• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکہ اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنے کا پابند نہیں۔۔اسد مفتی

امریکہ اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنے کا پابند نہیں۔۔اسد مفتی

امریکی فوجی اڈے فورٹ کیمپ ے انچار جنرل سٹیفن ٹاؤن سینڈ نے اپنے ایک انٹر ویو میں کہاہے کہ اس سال فروری تا اپریل ان تین ابتدائی مہینوں میں اوسطاً ہر ہفتے ایک امریکی فوجی نے خود کشی کرلی،ایک دوسری خبر کے مطابق ہالینڈ کے ایک روزنامے نے لکھا ہے کہ وسط مشرقی ریاست کینٹکی میں امریکی فوجی اڈے کیمپ سیل میں گزشتہ پانچ ماہ کے دوران 11فوجی اہلکار جنگ کے نفسیاتی اور ذہنی دباؤ کے نتیجے میں خود کشی کرچکے ہیں۔۔۔
رواں سال کسی بھی امریکی فوجی اڈے پر اہلکاروں کی خود کشیوں کے حوالے سے سب سے بڑی تعداد ہے،اس صورت حال میں فورٹ کیمپ کے کمانڈر نے تمام فوجیوں کے معمول کے فرائض کو تین دن کے لیے معطل کردیا۔۔تاکہ وہ ان خودکشیوں کے اسباب کا پتہ لگا سکیں۔۔اور ممکنہ طور پر خود کشی کرنے والے دیگر فوجیوں کی مدد کرسکیں۔۔واضح رہے کہ گزشتہ برس 128امریکی فوجیوں نے خود کشی کی تھی جبکہ 2019میں یہ تعداد 115تھی۔۔۔
امریکی افواج میں گزشتہ چند برسوں سے خود کشی کی شرح اموات بڑھ رہی ہے۔۔اس سلسلے میں اعلیٰ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان خودکشیوں کی بنیادی وجہ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں امریکی فوجیوں کی شمولیت ہے۔امریکی فوج کے سیکرٹری پینٹ گیرن کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے لیے سب سے اہم چیلنج ہے کہ خود کشی کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے۔۔اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہماری کوششیں جاری ہیں،امریکہ میں شائع ہونے والے سروے کے مطابق خود کشی کرنے والے فوجیوں میں 35فیصد ایسے فوجی ہیں جو محاذ جنگ پر لڑ رہے تھے۔۔جبکہ 30فیصد فوجیوں کو جنگی علاقوں سے دور رکھا گیا تھا،ان 30فیصد فوجیوں میں ایک چوتھائی وہ فوجی اہلکار تھے۔۔جو پہلی بار جنگ میں حصہ لے رہے تھے۔۔۔عراق اور افغانستان کے محاذوں سے واپس امریکہ پلٹنے والے فوجیوں کی ایک بڑی تعدا د نے ایک سال سے دو سالوں کے اندر خود کشی کرلی۔۔ان خودکشیوں کی شرح چونکا دینے والی ہے۔۔ایک بورڈ کے مطابق امریکی فوجیوں میں خود کشی کی شرح امریکی معاشرہ میں سوئلین خودکشیوں کی شرح سے بڑھ گئی ہے۔۔ایک واقعہ پیش خدمت ہے،
فریڈرک سہی ایک امریکی سپاہی ہے۔۔اور امریکہ ے لیے اس نے گراں قدر دمات سرانجام دی ہیں،عراق کی جنگ میں اس نے بطور فوجی معالج اپنے فراض انجام دیے ہیں۔محاذ جنگ پر معمول کے واقعات کے علاوہ اس کے ساتھ کئی سنگین واقعات بھی پیش آئے۔۔مگر جب سے ہسی امریکہ لوٹا ہے،اس کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔۔وہ بتاتا ہے کہ ایک موقع پر جب گرینیڈ سے دھماکہ کیا گیا تو میرے دماغ نے کام کرنا بند کردیا۔۔۔اس صورتِ حال کی وجہ سے ہسی کو واپس امریکہ بھیج دیا گیا۔۔مگر جب وہ گھر لوٹا تو اس کا سکون برباد ہوچکا ہے،اس کے سر میں مستقل درد رہتا ہے۔۔اسے نیند نہیں آتی،وہ بہت سی باتیں بھول جاتا ہے،ہسی کا کہنا ہے کہ وہ ایک سنگین بیماری کا مریض بن چکا ہے،یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا تعلق دماغ سے ہے،اور جس کی وجہ سے انسان کو متعدد بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔۔۔جبکہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہسی کے دماغ پر شدید چوٹیں آئی ہیں۔۔اور دماغی طور پر وہ مفلوج ہوتا جارہا ہے۔اور صرف یہی نہیں بلکہ اسے زکام،سردرد،بے خوابی،چونکنے اورکمزور یاداشت کی خرابی کی بیماریاں بھی لگ چکی ہیں، ہسی اب اپنے آبائی شہر کیرولینا ریاست میں مقیم ہے،اور اس کا کہنا ہے کہ پہلے لگتا تھامجھے ایسی کوئی خاص بیماری نہیں ہے،بلکہ میں عام شکایات میں مبتلا ہوں،مگر اب مجھے لگتا ہے کہ میرے ساتھ کوئی خاص معاملہ ہے۔۔میں بالکل بھی ٹھیک نہیں ہوں،حتیٰ کہ مجھے عراق جنگ میں اپنے ساتھیوں کے نام بھی نہیں یاد نہیں،اور جب میں جنگ کے دنوں کے بارے میں سوچنے کے لیے اپنے دماغ پر زور ڈالتا ہوں تو میرے سر میں درد شروع ہوجاتا ہے،یہاں آپ کو یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ صرف فریڈرک ہسی ہی نہیں بلکہ امریکہ کے بیشمار فوجی اپنے ساتھ اس طرح کی بیماریاں لے کر گھر لوٹے ہیں،تاہم ڈاکٹروں کے لیے یہ باعثِ حیرت ہے،کہ فوجیوں کو دماغی امراض کس طرح لاحق ہوسکتے ہیں،اور وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں جبکہ انہوں نے جنگ میں خاص فوجی ہیلٹ بھی پہن رکھے تھے،اور سر پر کسی چوٹ کا نشان بھی موجود نہیں ہے اور فوجیوں کے مختلف طبی ٹیسٹوں میں کوئی بھی ایسی علامت نہیں مل رہی جس کا تعلق دماغی امراض سے ہوتا ہے،ایک اندازے کے مطابق سال 2018 میں امریکہ واپس لوٹنے والے فوجیوں کی تعداد اڑھائی ہزار تھی،جن میں 62فیصد فوجی دھماکوں سے متاثر ہوئے تھے،جبکہ صرف 2فیصد فوجی وہ تھے جنہوں نے گولیوں سے زخم کھائے تھے۔۔
ڈاکٹرز اس بات سے فکر مند ہیں کہ اگر دھماکہ ہوتا ہے تو اس سے جسمانی نقائص ضرور پیدا ہوجاتے ہیں،مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے،کہ اس سے دماغی صلاحیتیں متاثر نہ ہوں،یہاں تک کہ فوجیوں کو اپنے جنگی معاملات و واقعات یاد کرنے میں بھی دشواری پیش آئے۔
میں نے بائبل میں کہیں پڑھا ہے کہ وہ لوگ جو تلواروں کے سائے میں رہتے ہیں،ان کا خاتمہ بھی تلواروں ہی سے ہوتا ہے۔
تم ہمیں گردِ سفر جان کے رسوا نہ کرو
ہم تمہیں راہ دکھانے کے لیے زندہ ہیں

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply