سردیاں اور رومانس: ایک مغالطہ ۔۔۔ معاذ بن محمود

۲۰۱۳  کی فروری کے ساتویں یوم باچیز عرب کے تپتے ریگستانوں میں جا پہنچا تھا۔ اس روز سے متواتر شاذ ہی ایسا دن گزرا ہوگاجب بندے نے دن کا آغاز غسل شریف سے نہ کیا ہو۔ یکم نومبر ۲۰۲۰ کو البتہ حالات بدل گئے۔ میں اماں کے پاس راولپنڈی آنپہنچا جہاںپولی پولیٹھنڈ شروع ہو چکی تھی۔ گھر پر گیزر کا انتظام موجود ہے تاہم گیزر کے استعمال سے فوری پہلے اور فی الفور بعدگرم ٹھنڈے پانی کی مناسب آمیزش کے دوران جو کچھ سہنا پڑتا ہے، مجبوری نہ ہو تو اس استعمال کو متروک کرنے میں فائدےزیادہ نظر آتے ہیں۔ ذہن میں پہلا خیال یہی آتا ہے کہ بندہ ایسی مجبوریاں پالے ہی کیوں کہ ٹھنڈ میں نہانا مجبوری بن جائے؟

اور آپ کہتے ہیں کہ سردیاں رومان انگیز ہوتی ہیں؟

عام حالات میں صبح کا آغاز نہانے دھونے سے کرنا میرے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے بغیر سستی کی نحوست جان نہیںچھوڑتی۔ نیند پوری نہ ہوئی ہو، جو کہ اکثر میرے ساتھ ہوتا ہے، تو شاور لینے کے بعد کافی بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ شاور کے بغیر دنبھر نحوست کا استعارہ بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسے میں بیڈ شریف پر پڑے پڑے پورا دن گزر جانا ایک عام سی بات ہے۔ ویسے تو نہادھو کر بھی دل تو بیڈ پر ہی گزارنے کا چاہتا ہے، تاوقتیکہ بندہ مدینے سے پیدل چوڑ چوک آنے کا شوقین نہ ہو، یا حکیم سے علاج نہ چلرہا ہو۔ بہرحال مدعا یہ ہے کہ صبح سویرے شاور لیے بغیر دن بھر نحوست سے بھرپور گزرنا برحق ہے، اور سردیوں میں یہ شاور لیناایک کٹھن ٹاسک ہے۔

اور آپ کہتے ہیں کہ سردیاں رومان انگیز ہوتی ہیں؟

تاریخ ثابت کرتی ہے کہ گرم پانیوں تک رسائی ایک عالمی مسئلہ رہی ہے۔ روس اسی چکر میں اپنے حصے بخیے کروا بیٹھا۔ چین اربوںڈالر پھونک کر بھی دوسروں کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ امریکہ بہادر تو خیر بغیر مسلم شاور ٹشو سے گزاراکر لیتا ہے، پھر بھی گرم پانی کی لالچ سے بری الذمہ وہ بھی نہیں ہوا۔ کئی ممالک ایسے ہیں جن کے پاس کھانے کو دانے نہیں لیکنگرم پانیوں کا غرور پوری پوری معاشرتی علوم کی درسی کتب بھرے رکھتا ہے۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاشرتی علوم کیان کتابوں میں بھی گرم پانی کا ذکر جہاں ہوا وہاں رومان کا ذکر عنقا ہے۔

اور آپ کہتے ہیں کہ سردیاں رومان انگیز ہوتی ہیں؟

اس ضمن میں ایک عدد تازہ ترین ذاتی تجربہ نوٹ فرمائیے۔ باچیز دو روز قبل وادی سوات کے تین روزہ دورے کی نیت کر کے سفرپر نکلا۔ سفر کا قصد کرتے بڑے رنگین خواب سجائے نکلا تھا۔ ہوٹل میں رہیں گے، شام کو چائے پیا کریں گے، رات کو رومان انگیزچہل قدمی کریں گے، وغیرہ وغیرہ۔ دوران سفر مینگورہ تک رفع حاجت کی ضرورت پیش نہ آئی۔ کھانے کے فوراً بعد ہمارے الٹرافاسٹ معدے نے مس کالیں دینا شروع کیں۔ نتیجتاً بیت الخلاء کا رخ کرنا پڑا۔ تفصیل میں جائے بغیر مختصراً عرض کروں توصاحب، باہر نکل کر ہاتھ دھونے کے بعد ہاتھوں کا وجود بے وجود ہو چکا تھا۔ پانی اس قدر ٹھنڈا کہ سب کچھ سن اور نیلا۔ پس،باچیز نے غیر نصابی سرگرمیوں کے تمام ارادے وہیں کھڑے کھڑے منسوخ کیے اور اس رات رضاکارانہ طور پر تخلیہ میں محوِ خوابہونے کا فیصلہ کیا۔ یار خدا کی قسم بہت ٹھنڈا پانی تھا۔ اس پر مزید ستم یہ کہ سردی بھی خوب۔ اس رات میں نو بجے ہی سو گیا، وہبھی ایک عدد جیکٹ، ایک عدد بچے اغوا کرنے والی شال اور دو عدد ٹراؤزر پہنے۔ مستورات کو ہال کے دوسرے کونے میں موجودکمروں میں بھیج دیا تاکہ کسی قسم کی حریت پسندی سے دماغ دور رہے۔ مزیدبرآں، تین روزہ منصوبے کو یک روزہ منصوبے میں تبدیلکر کے اگلی شام اسلام آباد کے لیے روانگی کر ڈالی۔

اور آپ کہتے ہیں کہ سردیاں رومان انگیز ہوتی ہیں؟

باچیز کا مشاہدہ ہے کہ ان تمام علاقوں میں جہاں برفباری نہیں ہوتی، انسان کتوں کی رفتار سے افزائش نسل میں مصروف رہتا ہے۔نیز، ایسے میدانی علاقہ جات میں افزائش نسل ذوق و شوق کی صورت میں جاری رہتی ہے۔ آپ پنجاب یا کے پی کے کسی میدانیگاؤں کو اٹھا کر دیکھ لیں، گلی میں بچے ایسے پھر رہے ہوں گے جیسے سپیم فولڈر میں ای میلز۔ دوسری جانب پہاڑی علاقوں میںافزائش نسل پر مجبوری کے تحت عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ کالام سے مالم جبہ تک ہر مقام پر ڈیڑھ درجن بچے دیسی انڈے بیچتے نظرآئے۔ کوئی پکا مرد گرم انڈے بیچنے کے اس کام میں ملوث نہ تھا۔ اس سے میرے نظریے کو مزید تقویت یوں ملتی ہے کہ پہاڑیعلاقوں میں چونکہ انڈے زیادہ ہوجاتے ہوں گے لہذا ان کی کھپت کے لیے بچوں کا موجود ہونا مجبوری بن جاتی ہوگی۔ پس اسیضرورت کو پیش نظر رکھتے افزائش نسل ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری جانب میدانی دیہی علاقہ جات میں ایک ہی کمرے میں دو بندےسوئیں یا بارہ، الحمد للّٰہ گھر کے افراد میں اضافہ ہر سال پوری استقامت کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ ٹھنڈ میں اس شوق کا ذوق رکھناخطرناک ہے کہ میرے ہاتھوں کی طرح ٹھنڈے پانی سے سامنا ہونے پر کچھ بھی نیلا پڑ سکتا ہے۔

اور آپ کہتے ہیں کہ سردیاں رومان انگیز ہوتی ہیں؟

سردی کا خوف صرف مرد کو نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر آپ اپنے ایک ہاتھ کو سارے دن اور نصف شب تک غلاف میں لپیٹکر رکھیں۔ اس کے بعد اچانک دوسرے ٹھنڈے ہاتھ سے گرم ہاتھ کو چھو کر دیکھیں۔ آپ خود اچھل پڑیں گے۔ بس یہی معاملہخواتین پر بھی لاگو رہتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، ٹھنڈ میں کسی قسم کی مہم جوئی یا گرم محفوظ جغرافیے پر ٹھنڈا وار جنس سے بالاتر ہو کر بھیایک عدد کاری اور خوفناک خیال رہتا ہے۔ یہ خوفناک تصور سوچ کر جھرجھری آجانا اور ایسے میں فوراً سے پیشتر کسی غیر نصابیسرگرمی کیآفرکو ٹھکرا دینا عین فطری ہے۔ مختصر یہ کہ اگلی بار کسیفرمائشپر انکار سنتے ہی آگ بگولہ نہ ہوں بلکہ اسے سردی کافطری تقاضہ سمجھ کر درگزر کا معاملہ فرمائیے گا ویسے بھی اچھے مرد اپنے کام خود کرتے ہیں۔

رہی بات سردی اور رومان کی، تو بھیا بھاڑ میں گئے دسمبر کے موسمی و غیر موسمی شعراء، گھر بیٹھ کر لحاف میں اللہ اللہ کرنے کیعادت ڈالیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سردیاں گھنٹہ رومان انگیز نہیں ہوتیں۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply