• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ” گہری ریاستوں کے دہشتگردانہ اتحاد” ( Deep States Terrorism Alliance ) ۔۔ بلال شوکت آزاد

” گہری ریاستوں کے دہشتگردانہ اتحاد” ( Deep States Terrorism Alliance ) ۔۔ بلال شوکت آزاد

اس سے محبت کریں یا اس سے نفرت کریں ، ڈیپ اسٹیٹ اب ہماری لغت کا ایک حصہ ہے, یہ تصور جدید ترکی سے نکلا ہے ،جہاں اس سے مراد کسی ریاست کا کوئی خفیہ معاملہ ہوتا ہے ، جو عام طور پر سکیورٹی خدمات اور / یا فوج میں ،باضابطہ سیاست اور سیاسی واقعات کو اپنے مقاصد سے جوڑ دیتا ہے۔

پچھلی ایک سے دو دہائیوں کے درمیان” گہری ریاست” (Deep State) کی اصطلاح بطور خاص امریکہ کے لیے مستعمل رہی ہے ایسے اسکالرز اور صحافیوں کی طرف سے جو امریکہ کی فوجی مداخلتوں, دیگر ممالک میں گھٹ جوڑ کی سیاست اور امریکی آمریتی خارجہ پالیسی پر جاری مباحث میں محاوراتاً اس اس کا ذکر کرتے ہیں۔

گہری ریاستوں (Deep States) کا اصل ایجنڈا دراصل دہشتگردی کے خفیہ اتحاد (Secret Terrorism Alliance) کی حفاظت کرنا اور ریاستوں کو “ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس” (Miltary Industrial Complex) میں بدل کر حکومت اور ریاست کے کندھے پر چڑھ کر وسائل کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرنا ہے۔

حالیہ امریکی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو پورا یقین ہے کہ اسے جوبائیڈن نے نہیں بلکہ امریکی گہری ریاست اور دہشتگردی کے اتحاد نے شکست سے دوچار کیا ہے کیونکہ ٹرمپ کی چار سالہ حکومت میں جو کام شدومد سے ہوا وہ تھا امریکی گہری ریاست کے دہشتگردی اتحاد کا تار و پود بکھیر کر امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو ڈس ایبل یا کم سے کم محدود کرنا۔

لامتناہی جنگیں, غیر اعلانیہ جنگیں اور مداخلتی جنگیں دراصل ہر ریاست کی حکومت کی ناک کے نیچے پنپ رہی گہری ریاست (Deep State) کا بنیادی قدم اور ریاست کی بقاء کی کنجی ہے لیکن جب یہی گہری ریاستیں ان جنگوں کا سامان (ٹیررازم) پیدا کرکے خود اسی سامان جنگ کا سدباب (وار اگینسٹ ٹیررازم) کرنے نکل پڑتی ہیں تب دنیا جس تباہی کا مشاہدہ کرتی اور خراج بھرتی ہے اسے آپ اور ہم ٹیررازم اور وار اگینسٹ ٹیررازم کے نام سے جاری عالمی افراتفری کے طور پر جانتے ہیں۔

ڈیپ سٹیٹس یا گہری ریاستوں کے ابتک کے مطالعے و مشاہدے سے یہ عقدہ بھی کھلا ہے کہ جنگ جیسے منافع بخش کاروبار میں شامل سٹیک ہولڈرز میں متشدد ریاستی سیاسی عناصر, سازشی بیوروکریٹس, طاقتور ملٹری پرسونلز, مخفی اداروں کے سرکردہ افراد ہی نہیں بلکہ گہری ریاست کے حامی سرمایہ دار, جاگیردار, سماجی افراد اور صحافتی عناصر بھی سرفہرست ہوتے ہیں اور موجودہ دور میں چونکہ انٹرنیٹ کی بدولت ایک وسیع سائبر سپیس وجود میں آچکی ہے جہاں گلوبل ویلیج جیسے عالمی جدید نظریہ کی آڑ میں قائم سوشل میڈیا کو بھی میدان جنگ بنا دیا گیا ہے وہاں ففتھ جنریشن وار فیئر اور ہائبرڈ وار فیئر کے عنوانات سے گہری ریاستوں کی جنگی کشمکش اور چپقلش ٹھیک ٹھاک عروج پر ہے۔

درحقیقت اس وقت” گہری ریاستوں کا دہشتگردانہ اتحاد” ( Deep States Terrorism Alliance ) دنیا کے لیے اصل سردرد بنا ہوا ہے کیونکہ جتنی سرمایہ کاری گہری ریاستیں اس اتحاد کی نشونما, مخفی رکھنے اور محفوظ رکھنے پر کررہی ہیں اتنا سرمایہ حقیقی ریاستیں اپنے دیگر معاملات کو جاری رکھنے کے لیے بھی استعمال نہیں کرپارہی۔

ہر گہری ریاست کا دو نکاتی ایجنڈا ہے (خواہ وہ کوئی ریاست ہو), ایک تو عالمی سطح پر گہری ریاستوں کے دہشتگردانہ اتحاد کا حصہ رہنا یا اس سے باخبر رہنا اور دوم ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی تعمیر و ترقی پر خصوصی توجہ اور پہریداری۔

اس وقت مشہور ومعروف گہری ریاستوں میں سرفہرست امریکہ, اسرائیل, ایران اور بھارت ہیں جن کی حقیقی ریاستیں جو کردار ادا کررہی ہیں وہ ان کی گہری ریاستوں کے کردار کے سامنے عشر عشیر بھی نہیں۔
دہشتگردی کے مخفی اتحاد کی بھی ذمہ دار و پروردہ یہی گہری ریاستیں ہیں جبکہ انہی کی حقیقی ریاستیں دہشتگردی کے خلاف جنگ کا علم بلند کیے لامتناہی, اعلانیہ اور مداخلتی جنگوں میں پیش پیش ہیں۔

القاعدہ, داعش اور تحریک طالبان وغیرہ جیسی دہشتگردانہ تنظیموں اور ان کے سرکردہ رہنماؤں اور سلیپر سیلز کو دراصل انہی حقیقی ریاستوں کی گہری ریاستیں کنٹرول اور پرموٹ کرتی رہی اور کررہی ہیں تاکہ یہ خطوں میں بلخصوق مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء میں اپنی اجارہ داری قائم کرسکیں اور ساتھ ہی دہشتگردی کے مربوط نظام کی حفاظت کے ساتھ ساتھ گہری ریاستوں کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی تعمیر و ترقی کو یقینی بنا کر من مرضی کرتی رہیں۔

الزامی سیاست اور سفارت کے حاملین آئے روز گہری ریاست اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا بہتان پاکستان پر بھی باندھتے ہیں اور بعد از اس الزام کے وہ دہشتگردی کی اصل وجہ پاکستانی گہری ریاست کو قرار دیکر بحث و مباحث کرتے ہیں لیکن درحقیقت اس بات سے بلکل انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہاں گہری ریاستوں کے سامنے اگر کوئی حقیقی اور اسکی گہری ریاست سینہ سپر ہے تو وہ پاکستان ہی ہے جو دراصل فرنٹ لائن پر اکیلی مذکورہ بالا حقیقی و گہری ریاستوں کے دہشتگردانہ اتحاد اور وار اگینسٹ ٹیررازم کے سکرپٹڈ ڈرامے پر مبنی جنگ لڑ رہی ہے اور یہ بھی تسلیم کہ پاکستان کی گہری ریاست کی دلچسپی بھی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی تعمیر و ترقی میں ہے لیکن یہ فیکٹ بھی بہرحال موجود رہے گا کہ پاکستان کی حقیفی و گہری ریاست عالمی دہشتگردی کے خلاف ایک ہی صفحے پر ہے اور ان کا اولین مقصد اور بنیادی ترجیح امریکہ, اسرائیل, ایران اور بھارت جیسی حقیقی اور ان کی گہری ریاستوں کے طاغوتی ایجنڈوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔

” گہری ریاستوں کا دہشتگردانہ اتحاد” ( Deep States Terrorism Alliance ) اس وقت دنیا کی جیوگرافی بدلنے سے زیادہ دنیا کو افراتفری اور غیرمتوازن سیاسی و سفارتی ماحول میں دھکیلنے میں مصروف ہے۔

اسرائیل نارملائزیشن اور عرب لیگ کے پروردہ و طاقتور ممالک کا آزاد و خودمختار عالمی ذرائع ابلاغ میں تواتر سے ذکر ہونا اور دوسری طرف وار اگینسٹ ٹیررازم کے نام پر مداخلتی و غیراعلانیہ جنگیں اور کاروائیاں دراصل ” گہری ریاستوں کے دہشتگردانہ اتحاد” ( Deep States Terrorism Alliance ) کی خطرناک چالیں اور تحرک ہے۔

خیر دنیا اس وقت حقیقی ریاستوں کی جانب سے وار اگینسٹ ٹیررازم اور گہری ریاستوں کی جانب سے ٹیررازم الائنس کی دہشت کے درمیان پھنسی ہوئی ہے جبکہ گہری ریاستوں کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی چمنیاں سرمایہ کاری کے بعد منافع کا دھواں دھڑا دھڑ خارج کیے جارہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

” گہری ریاستوں کے دہشتگردانہ اتحاد” ( Deep States Terrorism Alliance ) کے پتوں میں ابھی بہت سے پتے شو ہونا باقی ہیں, لیٹس ویٹ اینڈ سی۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply