبیکا فوٹ نے پیٹرا میں بھی تحقیقی کام کے لیے کئی برس گزارے ہیں۔ پیٹرا نوبتینی دور کے اردن میں ایک قدیم شہر کا کھنڈر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قبرستانوں اور غیر معمولی عمارتوں اور کھڑے ہوئے پتھروں کے آثار کے فضائی جائزے سے کھوج کے لیے بہت سارے عقدے کھلیں گے جن کو سمجھنے میں دنیا عموماً کئی کئی برس لگاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کافی قابلِ بھروسہ ہے اور ’اس سطح کا کام اس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا ہے۔‘

اس سے پہلے فرانسیسی ماہرین نے اس علاقے میں کھدائی کا کام کیا تھا جس کے ذریعے انھوں نے لوبان اور اگر بتیوں کی تجارت کے غیر منظم رابطوں کو دریافت کیا تھا۔ ریبیکا فوٹ اسی دریافت پر مزید کام کرنا چاہتی ہیں اور یہ جاننا چاہتی ہیں کہ پانی کا اس خطے کی خوشحالی میں کیا کردار تھا۔ ریبیکا فوٹ کہتی ہیں ’ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا ایک کامیاب زراعتی نظام تھا، لیکن کیا ان خوشبودار اشیا پر کوئی ٹیکس تھا؟ وہ آب پاشی کا نظام کس طرح چلاتے تھے؟‘

العلا میں سروے کے حتمی مراحل میں چٹانوں پر کندہ کاری کی ماہر ماریا گوانن پیدل بھی فیلڈ میں گئیں۔ شمالی عرب میں پانچ سال گزرانے والی ماریا بہت متاثر ہیں کہ ایسا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے جو تمام ادوار کا احاطہ کرتا ہے۔ماریا گوانن پیدل کے مطابق پہلی بار ہم اس سرزمین کے آثارِ قدیمہ کا ہر پہلو سے جائزہ لے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جانوروں کی بہت سی اقسام کے بارے میں خیال تھا کہ وہ عرب جزیرہ نما میں نہیں تھیں، لیکن چٹانوں پر ملنے والی تصاویر اس بات کی نفی کرتی ہیں۔ جانوروں کی تصاویر کی مدد سے تاریخوں کا تعین کرنے میں بھی مدد ملتی ہے، مثلاً گھوڑوں اور اونٹوں کی سواری 1200 قبل مسیح سے پہلے نہیں ہوتی تھی۔ جزیرہ نما عرب میں پالتو بھیڑ بکریاں اور گائے 6800 اور 6200 قبل مسیح میں شمالی علاقوں سے لا کر متعارف کروائے گئے تھے۔ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ عرب میں پالتو جانور اس سے پہلے آئے ہوں۔

سعودی ماہر آثار قدیمہ عبدالرحمان سبحانی کچھ برسوں سے دادان میں کھدائی کر رہے ہیں جہاں نبطی تہذیب سے پرانی تہذیب کے آثار ملتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام اتنا وسیع ہے کہ اس کے نتائج کو سمجھنے میں نسلیں گزر جائیں گی۔ ’عالمی سطح پر اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے نہ صرف مدائن صالح اور البتراء کے ماضی بلکہ اس سے پہلے کی تہذیبوں کے بارے میں عالم میں اضافہ ہو گا جن کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ آثارِ قدیمہ سے وابسطہ جیمی کوارٹرمین العلاء میں اب تک 1150 کے قریب جگہوں کا سروے کر چکے ہیں۔ اسے عموماً نقصانات سے بچنے والا سروے کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں کوئی ایسا تعمیری کام نہ کیا جائے جو آثارِ قدیمہ کے قریب کیا جائے اور ان سے انھیں نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ کوارٹرمین کہتے ہیں کہ یہ سروے چٹانوں پر کندہ کاری جیسے فنون کے بارے میں سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا۔ جیمی کوارٹرمین کہتے ہیں کہ ’صرف پانچ برس پہلے تک جی پی ایس بھی مطلقاً درست نہیں ہوتا تھا۔ آج ہم ڈرونز سمیت ہلکے جہاز جن کے نیچے طاقتور کیمرے نصب ہوتے ہیں اور جدید ترین فضائی فو ٹوگرافی سے بہترین جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دو دو یا تین تین سیکنڈ میں تصویریں لینے سے جو ہزاروں تصویریں جمع ہوتی ہیں ان سے زمینی سطح کو سمجھ کر ان سے صحیح فاصلے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خصوصی سوفٹویر کے ذریعے زمین کی ہائی ریزولوشن تصویروں کو بہتر طریقے سے دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

مدائن صالح یا حجرات کی موجودہ اہمیت :

سعودی عرب کی موجودہ حکومت آج اپنی معیشت کو پیٹرول کےعلاوہ دوسرے شعبوں سے جوڑنے کا عزم رکھتی ہیں ، سعودی عرب آمدنی کے ایک نئے وسیلے کے طور پر سیاحت پر بینکاری کررہا ہے۔ فی الحال پیٹرول سعودی عرب کی برآمدی آمدنی کا 90 فیصد بنتا ہے اور اس کی جی ڈی پی میں تقریبا 40 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ سنہء 2016 میں ، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے آئندہ دو دہائیوں کے دوران سعودیہ کے لئے ایک روڈ میپ سعودی وژن 2030 کا اعلان کیا جس کا مقصد اسے افریقی ، ایشیا اور یورپ کو ملانے والی تجارت اور سیاحت کے عالمی مرکز میں تبدیل کرنا ہے۔
سعودی عرب نے ستمبر 2019 میں پہلی بار اسی سلسلے میں سیاحتی ویزا جاری کیا ، جس سے غیر ملکی اور مذہبی مقصد کے بغیر غیر آرام دہ اور پرسکون زائرین کو ملک میں داخلے کی اجازت مل گئی۔ اپنے پراسرار ، چشم کشا فن تعمیر کے ساتھ الحجرا ، سعودی عرب کو سیاحوں کے لئے سیاحت کی مارکیٹنگ میں نمایاں انتخاب ہے۔ سعودی عرب میں کئی ایسے تاریخی مقامات ہیں لیکن یونیسکو نے سب سے پہلے صرف مدائن صالح کو عالمی تاریخی انسانی ورثہ قرار دیا رھا۔ یونیسکو نے مدائن صالح کے نام سے یہاں میوزیم کا بھی سنگ بنیاد رکھا ہے۔ اس میوزیم میں مدائن کی قدیم تاریخی عمارات کے نادر نمونے اور علاقے سے ملنے والی قدیم اشیاء رکھی گئی ہیں۔ آنے والے دنوں میں سعودی حکومت نے مدائن صالح کو ایک ریلوے لائن کے ذریعے مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ اور جدہ سمیت کئی دوسرے شہروں سے ملانے کا بھی اہتمام کیا ہے۔

چونکہ ابتداء سے ہی اس علاقے کو ایک غلط فہمی کے طور پر ذہنوں میں یہ بات بیٹھا دی گئی کہ چونکہ ”مدائن صالح“ کا تعلق قوم ثمود سے ہے۔ جسے ہیبت ناک آواز کا عذاب دیکر ہلاک کیا گیا تھا لہذا اس کی سیر و سیاحت کیلئے جانا حرام ہے۔ حالانکہ اب ماہرین آثار قدیمہ سے یہ بات طے ہوگئی ہے کہ پہاڑوں کو تراش کر بنائے گئے محل اگر دیکھے جائیں تو انہیں دیکھ کر آپ حیران اورششدر ہوجائیں گے اور حیرانی کی وجہ صرف اتنی ہی نہ کہ یہ محل بڑے خوبصورت ہیں بلکہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے 100 برس پہلے بنائے گئے تھے۔ یہاں نبطی اور ان سے پہلے لحیانی اور داوانی سکونت پذیر تھے۔ وہاں پہنچ کر آپ کو اسکا جواب مل جائے گا اور مشاہدہ اور آثار نے ثابت کیا ہے کہ پہاڑوں کو تراش کر بنائے گئے ”دروازے “ رہائشی مکان نہ تھے بلکہ یہ تنگ کمرے تھے جو مُردوں کو دفنانے کیلئے تراشے گئے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے قوم ثمود کی سنگ تراشی کے حوالے سے جو بات کہی ہے وہ ”مدائن صالح“ نامی مقام پر پہاڑوں کو تراش کر بنائی گئی ہے،قبروں پر صادق نہیں آتی۔ قرآن میں تو یہ کہا گیا ہے کہ وہ پہاڑوں کو تراش کر زندہ انسانوں کے رہن سہن کیلئے پرشوکت گھر بنایا کرتے تھے۔

مدائن صالح“ میں جو کچھ دیکھا جارہا ہے اور سائنسی اور آثار قدیمہ کے ماہرین کے ہمراہ جو کچھ ریکارڈ کیا جارہا ہے اسے سعودی عرب کے مقامی مجلوں اور جریدوں میں سلسلہ وار ”الشرق الاوسط“ اور پھر ”الریاض“ ، ”الوطن“ میں شائع کیا جاچکا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن الانصاری نے بھی تحقیقی تحریر میں ثابت کیا کہ مدائن صالح کے پہاڑ درحقیقت نبطیوں کے خاندانی پہاڑی قبرستان ہیں ۔ اس کا نمایاں ترین ثبوت یہ ہے کہ نبطیوں نے اپنی سنگ تراشی کی تاریخ نقوش کی صورت میں ریکارڈ کی ہے۔ انہوں نے مدائن صالح کی تراشیدہ قبروں کے نقوش میں تحریر کیا ہے کہ یہ انکے خاندانوں کی قبریں ہیں۔اس حوالے سے قدیم ترین کتبہ سو برس ماقبل مسیح کا ہے جو وائلہ بنت حرام کمکم کی قبر پر لگا ہوا ہے۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مدائن صالح میں” پہاڑی درہ “ ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد تراشے گئے ہیں اس سے قبل نہیں۔

قرآن کریم نے انبیائے کرام علیہم السلام کی جو ترتیب بیان کی ہے اس کے مطابق حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کیلئے مبعوث کیا گیا تھا۔ انکی بعث حضرت نوح اور حضرت ھود علیہم السلام کے بعد اور حضرت ابراہیم ، حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام سے پہلے ہوئی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سیدنا لوط علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہمعصر تھے۔ علماء اور تاریخی روایات کے مطابق حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے درمیان 1500برس سے زیادہ کا فرق ہے اور ہمارے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان 3500برس سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام (جو ابراہیم علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہوئے تھے) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کتنے سال کا فاصلہ ہے؟ ہزاروں برس کا ہے لہذا اگر موجودہ مدائن صالح کے محل نبی صالح علیہ السلام کی قوم کے مان لئے جائیں جیسا کہ عوام میں رائج ہے تو ان کی عمر تقریباً 9 ہزار برس ماننی ہوگی جبکہ انکی بابت کہا جارہا ہے کہ یہ صرف 2100 برس پرانے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان آثار قدیمہ کا حضرت صالح علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں اور وہ الحجرا میں سکونت پذیر تھے تاہم موجودہ آثار کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تاہم اب الحجراء Hegro کی تاریخ کا ایک نیا باب ابھی شروع ہورہا ہے ، پہلے غیر ملکی سیاحوں کو حکومت کی جانب سے دیکھنے کے لئے خصوصی اجازت لینا پڑتی تھی ، جو سالانہ ایک ہزار سے بھی کم افراد کو ملتی تھی ۔ لیکن اب یہ اتنا ہی آسان ہے جتنا 95 سعودی ریال (لگ بھگ) 25) میں آن لائن ٹکٹ خریدنا۔ العلاء کا ہوائی اڈہ ، الحجرا سے تقریبا 35 میل دور ہے ، سعودی محکمہ سیاحت سنہء 2035 تک ، العلاء میں سالانہ 20 لاکھ سیاحوں (ملکی اور بین الاقوامی) کو راغب کرنے کی امید کر رہا ہے۔ اور غیر ملکیوں کی آمد کی توقع میں یہاں پہلے بھی بڑے پیمانے پر تزئین و آرائش کی جاچکی ہے ، جس سے اس کی سالانہ آمدورفت چار گنا بڑھ گئی ہے۔ الحجرا میں نبطیوں کے کام سے متاثر ہو کر چٹانوں میں ہی ایک جدید ترین “ہوٹل بنایا جارہا ہے ، جو 2024 میں مکمل ہوگا۔ اس پر میرا مضمون مکالمہ پر پہلے  پبلش ہوچکا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply