غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔9)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم ِ سماع
ٍ گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
——–
طالبعلم ایک
“جاں”اور ” دم ِسماع”ہیں اسماءالصفات
“چنگ و ربا ب ” ہیں مگر اشیاء کے اسم ِخاص
ان کے معانی،ماحصل دیکھیں گے غور سے

طالب علم دو
لیکن “دم ِ سماع” ہے کیسا وہ ثانیہ
جس میں نکلنے لگتی ہے اس جسم سے حیات؟
دیکھیں گےیہ بھی، پر “صدا” ہے اہم تر اِک لفظ
سنگیت ہی “صدا” ہے کسی بھی سماع کی
اور یہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
گویا کہ یہ صدا نہیں الفاظ کی کفیل
گویا کہ صرف”راگ” پر ہے اس کا انحصار
گویا کہ “بول”، “تان” نہیں اس کے”ساج باج”
ہے صرف اک “صدا” ، مگر دلدوز، خوش آہنگ

طالبعلم ایک
با معنی و تفہیم ہے یہ بحث، پر سنو
چنگ و رباب کی یہ صدا ہے ورائے لفظ
گویایہ “لفظ” کا نہیں، “آہنگ” کا ہے کھیل
گویا کہ ہے موسیقیت خود میں ہدیح و صاف
گویا کہ “ناطقہ” نہیں اس میں بروئے کار
چنگ و رباب ہیں اگر اس بات کے کفیل
تو “ساز ” کا مقام ہے بہتر زبان سے

طالبعلم دو
موسیقیت “صدا ” بھی ہے اور راگ رنگ بھی
یہ “کُن” کی صوت بھی ہے اور سکرات ِمرگ بھی
یہ وہ صدا ہے جس کی سماعت ہے “جاں فزا”
“جاں کیوں نکلنے لگتی ہے” سے کیا مراد ہے؟
گویا خوشی سے دل کو ہے تفریح کا احساس
“کن رس” یہی ہے، نغمگی سُر تال کی، جناب”

استاد ستیہ پال آنند
“جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم َسماع؟”
لے ، تال، “سُر” کی نغمگی، تانوں کا ہیرپھیر
اس کی اساس “گت” ہو کہ “استھائی” ہو کہ” کھرج”
ہو “مدھ” میں ، یا “ولمپت” و”اُپناس”” میں یہ تان
اصناف میں ہو “دادرا”، “ٹھُمری” کہ اک “خیال”
سب “ایک ” ہیں کہ ان کی “صدا” صرف “ایک” ہے
جو بھی ہو ، یہ صدا تو ہے لفظوں کا شعشعہ

طالبعلم ایک
پھر کیوں نکلنے لگتی ہے آناً دم ِسماع
یہ جان، جو ہے تن کے تحفظ کی چوکیدار؟

طالبعلم دو
شاعر کا ہے سوال تو سیدھا جنابِ من

استاد ستیہ پال آنند
اس کا جواب بھی نہیں ٹیرھا، جناب ، من
شاعر “خوشی میں مرنے ” کا مضمون باندھ کر
گویا یہ کہہ رہا ہے کہ کچھ فرق ہی نہیں
شعر و سخن کے اور موسیقی کے درمیاں

طالبعلم دو
یا نرخرہ بجنے کا بھی آہنگ، وقت ِ مرگ

Advertisements
julia rana solicitors

استاد ستیہ پال آنند
اب تم شرارتوں پہ اتر آئے ہو اگر
میرا خیال ہے کہ یہیں اس کو روک دوں!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply