پئے نظر ِ کرم تحفہ ہے شرم ِ نا رسائی کا
بخوں غلطیدہ ء صد رنگ دعویٰ پارسائی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد ستیہ پال آنند
عزیزو ، پہلے میں ہی پوچھتا ہوں کچھ سوال اپنے
یہ تحفہ کیا ہے جو نظر کرم کے واسطے لایا ہے یہ سائل؟
یہ” شرم نا رسائی ٗٗکس حوالے سے ہے، بتلائیں
“پئے نظر ِ کر م” ہے، یہ تو ظاہر ہے، مگر کس کی؟
ذرا دیکھو کہ آخر کون ہے تحفہ بدست اس کا؟
طالبعلم ایک
بہت تاخیر سے آیا ہے سائل، یہ تو ظاہر ہے
یہی تاخیر شاید اس کی “شرم ِ نا رسائی ” ہے
کر م کی بھیک بھی کردہ گناہوں کی معافی ہے
کہ “دعو یٰ پاسا ئی کا” بھی ہے بد رنگ، “غلطیدہ”
طالبعلم دو
کہیں بھی “مَیں” (ضمیر خود) نہیں ہے دونوں مصرعوں میں
مگر یہ صاف ظاہر ہے کہ شاعر خود ہے گویندہ
طالبعلم ایک
مری رائے میں گویندہ کا مطلب صرف اتنا ہے
گناہوں میں ملوظ عمر ساری اس نے کاٹی ہے
قبول ِ جرم لیکن زندگی بھر التوا میں تھا
یہی تھی “نا رسائی” جس کو اب تسلیم کرتا ہے
مگر کیا ہے یہ دعوےٰ ؟ حق پرستی کا، ذرا دیکھیں
طالبعلم دو،
“بخوں غلطیدہ ء صد رنگ” یہ دعویٰ بھلا کیا ہے؟
کہ اس پر خون کے چھینٹے پڑے ہیں ان گناہوں کے
جنہیں روپوش رکھنا اب کہاں ممکن ہے سائل سے؟
طالبعلم ایک
کرم کی بھیک تو سائل یقیناً چاہتا ہے، پر
اسے یہ علم ہے اللہ سے دوری بھی غفلت تھی
وگرنہ عفو، استخلاص تو اب بھی یقینی ہے
استاد ستیہ پال آنند
عزیزو، خوب ہے یہ بحث، تم دونوں کو شاباشی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں